تازہ تر ین

ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ صرف نواز شریف نہیں پوری قوم کا تھا : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ مریم نواز صاحبہ نواز شریف کی صاحبزادی ہیں ان کی سیاسی جانشین بھی ہیں بلکہ نوازشریف نے ان کے لئے اپنے چھوٹے بھائی اور پنجاب کے 10 سال تک وزیراعلیٰ رہنے والے شہباز شریف کو بھی پیچھے ہٹا دیا اور ان کو آگے لانے کی کوشش کی میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا میں آج ان کی تقریر سن رہا تھا انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ جو ہے سو فیصد ان کا کوئی تعلق نہیں یہ نوازشریف صاحب کا یہ ایٹمی دھماکے کرنا ذاتی فیصلہ تھا میں یہ سمجھتا ہوںکہ ایسی بات نہیں ہے یہ ایک سیاسی جماعت کی حکومت تھی اور اس میں اس کا کوئی کریڈٹ جاتا ہے یقینا نوازشریف صاحب کو جاتا ہے لیکن وہ کریڈٹ جاتا ہے اس پارٹی کو جس کی حکومت تھی اور میں تو اس میٹنگ میں موجود تھا جس میں یہ بظاہر فیصلہ ہوا۔ پہلے بھی ہو چکا ہو گا لیکن اس میٹنگ میں نوازشریف صاحب نے اخباراتکے ایڈیٹرز کو بلایا تھا اور مجھے یاد ہے کہ مجید نظامی صاحب ہمارے سینئر ایڈیٹر تھے وہ سب سے بزرگ تھے وہ بیٹھے تھے ان کے بعد میں بیٹھا تھا اس طرح نوازشریف کے دائیں اور بائیں کرسیاں تھیں تو نوازشریف نے کہا اس وقت کی ذہنی فضا جو تھی وہ بتانا بہت ضروریہے شاید مریم نواز کو بھی یاد نہ ہو لیکن میں تو اس میٹنگ میں موجود تھا جس میں نوازشریف صاحب نے رائے پوچھی تو مجید نظامی صاحب نے یہ کہا کہ اگر آپ نے دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔ یہ ان کے الفاظ تھے جو چھپے بھی اگلے دن صبح۔ میں نے اس موقع پر کہا تھا۔ دوسرے نمبر پر میری باری آئی تو میں نے گفتگو کی اور میں نے یہ کہا کہ اس وقت جو بھارتی حکومت دھماکے بھی کر چکی ہے اور یہ بھی کہہ چکی ہے کہ وہ پاکستان کے جو لوگ گھس بیٹھئے جو مقبوضہ کشمیر میں آ گئے ہوئے ہیں اور یہاں وہ ہنگامہ کر رہے ہیں اور فساد پھیلا رہے ہیں تو ہم ان کی پرسو کریں گے اور ہاٹ پرسو میں جاتے ہوئے جو ان کے قبضے کو اپنے تئیں آزاد کشمیر کہتے ہیں ہم اس حصے میں جا کر ان کا پیچھا کریں گے۔ میں نے یہ جملہ کہا اور میں نے کہا جناب بات یہ ہے اب تو انڈیا کھلم کھلا دھمکی دے رہا ہے ہم آزاد کشمیر میں آکر بھی گھس بیٹھیوں کا پیچھا کریں گے اور یہاں تک وہ پہنچیں گے اس لئے اب اس کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں ہے کہ انڈیا کے دھماکوں کے مقابلے میں پاکستان دھماکہ کرے۔ بعد میں بہت سارے دوست جو تھے انہوں نے اپنی اپنی رائے دی صرف ایک رائے میرے بہت عزیز اور قوم دوست جناب مجیب الرحمن شامی صاحب کی رائے تھی انہوں نے کہا کہ ہمیں دھماکہ نہیں کرنا چاہئے۔ وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے دھماکہ کی مخالفت کی تھی ان کے پاس اپنی وجوہات تھیں ان کا نقطہ نظر تھا کہ اگر ہم اس ریس میں پڑ گئے تھے تو اس میں سے کبھی نہیں نکل سکیں گے۔ فیصلہ اس کے حق میں ہوا کہ نوازشریف صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے جی ہم دھماکے کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج مریم نواز صاحبہ کا یہ کہنا کہ اس میں کسی اور کا ہاتھ نہیں ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت قوم کا ایک مطالبہ تھا خاص طور پر انڈیا کی اس بات پر ہم گھس بیٹھیوں کا تعاقب کرتے ہوئے مظفر آباد تک پہنچیں گے۔جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ پر بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ الیکشن سے پہلے جنوبی پنجاب محاذ کے نام سے ایک بہت ساری پارٹیوں کا اتحاد بنا خاص طور پر جو امیدوار تھے اور پھر اس الائنس کی ایک گف و شنید ہوئی اور پی ٹی آئی سے اور اس اتحاد نے اپنی شرائط منوا کر جو کہ یہ تھی کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنایا جائے گا اور اس اتحاد نے پھر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔ پچھلے دنوں شاہ محمود قریشی صاحب جو وائس چیئرمین بھی ہیں تحریک انصاف کے انہوں نے یہ ایک وہاں قرارداد پیش کی قومی اسمبلی اور اس کا نعرہ بھی لگایا اور جنوبی پنجاب میں اس کو بڑی پذیرائی بھی ملی لیکن جنوبی پنجاب کا ایک حصہ جو ہے سابق ریاست بہاولپور بھی ہے یعنی بہاولنگر بہاول پور اور رحیم یار خان تین اصلاع جو ہیں یہ سابق ریاست بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں اور اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ سابق ریاست بہاولپور جس نے پاکستان بننے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا اور پاکستان بننے کے بعد مالی مدد کی حکومت پاکستان کی نواب آف بہاولپور نے لیکناس کے بعد پھر جب ون یونٹ ختم ہوا تو چاہئے یہ تھا کہ جس طرح سے کہا جاتتا تھا کہ ریاست بہاولپور کو سابق صوبہ کی شکل میں بحال کر دیا جائے گا لیکن انہوں نے بحال نہیں کیا۔ اب مسلم لیگ ق جو ہے جس کے ترجمان اس وقت میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں جناب کامل علی آغا صاحب سینٹ کے ممبر بھی رہے ہیں اور ایک بڑی سینئر پوزیشن میں ہیں اور چودھری برادران سے ان کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ یہ زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی جس کے قدرتی اتحادی بھی ہیں ان کی پارٹی جو پنجاب میں بھی شامل ہے کیونکہ جناب پرویز الٰہی کو سپیکر آف ہا?س بنایا گیا ہے جو کہ سینئر ترین پوزیشن ہوتی ہے صوبے میں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ طاہر بشیر چیمہ صاحب ان کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ صوبے میں ہی نہیں بلکہ وہ سنٹر میں ہا?سنگ کے وزیر ہیں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہوں نے ایک جداگانہ مطالبہ کیا ہے کہ ہم جنوبی پنجاب میں ایک صوبے میں شامل ہونے کو تیار نہیں ہم بہاول پور کو الگ صوبہ چاہتے ہیں۔ تو کیا بہاولپور کے الگ صوبے کی شکل کس حد تک کلیئر ہے مسلم لیگ ق میں اس کا جواب تو کامل علی آغا صاحب دیں گے تاہم اس پر روشنی وہی ڈال سکتے ہیں۔ضیا شاہد نے کہا کہ مجھ سے تو جتنی مرتبہ بھی اس میز پر سوال ہوا کہ تو اس نے کہا کہ میں اس کے حق میں ہوں کہ جس طرح لوگ چاہیں۔ اگر بہاولپور کے لوگ چاہتے ہیں کہ ملتان کے ساتھ متفقہ طور پر ایک بڑا صوبہ بنانا چاہتے ہیں جو بھی اس کا نام ہو تو پھر بن جانا چاہئے لیکن بہاولپور کے لوگ تینوں اضلاع کے لوگ اگر یہ چاہتے ہیں کہ بہاولپور کا الگ صوبہ بنایا جائے تو وہاں کے عوام کی بات ماننی چاہئے اس سلسلے میں ایک تجویز بھی چل رہی ہے کہ اگر ضرورت ہو تو اس معاملے میں ریفرنڈم بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایک بات بھی اپنے دوست کامل علی آغا صاحب سے ہماری پرانی دوستی ہے مسلم لیگ میں جب یہ مسلم لیگیں اکٹھی ہوتی تھیں تو اس وقت سے کامل علی آغا سے مسلم لیگ میں ہی ہر مسلم لیگ الگ ہوئی اور پھر مسلم لیگ ق کی شکل میں کہیں پر یہ مسلم لیگ ق میں چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی صاحب کے ساتھ گئے میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ میں تو خود ذاتی طور پر چشم دید گواہ ہوں کہ میں بھی جنوبی پنجاب کے صوبہ بنانے کے حق میں تھا میں نے پرویز مشرف سے 3 ملاقاتوں میں ان کو اس پر قائل کرنے کی کوشش کی جس پر انہوں نے کہا کہ آپ میری طرف سے چودھری شجاعت صاحب سے بات کریں وہ اس وقت مسلم لیگ ق کے صدر ہیں چنانچہ آرمی ہا?س پنڈی سے نکل کر سیدھا چودھری شجاعت کے پاس اسلام آباد میں گیا لیکن اس وقت چودھری صاحب اس بارے کوئی ذہن نہیں بنا سکے تھے چنانچہ انہوں نے مجھے کہا کہ پہلے میرا ایک بیان لکھو میں نے بیان لکھا اور سپر لیڈ کے طور پر اگلے روز کے خبریں میں چھپا اس میں چودھری شجاعت صاحب نے یہ کہا کہ ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی کوئی پنجاب کے ٹکڑے کر سکتا ہے اس وقت پرویز الٰہی صاحب پنجاب کے چیف منسٹر تھے اور ان کا بھی یہ خیال تھا مجھ سے کہہ رہے تھے کہ آپ کیوں پنجاب کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں لیکن بعد ازاں جو حالات ہوئے جس طرح سے لوگوں میں مطالبے ہوئے چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت صاحب نے خود بہاولپور کے صوبہ کی بھی حمایت کی اور جنوبی پنجاب میں وہاں الگ صوبے کی بھی حمایت کی۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جو بھی خیال اس وقت چودھری برادران اور مسلم لیگ ق ہے تو اس میں کس حد تک یقین کیا جائے کہ یہی موقف رہے گا کیونکہ میں اپنے سامنے ان کے موقف میں تبدیلی دیکھ چکا ہوں۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے غلام اسحاق کو بھی بڑا کریڈٹ جاتا ہے جو اس کے مالی معاملات کے نگران تھے پھر وہ چیئرمین سینٹ بنے اور پھر صدر مملکت بن گئے۔ اس زمانے میں یہ بات بڑی مشہور ہوئی تھی کہ غلام اسحق خان نے اس وقت کی وزیراعظم کو بھی کوٹہ میں نہیں جانے دیا تھا۔ بریگیڈیئر حامد سعید اختر نے سپریم کورٹ میں بیان دیا تھا کہ ہاں میں نے سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کئے تھے کیونکہ ہم اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو ک کے خلاف تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ بینظیر بھٹو نے امریکی سفیر اور نائب وزیرخارجہ کو یقین دلایا تھا کہ ایٹمی پروگرام کو روک دیا جائے گا، ایٹمی دھماکے نہیں کئے جائیں گے اور مزید ایٹمی استطاعت حاصل نہیں کی جائے گی۔ اس وقت فوج کے جن لوگوں نے سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کئے تھے جو بینظیر حکومت کے خلاف استعمال ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لئے کوئی ایک پارٹی یا وزیراعظم نہیں بلکہ پاکستان زیادہ عزیز تھا۔ یہ حقائق اب کئی کتابوں میں آ چکے ہیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv