ستر ہزار کروڑ روپے کا سوال: بہار کا بےجواب اسکینڈ
بہار ایک بار پھر ایک بڑے مالیاتی اسکینڈل کی زد میں ہے — ایک ایسا اسکینڈل جس نے عوام اور سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ ستر ہزار کروڑ روپے کے مبینہ گھوٹالے نے ریاست کی شفافیت، نظم و نسق اور احتساب کے تمام دعوؤں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، یہ رقم مختلف ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کے لیے مختص کی گئی تھی، جن میں تعلیم، صحت، دیہی ترقی اور انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبے شامل تھے۔ تاہم، حیران کن طور پر ان فنڈز کا کوئی واضح حساب موجود نہیں۔ سرکاری کاغذات میں اعداد و شمار ہیں، لیکن زمینی سطح پر ان منصوبوں کی حقیقت کہیں نظر نہیں آتی۔
یہ اسکینڈل اس وقت منظر عام پر آیا جب آڈٹ رپورٹوں نے کئی محکموں میں غیر معمولی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی۔ مبینہ طور پر متعدد افسران، ठیکے دار اور سیاسی شخصیات اس مالی بدعنوانی کے دائرے میں آتے ہیں، لیکن تاحال کسی کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی سامنے نہیں آئی۔
ماہرین کے مطابق، اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو یہ ہندوستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ریاستی مالیاتی اسکینڈلز میں سے ایک ہوگا۔ عوامی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، اور اپوزیشن نے حکومت سے شفاف تحقیقات اور سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب حکومت کا مؤقف ہے کہ معاملے کی مکمل جانچ ہو رہی ہے اور جو بھی قصوروار پایا گیا، اسے بخشا نہیں جائے گا۔ مگر عوام کا سوال اب بھی اپنی جگہ قائم ہے — ستر ہزار کروڑ روپے آخر گئے کہاں؟
یہ سوال آج بہار کے عوام کے ذہنوں میں گونج رہا ہے، اور جب تک اس کا واضح جواب سامنے نہیں آتا، یہ اسکینڈل ریاست کی سیاست پر ایک سیاہ دھبہ بن کر رہے گا۔




























