واشنگٹن: ایک اعلیٰ امریکی جنرل نے کہا ہے کہ اب افغانستان میں امریکا اور طالبان ’مشترکہ مقصد‘ رکھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی نے ایک حالیہ بریفنگ میں کہا کہ ’ہم ایک مشترکہ مقصد رکھتے ہیں‘ اور ’ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے میں فائدہ ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’جب تک ہم نے اس مشترکہ مقصد سے جوڑے رہے تو ان کے لیے کام کرنا مفید رہے گا‘۔
جنرل فرینک میک کینزی نے کہا کہ انہوں نے ہمارے کچھ سیکورٹی خدشات کو ختم کر دیا ہے۔
پینٹاگون کی جانب سے ہفتے کی شام ڈرون حملے میں دہشت گرد تنظیم داعش کے دو کارکن کی ہلاکت ہوئی تھی جس پر صحافیوں نے ایک ترجمان سے پوچھا کہ کیا طالبان نے اس ڈرون حملے میں کوئی انٹیلی جنس یا کوئی مدد فراہم کی تھی؟
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ ’میں انٹیلی جنس کے معاملات کے بارے میں بات نہیں کروں گا‘۔
جنرل میک کینزی سینٹ کام کے سربراہ کی حیثیت سے اب افغانستان کے ذمہ دار ہیں اور زیادہ واضح موقف رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی افواج اور طالبان کے مابین معاہدہ جس کے تحت ہم طالبان کو بطور ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں تاکہ ہماری حفاظت کریں۔
یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب امریکی افواج 2 دہائیوں تک افغانستان میں رہنے کے بعد اب کابل سے نکلنے کے حتمی مرحلے میں ہیں اور فوجیوں کے انخلا سے قبل ایئرپورٹ پر صرف ایک ہزار سے کچھ زائد شہری موجود ہیں جنہیں وہاں سے باہر نکالنا ہے۔
ایئرپورٹ پر تعینات ایک عہدیدار نے کہا کہ ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہر غیر ملکی شہری جو خطرے میں ہے اسے نکال لیا جائے اور جب یہ عمل مکمل ہوجائے گا تو افواج بھی پرواز کر جائیں گی۔
جب طالبان 15 اگست کو دارالحکومت میں داخل ہوئے تو مغرب کی حمایت یافتہ حکومت اور افغان فوج ڈھے گئیں اور ایک انتظامی خلا پیدا ہوگیا جس سے مالی تباہی اور وسیع بھوک کے خدشات کو تقویت ملی۔
امریکا کے ساتھ ہوئے ایک معاہدے کے تحت طالبان نے کہا تھا کہ وہ غیر ملکیوں اور افغان شہریوں کو باہر جانے کی اجازت دیں گے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ 13 ہزار 500 افراد کو افغانستان سے باہر نکالا ہے، لیکن ہزاروں اب بھی باقی ہیں۔