تازہ تر ین

سچائی قتل ہو گئی ، کتنے لوگ تھے ؟ فیصلہ کیسے ہو گا ، سینئر تجزیہ کار نے سوال اٹھا دیا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ الیکشن آنے والے ہیں، حکومت جولائی میں عام انتخابات کرانے کا اعلان بھی کر چکی ہے اب ہونے ہیں یا نہیں یہ الگ باتت ہے۔ 80 فیصد لوگ کہتے ہیں کہ سینٹ کے الیکشن نہیں ہوں گے۔ کوئی کہتا ہے کہ خیبر پختونخوا اور سندھ اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے۔ نوازشریف نے علیحدہ طنز کیا ہے کہ 500 ووٹ لینے والا وزیراعلیٰ بن گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں الیکشن کا بائیکاٹ ہوا تھا۔ قوم پرستوں نے بائیکاٹ کیا تو اکثر علاقوں میں لوگ ووٹ ڈالنے نہیں نکلے تھے۔ لوگ ڈرتے تھے کہ باہر نکلے تو دہشتگردی نہ ہو جائے۔ ایک لحاظ سے نوازشریف کی بات درست بھی ہے لیکن دوسری طرف جو ایم پی اے نون لیگ میں شامل تھے ان کے ووٹ بھی اسی طرح تھے۔ بلوچستان میں بہت سارے علاقوں میں ایف سی اور پیرا ملٹری کی حکومت ہے۔ جس طرح خیبر پختونخوا میں فاٹا اور وزیرستان میں۔ وزیرستان میں فوجی آپریشن بھی ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے جو متحدہ اپوزیشن کے جلسے میں خالی کرسیوں کی تصاویر اپ لوڈ کی ہیں وہ درست ہوں گی لیکن جلسہ شروع ہونے سے پہلے کی ہوں گی۔ اطلاعات کے مطابق مجمع لاکھ سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھا۔ جو لوگ حکومت میں ہوتے ہیں انہیں اپنے اردگرد خوش آمدی لوگ رکھنے کی عادت پڑی ہوتی ہے یہ ہر دور میں ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی کوئی پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ نواز شریف جب بھی اقتدار میں آتے ہیں کوئی ان کو نقصان نہیں پہنچاتا وہ خود اپنے لئے کافی ہوتے ہیں۔ مجیب الرحمن والا بیان دینے کی کیا ضرورت تھی، نہ جانے کون ان کو مشورے دیتا ہے ہمیشہ ایسی غلطیاں کرتے رہے۔ پرویز مشرف کی باری بھی وہ سری لنکا گئے ہوئے تھے تو نوازشریف نے نیا آرمی چیف مقرر کر دیا۔ اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ خواجہ ضیاءالدین کو مصنوعی وردی پہنا کر تصویر کھینچی اور اعلان کر دیا کہ یہ نئے آرمی چیف ہیں جبکہ وہ لرزتے تھے اور جی ایچ کیو میں جا کر چارج بھی نہیں لے سکتے تھے۔ نوازشریف کو خواجوں اور بٹوں پر بڑا اعتماد ہے۔ ان کا 80 فیصد سٹاف خواجوں اور بٹوں پر مبنی ہے۔ مشرف کا طیارہ وطن واپس آیا تو انہوں نے کہا کہ انڈیا لے جاﺅ، کراچی نہیں اترنے دیا۔ اس زمانے میں نوازشریف نے فوج کو لات ماری۔ سب سے پہلے میں نے اپنے پروگرام میں کہا تھا کہ نواز نے غلط کیا۔ ان کے مشیر سمجھ سے بالاتر ہیں ان کو کوئی نہیں سمجھاتا کہ اگر آپ یہاں انڈیا کی بات کریں گے، مجیب الرحمن کو محب وطن قرار دیں گے، حسینہ واجد کیلئے دعا کریں گے تو یہاں لوگ پسند نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آصف زرداری کے حوالے سے لوگوں کا خیال رہا کہ وہ نون لیگ کی بی ٹیم ہیں۔ پیپلزپارٹی کی مجبوری ہے کہ وہ اب عروج پر جا کر (ن) لیگ کی مخالفت کرے کیونکہ الیکشن آنے والے ہیں۔ ایک ٹی وی نے یہ بھی اطلاع دی کہ جلسے کے آخر میں طاہر القادری اعلان کریں گے اور سب اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیں گے جس کی تردید پرویز خٹک اور پی پی کے قیوم سومرو نے کی لیکن یہاں سے اندازہ ہوتا ہے کہ بات اس طرف بڑھ رہی ہے۔ شیخ رشید نے استعفیٰ دینے کا اعلان کر کے راہ ہموار کر دی کہ اب کون استعفیٰ دے گا۔
سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ن لیگ کے رہنما پرویز رشید نے کہا ہے کہ اگر قومی اسمبلی کی اکثریت استعفے دے دے تو پھر جمہوری و اخلاقی طور پر حکومت کو نئے انتخابات کرانے چاہئیں لیکن اقلیتوں یا سرکوں کے دباﺅ پر نیشنل اسمبلی کو کھلونا یا مذاق نہیں بنا سکتے۔ قومی ادارے کو دو چار لوگوں کے مذاق کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ نئی مردم شماری سے پہلے نئی حلقہ بندیاں ہونی ہیں، اس سے پہلے انتخاباتت آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔ حلقہ بندیاں پیش رفت میں ہیں، جتنا عرصہ انتخابات میں ہے اتنا ہی حلقہ بندیوں کو مکمل ہونے میں لگے گا۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے چینل۵ کے پروگرامضیا شاہد کے ساتھ میں کیا۔
ضیا شاہد: میں آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ آئین کے تقاضوں کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات ہونے چاہئیں اور مردم شماری اس لئے ہوئی تھی کہ فریش ووٹرز کو سامنے لایا جائے لیکن میری گزارش ہے کہ اس شکل میں توبظاہریہی نظر آتا ہے کہ جو تاریخ شاہد خاقان عباسی صاحب کی طرف سے دی گئی ہے کہ جولائی میں الیکشن ہوں گے لگتا نہیں ہے کہ اس سے پہلے یہ سارا کام مکمل ہو سکے۔ ہم جمہوری نظام کے حق میں ہیں اگر الیکشن کمشن کوئی معذوری ظاہر کرے اور اگر دوچار مہینے بعد بھی الیکشن ہو جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
پرویز رشید: دیکھیں الیکشن کمیشن نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ وقت پر انتخابات کرانے کے اہل ہیں اور ہمیں ان کی یقین دہانی پر اعتماد ہے۔
ضیاشاہد:میں نے اپنی ساری زندگی میں آپ کو ایگریسو ہوتے ہوئے نہیں دیکھا یا کوئی سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بہت مشکل صورت حال میں بھی آپ اپنا لہجہ بڑا متوازن رکھتے ہیں اور کوشش کے باوجود شاید آپ دانیال عزیز، طلال چودھری یا عابد شیر علی نہیں بن سکے لیکن گزارش یہ ہے کہ یہ جو چودھری نثار علی سے جو آپ کی لفظوں کی جنگ شروع ہوئی ہے اس میں تو روز بروز تندی تیزی آ رہی ہے۔ اتنی کیا ناراضگی ہے کہ وجہ کیا ہے کہ آپ کیوں ان سے ناراض ہیں۔ ایک بندہ کہتا ہے میں مسلم لییگ ن میں ہوں باقی اختلاف رائے کرنے کا حق حاصل ہے تو آپ جمہوری طور پر ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے فیصلوں کے خلاف رائے دے سکے۔ جمہوریت اسی کا نام ہے۔ آپ نے بھی بڑے سخت الفاظ استعمال کئے اور انہوں نے بھی جوابی کارروائی کے طور پر باقاعدہ گولہ باری شروع کر دی ہے۔ آپ ایک مدت سے کولیگ ہیں۔ ایک ہی پارٹی میں رہے ہیں اس لڑائی کی وجہ ہے کیا۔
پرویزرشید:ضیا صاحب اگر میرے لہجے میں تلخی تھی اور جب آپ فرما رہے ہیں تو میں سنجیدگی سے محسوس کرتا ہوں کہ یقیناً ہو گی کیونکہ آپ کا تجربہ اور مشاہدہ اور میرے ساتھ آپ کا جوتعلق ہے وہ صحافت اور سیاست سے ہٹ کر ذاتی ہے جب آپ کہتے ہیں کہ آپ کے تو میں بڑے بھائی کی بات کے کہے طور پر لیتا ہوں اور میں آئندہ احتیاط کروں گا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔ اور بڑے بھائی سے میرا وعدہ ہے جس نے میری غلطی کو محسوس کیا اور نشاندہی کی۔
ضیا شاہد: اس سے پرویز رشید صاحب! یہ فائدہ ہو گا کہ عوام دیکھ رہے ہیں کون کیا کہہ رہا ہے کس کا لہجہ کیا ہے مجھے یقین ہے کہ جب متوازن اور مہذب راستہ اختیار کریں گے چاہے کوئی کچھ کہتا ہے اس سے آپ کا وقار میں اضافہ ہو گا۔ آپ ہمارے پرانے دوست اور ساتھی ہیں ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ لڑائی جو ہے میں نے آج بھی میسج چھوڑا ہے میں تو اپنے گھر میں خاموش بیٹھنے والا آدمی نہیں ہوں۔ میں نے اگر آپ سے پروگرام میں بات کی ہے تو میں نے چودھری نثار سے آج بات کروں گا کہ میں نے میسج چھورا ہوا ہے کہ اتنے بجے مجھ سے بات کر لیں اگر میری ان سے بات ہو جاتی ہے تو میں ان سے یہی کہوں گا کہ اتنے سخت الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ اختلاف رائے ہر شخص کا حق ہے اور یہی حق آپ کا بھی حق ہے لیکن ایک معقول سطح پر اگر انہوں نے ایک ہی پارٹی میں اگر رہنماﺅں نے رہنا ہے تو پھر ان کو ایک شائستہ رویہ اختیار کرنا ہو گا۔
پرویز رشید: آپ کی جو نصیحت میرے لئے ہے میں نے اس کو پلے باندھ لیا اس کی جو سیاسی پوزیشن ہے وہ میں ضرور آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا۔ اور آپ کے بنائے ہوئے اصول کے مطابق ہے میرا کہنا صرف یہ ہے کہ جب وہ کہتے ہیںکہ وہ نوازشریف صاحب کی پالیسی سے اختلاف رکھتے ہیں یہ ان کا جمہوری حق ہے لیکن جو کچھ نوازشریف کے ساتھ ہو رہا ہے کیا گیا ہے وہ جن لوگوں کی طرف سے کیا گیا ہے، اور جن بنیادوں پر بھی کیا گیا ہے چودھری صاحب نے اس پر کیوں خاموشی اختیار کی ہے۔ ہمارا اختلاف یہ ہے کہ آپ ہمارے لائحہ عمل سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جو وجوہات ہیں کم از کم ان پر تو آپ اپنا اظہار رائے اور تبصرہ دیں اور ان لوگوں کے بارے میں بھی ارشاد فرمائیں کہ جنہوں نے آپ کے رہنما کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے اس پر بھی اپنی رائے دیں۔ جب وہ وہاں پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں تو پھر اس پر ان سے ہمارا گلہ بن جاتا ہے۔
ضیا شاہد: میرا آپ سے وعدہ ہے کہ میں انشاءاللہ ان سے اس مسئلے پر ضرور بات کروں گا کہ اختلاف رائے کے باوجود آپس میں دوستوں خاص طور پر سینئرز کا احترام کرنا بہتت ضروری ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv