تازہ تر ین

جلتی ٹرین فراٹے کیوں بھرتی رہی عملہ کہاں تھا ؟کئی سوالات ،جواب طلب

ملتان(میاں غفار سے) کراچی سے آنے والی تیز گام میں لیاقت پور سے چنی گوٹھ کے درمیان چلتی میں لگنے والی آگ جہاں سو سے زائد افراد کو جلا کر راکھ کرگئی وہاں بہت سے سوال بھی چھوڑ گئی جس کا جواب ریلوے حکام کے پاس پہلے اور نہ ہی کسی تحقیقاتی ادارے کو معلوم ہے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے دور اپوزیشن میں ریلوے حادثے کی ذمہ داری اس وقت کے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق پر عائد کی جاتی رہی۔ اس بارے انہوں نے یہ ذمہ داری مسافروں پر ڈال کر خود کو اس سے بری الزمہ قرار دے دیا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جس کی زبان چلتی ہے اس کے 10ہاتھ بھی چلتے ہیں اور رہا وزیر ریلوے کا معاملہ تو ٹرین چلے نہ چلے ان کی زبان بلا روک ٹوک خوب چلتی ہے۔ یہ حادثہ سو مسافروں کو نگل کر جو سوالات چھوڑ گیا ہے ان کا جواب جے آئی ٹی کے سوا کوئی نہیں کھوج سکتا اور معمولی معاملات پر بنائی جانے والی جے آئی ٹی کم سے کم اس لیے نہیں بنائی گئی کہ مرنے والے عام لوگ تھے، خاص نہیں جو چند سوالات اب تک سامنے آئے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں کہ ٹرین کی جس بوگی میں آگ لگی وہ محض 20سے25فیصد جلی جبکہ تیز ترین ٹرین میں سے مسلسل چنگاریاں اور لکڑی کے ٹکڑے اڑ کر ملحقہ بوگیوں تک پہنچے جس سے وہ بوگیاں بھی جل کر راکھ ہوگئیں اور اموات بھی انہی کوچز میں زیادہ ہوئیں۔ ٹرین کے آخر میں گارڈ کی بریک مسنگ تو ہوتی ہے لیکن گارڈ ہوش میں نہیں ہوتے کہ چلتی ٹرین کے اندر ہونے والے معاملات کو چیک کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ چلتی ٹرین 25سے30کلومیٹر تک چلتی رہی۔ عینی شاہدین کے مطابق لیاقت پور سے نکلتے ہوئے ٹرین کو آگ لگ چکی تھی اور وہاں سے چنی گوٹھ کا فاصلہ30 منٹ کا ہے اور ٹرین چنی گوٹھ کے قریب جاکر رکی گویا جلتی ہوئی ٹرین مسلسل فراٹے بھرتی رہی یہاں تک کہ کسی گارڈ ، ریلوے پولیس حتیٰ کہ انجن ڈرائیور کو بھی عمل نہ ہوسکا۔ جن بوگیوں کو آگ لگی ان میں زنجیر کھینچنے کا سسٹم ہی خراب تھا اور یہ زنجیر اے سی بزنس میں کسی نے کھینچی تو ٹرین رکی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صبح6بج کر26منٹ پر طلوع آفتاب کے وقت ڈرائیور اور اس کے ساتھی اہلکار چلتی ٹرین میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے اور انہیں نصف گھنٹہ تک علم ہی نہ ہوسکا کہ ٹرین میں کیا ہورہاہے۔ ٹرین میں کل16بوگیاں تھیں جس میں چوتھے ڈبے میں آگ لگی جو 20فیصد تک جلا اور دیگر دو ملحقہ بوگیوں میں بھی آگ لگی جس سے اموات ہوئیں کیونکہ جلتی ہوئی ٹرین میں آگ تیز ہوا چلنے سے بھڑکی اور اس کی چنگاریوں نے ایک دیگر دو بوگیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا۔ تمام ٹرینوں کی بوگیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہےں اور مسافر ایک سے دوسری بوگی میں آسانی سے جاسکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مسافر چھٹی ، ساتویں یا اس کے بعد والی بوگیوں میں کیوں نہ جاسکے۔ اس سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ ٹرین کی بوگیوں کے درمیان گزرنے والا راستہ بند تھا۔ اگر تھا تو انہیں جوڑا نہ گیا اور یہ بھی محکمہ ریلوے کی نااہلی ہے۔ ریلوے کے بعض ریٹائرڈ افسروں نے بتایاکہ صبح کے وقت اکثر رات کو جاتے ہوئے ڈرائیور غنودگی میں ہوتے ہیں اور یہ ٹرین رات روانہ ہوئی غالب امکان ہے کہ ٹرین کے انجن میں موجود عملہ گہری نیند میں ہوگا اور جو ایک آدھ جاگ بھی رہا ہوگا تو وہ بھی نیم غنودگی میں ہوگا جس نے آگ لگنے والی بوگیوں کو دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا اور انہیں مدد کےلئے چیخ و پکار کرنےوالے مسافروں کی آواز بھی سنائی نہ دی۔16سے زائد افراد کی موت جلتی ٹرین سے چھلانگ لگانے کی وجہ سے ہوئی جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ٹرین آگ لگنے کے بعد بھی رکی نہیں اور فراٹے بھرتی رہی۔
سوالات



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv