پنجشیر میں افغان طالبان اور مزاحمتی تحریک کے کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں جبکہ مزاحمتی فورس کے اہلکاروں کی جنگی مشقوں کی تصاویر بھی سامنے آئی ہیں۔
افغان طالبان اور پنجشیر میں موجود مزاحمتی اتحاد کے درمیان افغان دارالحکومت کابل میں مذاکرات جاری ہیں اور گزشتہ دِنوں فریقین کے درمیان ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ بھی طے پایا تھا۔
وادی پنجشیر طالبان کے خلاف مزاحمت کا آخری گڑھ ہے اور اس کے علاوہ وہ تقریباً پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔
پنجشیر میں مزاحمتی فورس کی قیادت سابق جہادی کمانڈر احمد شاہ مسعود کے جواں سال بیٹے احمد مسعود کررہے ہیں جبکہ گزشتہ دنوں احمد مسعود نے اعلان کیا تھاکہ طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے مرنا پسند کروں گا۔
گذشتہ دنوں یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ طالبان نے افغانستان کے صوبے پنجشیر میں مختلف اطراف سے پیش قدمی شروع کردی ہے جس کے بعد وہاں جنگ کے بادل ایک بار پھر منڈلانے لگے۔
اطلاعات کے مطابق طالبان جنگجوؤں نے وادی سے متصل پہاڑوں اور چوٹیوں پر مورچے قائم کرلیے ہیں۔
طالبان کے ثقافتی کمیشن کے رکن امان اللہ کا کہنا تھاکہ وادی میں داخلے کے وقت کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تاہم وادی پنجشیر کی مزاحمتی فورس کے رکن نے طالبان کے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔
اب فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) نے وادی پنجشیر میں مزاحمتی فورس کے اہلکاروں کی مشقوں کی تصاویر جاری کی ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق ان تصاویر میں طالبان مخالف مزاحمتی تحریک کے جنگجوؤں کو جنگی مشقیں کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
خبر رساں ایجنسی نے یہ نہیں بتایا کہ مزاحمتی تحریک کے کارکن کس کے خلاف جنگ کی تیاری کررہے ہیں البتہ موجودہ صورتحال میں ممکنہ طور پر یہ تیاری طالبان کے خلاف ہی ہے۔
اس حوالے ترجمان پنجشیر مزاحمتی تحریک جمشید دستی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ پنجشیر میں طالبان اور مزاحمتی اتحاد کے مذاکرات جاری ہیں، مذاکرات میں ڈیڈ لاک نہیں مگرپیش رفت کم ہے۔
جمشید دستی کا کہنا ہے کہ طالبان نے پنجشیر میں مواصلاتی نظام معطل کرنےکی کوشش کی، مواصلاتی نظام ختم کرنے سے پنجشیر والوں کیلئے مسائل ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجشیر میں روزمرہ استعمال کی چیزوں کی کمی نہیں، نظام زندگی چل رہا ہے، پنجشیر کا محاصرہ لمبا ہوا تو بیک اپ موجود ہیں، پنجشیر میں محصور رہ کر طویل عرصے تک مزاحمت کیلئے تیار ہیں۔
ترجمان مزاحمتی تحریک کا مزید کہنا تھا کہ طالبان سے براہ راست رابطوں کا سلسلہ جاری ہے، تمام ثالث قوتوں، شخصیات کو بتا دیا ہے کہ ہم اپنے حقوق پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
مزاحمتی فورسز نے طالبان کا ایک حملہ پسپا کیا، ذرائع
افغان نشریاتی ادارے طلوع نیوز کے مطابق احمد مسعود کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے پیر کی شام پنجشیر میں ایک سرحدی چوکی پر حملہ کیا جسے مزاحمتی فورسز نے پسپا کردیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان اور مزاحمتی فورسز کے درمیان وقفے وقفے سے لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔
اس حوالے سے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ علاقےمیں نیٹ ورک سگنل کا مسئلہ ہے، معاملے کی تصدیق کررہےہیں۔
طالبان نے پنجشیر کا مواصلاتی رابطہ منقطع کردیا، ذرائع
طلوع نیوز نےمقامی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان نے پنجشیر کا مواصلاتی رابطہ منقطع کردیا ہے۔
پنجشیر کے ایک رہائشی گل حیدر نے بتایا کہ ’گذشتہ دو روز سے انہوں نے مواصلاتی نظام منقطع کررکھا ہے جس کی وجہ سے مقامی افراد کو مشکلات کا سامنا ہے اور لوگ ملک کے دیگر علاقوں میں اپنے رشتہ داروں سے رابطے نہیں کر پارہے ہیں۔‘
اس معاملے پر بھی طالبان کا کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔
طالبان کیخلاف مزاحمتی تحریک کے مقاصد کیا ہیں؟
اطلاعات کے مطابق پنجشیر سوویت یونین کے دور سے اب تک تقریباً آزاد ہی رہا ہے اور ہر دور میں مزاحمت جاری رکھی ہے۔
طالبان کے آخری دور حکومت میں بھی بلخ، بدخشاں اور پنجشیر میں طالبان کا نظام حکومت نافذ نہیں تھا البتہ اس بار طالبان نے بلخ اور بدخشاں پر کنٹرول قائم کرلیا ہے لیکن پنجشیر اب بھی ان کے کنٹرول میں نہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مزاحمتی تحریک کا ایک مقصد تو طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار ہوسکتا ہے جس میں اہم ترین شرط پنجشیر کی خودمختاری شامل ہوسکتی ہے۔
ماضی میں طالبان کے زیر اثر نہ رہنے کی وجہ سے احمد مسعود اور ان کے ساتھ موجود دیگر قوتیں اب بھی اپنے طور پر آزادانہ نظام کی خواہاں ہیں کیوں کہ ان خوف ہے کہ طالبان کا نظام حکومت سخت قوانین پر مشتمل ہوسکتا ہے۔
وادی پنجشیر ناقابل تسخیر کیوں؟
افغان صوبہ پنجشیر اب بھی ناقابل تسخیر ہے اور طالبان بھی اب تک وہاں داخل نہیں ہوسکے ہیں۔ پنجشیر اس سے قبل پروان صوبے کا حصہ تھا جسے 2004 میں الگ صوبے کا درجہ دیا گیا۔
پنجشیر صوبے کا دارالحکومت بازارک ہے، یہ سابق جہادی کمانڈر اور سابق وزیر دفاع احمد شاہ مسعود کا آبائی شہر ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد احمد شاہ مسعود نے 90 کی دہائی میں وادی کا کامیاب دفاع کیا تھا جبکہ اس سے قبل سابقہ سوویت یونین کی فوج بھی اس وادی میں داخل نہیں ہوسکی تھی اور متعدد حملوں کے باوجود ہر دفعہ یہ وادی ناقابل تسخیر رہی۔