سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے سے متعلق کیس میں پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں اپنے تناسب سے تو نشستیں لے سکتی ہیں باقی نشستیں انہیں کیسے مل سکتی ہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو کام ڈائر یکٹ نہیں کیا جاسکتا وہ ان ڈائریکٹ بھی نہیں ہوسکتا۔**
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ معطلی کا حکم مخصوص نشستوں کی حد تک ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم کیس کو سماعت کیلئے منظور کررہے ہیں، ہم الیکشن کمیشن اور پشاورہاٸی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر رہے ہیں۔
دوران سماعت جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ دوسری جماعتوں کو کس قانون کے تحت سیٹیں دی گئیں؟
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنے تناسب سے تو نشستیں لے سکتی ہیں باقی نشستیں انہیں کیسے مل سکتی ہیں؟ کیا باقی بچی ہوئی نشستیں بھی انہیں دی جاسکتی ہیں؟ قانون میں ایسا کچھ ہے؟ اگر قانون میں ایسا نہیں تو پھر کیا ایسا کرنا آئینی اسکیم کے خلاف نہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے متضاد موقف کیسے قائم کیا۔ جو کام ڈائر یکٹ نہیں کیا جاسکتا وہ ان ڈائریکٹ بھی نہیں ہوسکتا، ایک سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کو ان ڈائریکٹ طریقے سے نظر انداز کرنا کیا درست ہے؟
اس سے قبل مخصوص نشستوں کے کیس میں درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن کے حکام سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
جسٹس منصور علی شاہ بولے ایک سوال ہے ’کیا بانٹی گئی نشستیں دوبارہ بانٹی جاسکتی ہیں، دوسرا یہ کہ مخصوص نشستیں اس لیے بانٹی گئی کہ ہاؤس پورا ہو، اس میں کہاں غلطی ہے؟
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اگر مزید کچھ سیٹیں بچ جائیں تو ان کا کیا کرنا ہے۔ بغیر معقول وجہ بتائے مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹی گئیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ سیاسی جماعت کا مطلب ہوتا ہے وہ جماعت جو انتخابی نشان پر الیکشن لڑے، پارٹی کو رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔