نئی دہلی (ویب ڈیسک) پاکستانی لڑکے طاہر علی سے شادی کرنے والی بھارتی لڑکی ڈاکٹر عظمیٰ احمد نے کہا ہے کہ وہ پاکستان گھومنے گئی تھی اور جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو اسکے ذہن میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ ہم لوگ اتنی جلدی کچھ کر لیں گے۔ عظمیٰ کا الزام ہے کہ خیبر پی کے کے شہر بونیر کے رہائشی طاہر علی نے اس سے زبردستی شادی کر لی تھی جس کے بعد انہیں اپنی جان بچانے کے لیے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشن میں پناہ لینا پڑی۔ اب وہ دونوں ممالک کی حکومتوں کی مداخلت کے بعد بھارت لوٹ آئی ہے۔ نئی دہلی میں بی بی سی اردو کے ساتھ فیس بک لائیو میں پوچھے جانے پر سوال پر کہ کیا پاکستان جاتے وقت ان کے ذہن میں ایسا کوئی خیال تھا کہ اگر بات بن جاتی ہے تو شادی کی جاسکتی ہے؟ عظمی احمد نے کہا ’شادی کا تو ایسا کچھ تھا نہیں کہ ہم اتنی جلدی ایسا کچھ کر لیں گے، ابھی تو بس یہ تھا کہ پاکستان جا کر دیکھتے ہیں، سنگاپور دیکھ لیا، ملائیشیا دیکھ لیا تو ا گر پاکستان کو اتنا خوبصورت بتایا جا رہا ہے تو ایک بار دیکھنے میں کیا حرج ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ اگر وہ صرف گھومنے گئی تھیں تو ایک دوسرے کی فیملی کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کیوں ہو رہا تھا؟ اور انہوں نے طاہر سے ایک پیغام میں یہ کیوں کہا کہ اگر ان کے بھائی کا فون آئے تو انہیں اپنے بچوں کے بارے میں نہ بتائیں، اگر مقصد صرف گھومنا تھا تو یہ بات چیت ہو ہی کیوں رہی تھی؟ عظمیٰ نے جواب دیا کہ ’یہ بات چیت اس لیے چل رہی تھی کہ معمول کے مطابق یہ بات ہو رہی تھی کہ مستقبل میں ہم کیا کریں گے؟ پاکستان جانے سے پہلے طاہر سے ملائشیا میں صرف تین چار مرتبہ ملی اور دونوں کی کوئی خاص دوستی نہیں تھی۔ بی بی سی کے یہ پوچھے جانے پر کہ اگر دوستی نہیں تھی وہ طاہر کی دعوت پر پاکستان کیوں گئیں۔۔˜