تازہ تر ین

کارل پیٹرسن شمٹ: سانپوں کے ماہر جنھیں سانپ نے کاٹا اور انھوں نے اپنی موت کی ڈائری خود لکھی

لاہور (ویب ڈیسک) ستمبر 1957 میں شکاگو میں لنکن پارک چڑیا گھر کے ڈائریکٹر نے ایک سانپ کا بچہ شہر کے فیلڈ میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں شناخت کے لیے بھیجا۔76 سینٹی میٹر لمبے اس سانپ کا معائنہ سانپوں کے ماہر کارل پیٹرسن شمٹ نے کیا جو 33 سال کے زائد عرصے سے اس عجائب گھر میں کام کر رہے تھے۔ شمٹ مرجانی سانپوں میں خاص مہارت رکھتے تھے۔چنانچہ انھوں نے سانپ کے بچے کی شناخت کے کام کی ہامی بھر لی۔سانپ کا کاٹناکارل نے لکھا تھا کہ اس سانپ کی جِلد چمکدار رنگوں والی تھی اور اس کے سر کی شکل ایسی تھی جیسی جنوبی افریقہ میں درختوں پر رہنے والے سبز سانپوں کی ہوتی ہے جسے ‘بومسلینگ’ کہا جاتا ہے۔لیکن جس امر پر وہ حیران ہوئے وہ یہ تھا کہ اس جانور کی مقعد کی کھال جڑی ہوئی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے وہ کام کیا جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا یعنی انھوں نے اس سانپ کا مزید معائنہ کرنے کے لیے اسے پالنا شروع کر دیا۔جس سانپ نے شمڈ کو کاٹا وہ جنوبی افریقہ میں پایا جانے والا ایسا ہی سانپ بومسلینگ تھا۔جیسے ہی انھوں نے سانپ کو اٹھایا اس نے ان پر حملہ کیا اور انگوٹھے پر کاٹ لیا جس سے دو چھوٹے چھوٹے خون کے نشان بن گئے۔کارل نے اپنے انگوٹھے سے خون چوسنا شروع کر دیا اور طبی امداد لینے کے بجائے اس زہر کے اپنے اوپر پڑنے والے اثرات کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا۔24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ان کی جان جا سکتی تھی۔کارل کا آخری دن شاید کارل کا بہت سارے دیگر ماہر حشراتیات کی طرح یقین تھا کہ بومسلینگ نسل کے سانپ اتنا زہر پیدا نہیں کرتے کہ وہ انسانی جان لے سکیں۔چنانچہ اپنی موت سے چند گھنٹے قبل، وہ گھر گئے اور جسم پر زہر کے اثرات کے بارے میں ریکارڈ کیا۔امریکہ کے پبلک ریڈیو پی آر آئی کے پروگرام ‘سائنس فرائیڈے’ میں ایک ویڈیو ریلیز کی گئی ‘ڈائری آف اے سنیک بائیٹ ڈیتھ’ یعنی سانپ کے کاٹنے سے واقع ہونے والی موت کی ڈائری، جس میں ان کے آخری گھنٹے انہی ہی کی زبان میں پیش کیے گئے جو انھوں نے اپنی ڈائری میں قلمبند کیے تھے۔شمڈ نے شکاگو میں رینگنے والے جانوروں کا سب سے بڑا مرکز قائم کیا تھا4:30 – 5:30 شام: قے کے بغیر سخت متلی کی کیفیت۔ سب اربن ٹرین پر ہوم وڈ جاتے ہوئے۔5:30 – 6:30 شام: سخت ٹھنڈ اور کپکپاہٹ کے بعد 101.7 بخار۔ 5:30 پر منہ میں لعابی جھلیوں سے خون آنا، بظاہر مسوڑوں سے۔
8:30 رات: دودھ کے ساتھ ٹوسٹ کے دو ٹکڑے کھائے۔9:00 سے 12:20 رات: اچھی نیند آئی۔ رات 12:20 بجے پیشاب کیا جس میں زیادہ تر خون تھا لیکن کم مقدار میں۔4:30 صبح: پانی کا ایک گلاس پیا جس کے بعد شدید متلی کی کیفیت اور قے ہوئی، معدے نے شام کا کھانا ہضم نہیں کیا تھا۔ بہتر محسوس کیا اور صبح 6:30 تک سویا رہا۔طبی امداد سے انکارموت سے چند گھنٹے سے قبل کارل سے طبی امداد کے بارے میں پوچھا گیا۔ لیکن انھوں نے انکار کر دیا تاکہ وہ جو علامات محسوس کر رہے تھے وہ متاثر نہ ہوں۔اس کے بجائے انھوں نے اپنے سائنسی تجسس کی تسکین کے لیے ناشتے کے بعد نہایت احتیاط سے تحریریں لکھیں۔26 ستمبر صبح 6:30 بجے: جسم کا درجہ حرارت 98.2۔ سیریل اور ابلے انڈے ٹوسٹ کے ساتھ، سیب کی چٹنی اور کافی کا ناشتہ کیا۔ ہر تین گھنٹے بعد ایک اونس کے قریب پیشاب میں خون کا آنا۔ منہ اور ناک سے خون کا بہنا لیکن بکثرت نہیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv