تازہ تر ین

صوبوں سے ملکر کرونا وائرس پر قابو پانے کے لیے کو شاں،پاک فوج سے مزید مدد لی جارہی ہے،ڈاکٹر ظفر مرزا ڈاکٹر ظفر مرزا کی ضیا شاہد کے ساتھ خصوصی گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ خدا کا شکر ہے کہ کرونا وائرس سب سے آخر میں پاکستان آیا ہے۔ چین اور ایران سے جو لوگ پاکستان آئے ہیں ان کے بارے میں ہم بہت محتاط ہیں۔ اب تک صورت حال کافی کنٹرول میں ہے خاص طور پر عوام نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کئے رکھیں تو بڑی امید ہے کہ دوسرے ممالک میں جس طرح سے یہ بیماری پھیلی پاکستان اس سے بچ سکے گا۔ میری میڈیا اور صحافیوں سے گزارش ہے کہ بریکنگ نیوز کے چکر میں سنسنی نہ پھیلائی جائے، کسی مریض کی معلومات سامنے لانا اس خاندان کے لوگوں کو تنگ کرنا غلط ہے، ووہان میں موجود پاکستانی طالب علموں کے والدین کی پریشانی کا احساس ہے ہمارے دو سفارتکاران سے مکمل رابطے میں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا جو سوالاً جواباً پیش خدمت ہے۔
ضیا شاہد: کرونا وائرس کے حوالے سے خصوصی ٹاسک آپ کے پاس ہے اب تک کی صورت حال میں کسی حد تک مطمئن ہیں کہ ہم کیا حالات پر قابو پا چکے ہیں۔
ڈاکٹرظفر مرزا: پاکستان میں خطے کے ممالک میں سب سے آخر میں کرونا وائرس کے کیسز آنا شروع ہوئے۔ اب تک 5 کیسز آ چکے ہیں۔ ہم نے بڑی محنت سے ایس او پیز بنائے ہیں۔ ایئرپورٹ پر یا انٹری پوائنٹس پر عملدرآمد کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چین اور ایران سے جو ہمارے ملک آتے ہیں ان کے بارے میں ہم بہت محتاط ہیں اب تک صورت حال کافی کنٹرول میں ہے۔ سب لوگ اگر اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے رہے اور خاص طور پر عوام اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے رہے اور احتیاطی تدابیر کریں اور ہم نے جو پالیسیاں رکھی ہیں ان کا اطلاق اسی طرح سے ہوتا رہا تو انشاءاللہ بڑی اُمید ہے دوسرے ملک کے اندر جس طرح وبا پھیلی ہے پاکستان میں اس سے بچ سکیں گے۔
سوال: چاروں صوبوں میں کس صوبے میں زیادہ مسئلہ ہے۔
جواب: ہم بہت مربوط انداز میں تمام صوبائی حکومتوں سے مل کر ایک نیشنل ایکشن پلان کے تحت کام کر رہے ہیں جس میں وافر طور پر ہمارے تمام چیف سیکرٹریز کے ساتھ وقتاً فوقتاً ہیلتھ سنٹر کے ساتھ بھی رابطہ رہتا ہے اور ہیلتھ سیکرٹریز کے ساتھ وہاں جو ان کے بڑے بڑے ڈاکٹرز ہیں ان کی صوبائی کمیٹیوں کا حصہ ہیں ان کے ساتھ۔ یوں سمجھیں کہ متحد ہو کر ایک قومی سطح پر اس کو مربوط انداز میں اس سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں 18 پوائنٹ آف انٹریز ہیں وہاں سے لوگ پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی پاکٹس دوسری بھی ہیں جہاں سے علاقائی سطح پر پورس بارڈرز بھی ہمارے پاس ہیں ان میں بندرگاہیں ایئرپورٹس اور زمینی راستے بھی ہیں خاص طور پر لاہور، اسلام آباد، کراچی کے ایئرپورٹس کے اوپر ہم نے بندوبست کیا۔ تفتان اور زاہدان کا جو بارڈر ہے اس کے اوپر بندوبست کیا اور پورا پلان بنایا ہے جس کے تحت لوگ آ سکیں تفتان، زاہدان کا جو بارڈر ہے اس کے اوپر خصوصی طور پر توجہ دینے کی ضرورت تھی اور اس لئے میں وہاں گیا بھی تھا اور اب ہمارے پاس پوری حکومت عملی ہے کہ ہم نے جو لوٹ کے جو آ رہے ہیں زائرین ان کو کیسے رسیو کرنا ہے۔ چمن بارڈر بند کر دیا ہے سات دن کے لئے اس کے بعد اس کا جائزہ لیں گے طورخم کے بارڈر پر بڑی، آمدورفت ہوتی ہے اس کو بھی بڑے غور سے دیکھ رہے ہیں آج ہی میری میٹنگ ہوئی ہے صوبائی وزیر صحت بلوچستان تیمور جھگڑا صاحب اور ایک پیج پر ہیں ہم سب۔ اللہ کرے جو ہماری محنت ہے۔ صورت حال قابو میں رہے گی۔
سوال: ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ابتدائی طور پر جو صورتحال تھی اس پر کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
جواب: ابتدائی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ صورت حال کنٹرول میں ہے اس غیر یقینی کیفیت ہے میں بالکل یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ 100 فیصد ہم سیف زون میں آ چکے ہیں لیکن اب تک جو ہماری پالیسی ہے۔ یہ ایک نیا وائرس ہے اسے نوول کرونا وائرس کہتے ہیں پہلی بار سامنے آیا اس کے بارے میں بہت ساری چیزیں ابھی معلوم نہیں۔ لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آئندہ آنے والے دنوں ہفتوں میں کیا صورت حال ہو گی جس طرح کی صورت حال چل رہی ہے اس طرح رہی تو انشاءاللہ صورت حال قابو میں رہے گی۔ میں لوگوں سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ اس سلسلے میں ہماری انفرادی ذمہ داریاں ہیں اپنے آپ کو انفیکشن سے بچانے کے لئے دوسروں کو اس سے بچانے کے لئے جو ایک طرح کی ہوتی ہیں تقریباً ان کو پریکٹس کرتے رہیں جس طرح آپ کو مختلف احتیاطی تدابیر بتائی جا رہی ہیں ان پر عمل کر لیں تو اللہ بہتر کرے گا۔
سوال: جو اب تک احتیاطی تدابیر اخبارات میں اور چینلز پر بتائی جا رہی ہیں آپ کیا محسوس کرتے ہیں کہ لووگ جو ہیں وہ ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کر رہے ہیں یا آپ سمجھتے ہیں کہ لوگ توجہ نہیں دے رہے۔
جواب: اگر ہم سوشل میڈیا پر دیکھیں توہمیں مکس قسم کے میسجز ملتے ہیں ایک بات ہے کہ لوگ دلچسپی لے رہے ہیں۔لیکن بڑے عجیب و غریب ٹوٹکے بھی چل رہے ہیں بہت سے علاج بھی تجویز کئے جا رہے ہیں میری استدعا ہے کہ جو آپ کو آفیشل پبلک سروس میسجنگ کے ذریعے چیزیں بتائی جائیں ان پر عمل کریں۔ کافی حد تک عمل ہو رہا ہے لیکن اس میں بہت زیادہ مزید احتیاط اور اضافے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف یہ ہے کہ ہم نے سنسنی خیزی نہیں پھیلانی۔ جس طرح پچھلے دنوں میں یہ ماسک کے نہ ملنے کی وجہ سے ایک بڑی تیزی آ گئی تھی سوسائٹی میں کہ پاکستان کو ماسک بننا صروری ہے بلکہ بالکل ایسا نہیں ہے ہم نے اس سلسلے میں ماسک کے استعمال کے حوالے سے بھی ایک ایڈوائزری جاری کر دی ہے اور پریشان ہوئے بغیر ہمیں اپنی اپنی ذمہ داریاں پووری کرنا ہیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہیں۔ کسی بھی انفیکشن سے بچنے کے لئے چند ایک بنیادی اصول ہیں۔ اگر آپ کو سانس کی تکلیف کھانسی ہے بخار تو اپنے آپ کو دوسروں سے علیحدہ رکھیں دوسرے لوگ بھی آپ سے علیحدہ رہیں۔ اپنی صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں سوشل ڈس پپنگ کریں یعنی کہ ایک فاصلہ رکھ کے ملیں۔ ضرور ملیں، ضروری نہیں ہے کہ آپ نے ہاتھ ملانا ہے۔ صروری نہیں کہ آپ نے لوگوں سے بغل گیر ہونا ہے اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں معمول بنا لیں کہ آپ نے بیس سیکنڈ صابن کے ساتھ ہاتھ دھونے ہیں۔ دونوں اطرف سے انگلیوں کے درمیان خاص طور پر مل کر یہ بڑی بنیادی حفظان صحت کے اصول ہیں انفیکشن کے دوران اور آڈٹ بریکس کے دوران یہ بہت زیادہ مددگار ہیں اور ہجوم والی جگہوں پر نہ جائیں اوراگر آپ خود ایسے شخص ہیں جو حال ہی میں چین یا ایران سے لوٹ آئے ہیں تو آپ کو، کوئی ایسے اثرات محسوس ہوتے ہیں تو آپ 1166 سے رابطہ کریں ہماری ٹیم آپ تک پہنچے گی ریپڈ ریسپانس ٹیمیں ہم نے بنائی ہوئی ہیں اور اس کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ کرونا وائرس کی بیماری اور علامتیں کیا ہیں۔ ہر شخص جس کو نزلہ زکام ہے اس کا مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اس کو کرونا وائرس کی بیماری ہو گئی ہے۔
سوال: کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونے والی بات تو سمجھ آتی ہے بار بار ہو گئے ہیں اتنی زیادہ ہاتھ دھونے سے کیا فائدہ ہو گا۔
جواب: یہ بھی انفیکشن کنٹرول کرنے کا ایک مستند طریقہ ہے۔ ہم بہت سارے لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہیں بہت ساری چیزوں پر ہاتھ رکھتے ہیں پھر وہی ہاتھ ہم کئی دفعہ چہرے سے لگا لیتے ہیں۔ کئی دفعہ ناک اسی سے صاف کرتے ہیں۔ جب ہم کھانستے ہیں یا چھینکتے ہیں تو چھوٹے چھوٹے قطرے ہمارے ناک سے نکلتے ہیں۔
سول: چین میں جو پاکستان کے طالب علم تھے۔ یہاں ان کے والدین کی پریشانی تھی حکومتی سطح پر اب تک کیا سوچ بچار کی۔
جواب: بہت سارے ممالک کی طرح ہم نے چین کی پالیسی ہے کہ اس صوبے سے لوگوں کا آنا جانا بند ہے ہم اس کی پابندی کر رہے ہیں۔ اس ووہان شہر میں صرف پانچ ہزار چار سو طالب علم ہیں یہ کہنا ایک بات ہے کہ 30 ممالک نے اپنے وہاں سے طالب علم نکال لئے ہیں ہم اس وقت جو کر رہے ہیں وہ یہ کہ ہمارا جو وزارت خارجہ اور وزارت صحت مل کے کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے بھی وہاں طالب علم ہیں ان کو ہر طرح کی سہولت دی جا سکے۔ ان کی بہتری کے لئے جو کیا جا سکتا ہے وہ کیا جائے۔ ان کو ہمارے دو سفارت کاروں کو خاص طور پر وہاں شہر داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہے جو کہ ساری صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں اور معاملوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور ساری رپورٹ حکومت پاکستان کو دے رہے ہیں۔ہم تمام ملک کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے جو وہاں شہری ہیں ان کو ہر طرح کی سہولت دی جا سکے۔ ہمارے دو سفارت کار جن کی حکومت کی خصوصی اجازت سے وہاں موجود ہیں جو کہ جو6 سو سے زائد ہمارے طالب علم ہیں ان کو انفرادی طور پر مل چکے ہیں۔ آج ہماری ان کے وکلا اور والدین سے میٹنگ بھی ہوئی ہے جن کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے تاکید کی تھی اور میں اور منسٹرز بھی جو ہییں ان کے 2 گھنٹے کی میٹنگ تھی۔ ہمیں ان کے دکھ اور تکلیف کا پتہ ہے لیکن کئی دفعہ مسئلہ کو دیکھ کر کئی مرتبہ مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔
سوال: جو انتظامات کئے گئے تھے کیا آپ ہسپتالوں میں متبادل انتظامات سے مطمئنن ہیں۔
جواب: ایک انتظام تو یہ ہے کہ ہم ہسپتالوں میں مریضوں کو الگ رکھنے کے انتظامات کریں۔ اس وقت تقریباً 4 سو سے زیادہ بیڈ انتظام کر لئے ہیں۔ اور اضافہ بھی کر رہے ہیں کرونا وائرس کی 3 علامتیں ہیں وائرل انفیکشن ہے، بخار بڑا تیز ہو جاتا ہے، دوسرا یہ کہ سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے، کھانسی آتی ہے۔ اس کو چیک کرنا یہ علامات کرونا کی ہیں کہ نہیں اس کا طریقہ صرف اور صرف لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے پتہ چلتا ہے۔ ہر شخص جس کو نزلہ زکان ہے کیا اس کو ٹیسٹ کرانا چاہئے تو نہیں کرانا چاہئے۔ یہ ہمیں پتہ ہے کہ یہ وبا پھیل رہی ہے اور یہ باہر سے آ رہی ہے۔ اگر آپ ایسے شحص یا ایسے شخص کے قریب رہے ہیں جو حالیہ دنوں میں چین، ایران یا جن ممالک میں یہ وبا ہے اور آپ میں یہ علامتیں ہی تو یقینا آپ کو ٹیسٹ کروانا چاہئے۔
سوال: عوام کو اجتماعی تدابیر بتائی گئی ہیں کیا ان کو جاری کرنے کی صرورت ہے اس میں تسلسل کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا خطرہ تو ختم نہیں ہوا۔
جواب: ہم نے وزارت اطلاعات، آئی ایس پی آر، وزارت صحت کو ملا کر ایک کمیٹی بنائی ہے جو پبلک کو پیغام دینے کے لئے مسلسل کام کر رہی ہے اس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
سوال: جب بھی اس قسم کی کوئی مشکل پیش آئی تو پاک فوج نے بہت بڑھ کر حصہ لیا۔
جواب: اس سلسلہ میں پاک افواج کو ساتھ رکھا ہے۔ وہ ہماری پلاننگ کا حصہ ہیں بہت زیادہ مدد مل رہی ہے۔ قومی سطح کے مسائل کے لئے قومی یک جہتی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب بھی میں جب تفتان گیا تھا تو سدرن کمانڈ کے بہت اعلیٰ افسر میرے ساتھ گئے تھے۔ ہم ایک پیج پر ہیں۔
سوال: ایک چینی صوبے سے وائرس شروع ہوا لیکن جب ہلاکتیں ہونے لگی ہیں تو دنیا کے مختلف ممالک میں وائرس کیسے پہنچ گیا۔
جواب: اب ستر ممالک میں وبا پھیل چکی ہے چین سے ہی پھیلی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی جب کسی مریض کو دیکھا گیا تو وہ حال میں چین سے واپس آیا تھا۔ پاکستان میں خاص طور پر ایران سے لوٹنے والوں کی بہت اہمیت ہے۔ جن ستر ممالک میں وہ ممالک شامل ہیں جنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے لوگوں کو چین سے نکالیں۔ یہ بڑی اہم بات ہے۔ جن لوگوں نے وہاں سے لوگ نہیں نکالے بہترین مفاد میں صحیح فیصلہ ہے۔ دوسرے ممالک میں رہیں اور پھیل جانے کا اندیشہ ہے۔
سوال: دنیا چاند تک کا سفرکر چکی ہے۔ ایک بیماری کے علاج کے سلسلے میں کوئی ویکسین ایجاد ہوئی ہے۔
جواب: اس وائرس کی وجہ سے یہ بیماری پہلی دفعہ پھیلی ہے۔ اس لئے اس کی نہ تو ویکسین تھی۔ اس پر بڑی ریسرچ جاری ہے اُمید ہے کہ ویکسین چند ہفتوں کے اندر دستیاب ہو جائے گی۔ یہ سنا جا رہا ہے ویکسین بچاﺅ کے لئے ہوتی ہے۔ اس کے علاج کے لئے بھی مختلف ادویات کے کمبی نیشنز کو ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔
س: ڈینگی یا دیگر بیماریوں کا ٹیسٹ سے پتہ چل جاتا ہے کیا کرونا کا بھی ٹیسٹ ہو سکتا ہے؟
ج: کرونا وائرس چیک کرنے کے اب ہمارے پاس مخصوص ٹیسٹ دستیاب ہیں بڑی محنت کے بعد چین اور جاپان سے یہ سہولت حاصل کی گئی ہے۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی کے بعد اب پشاور، ملتان و دیگر بڑے شہروں میں ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے ٹیسٹ مفت کئے جا رہے ہیں تاہم صرف مشتبہ افرادکا ٹیسٹ کیا جاتا ہے عام کھانسی بخار نزلہ زکام کے مریضوں کا ٹیسٹ نہیں کیا جاتا۔ صرف پچھلے چند ہفتوں سے متاثرہ ممالک سے آنے والے افراد کا ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔ ابھی تک 193 افراد کا ٹیسٹ کیا گیا جن میں صرف 5 کا رزلٹ پازیٹو ہے۔
سوال: پاکستان میں جس طرح ہر معاملے پر سیاست کی جاتی ہے کیا کرونا پر بھی ایسا دیکھنے میں آیا ہے۔
جواب: اس معاملے پر کوئی سیاست نہیں ہو رہی، ہم تمام صوبوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں سب مکمل تعاون کر رہے ہیں باہمی تعاون سے کام جاری ہے، کسی نے اس پر غیر ضروری بات نہیں کی نہ اسے سیاسی مقصد کے لئے استعمال کیا۔ میڈیا اور صحافیوں سے درخواست ہے کہ نیوز بریک کرنے کی دوڑ میں ایسی باتیں نہ کریں جس سے سنسنی پھیلے اگر کوئی کرونا کا مریض سامنے ااتا ہے تو اس کی ذاتی معلومات سامنے لانے، اس کے خاندان والوں کے غیر ضروری انٹرویوز کر کے تنگ کرنا غلط ہے، صحافت اور میڈیکل کی اخلاقیات کو مدنظر رکھا جانا ضروری ہے۔ لوگوں کی پرائیویسی کا خیال رکھیں غیر مصدقہ خبریں نہ پھیلائیں جس سے پریشانی اور تناﺅ بڑھے۔
سوال: ماسک پہننا کتنا ضروری ہے، کرونا وائرس سامنے آتے ہی ماسک بازار سے غائب ہو گئے قیمتیں غیر معمولی طور پر بڑھ گئیں اس بارے کیا کہتے ہیں؟
جواب:بدقسمتی سے جب بھی ملک میں کوئی ایشو سامنے آتا ہے بعض لوگ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کرونا کے معاملہ پربھی ایسا ہی نظر آیا ہم نے پمفلٹ جاری کیا ہے کہ ماسک کا کب استعمال ضروری ہے اور کس طرح ک ماسک کتنا عرضہ استعمال کرنا چاہئے۔ ہر شخص کو ماسک پہننے کی قطعاً ضرورت نہیں، صرف کرونا کے مریضوں کیلئے سرجیکل ماسک پہننا اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کو مخصوص این 95 ماسک پہننا ضروری ہے نزلہ زکام کے مریضوں کو بھی سرجیکل ماسک استعمال کریں۔ عالمی ادارہ صحت نے ماسک کے حوالے سے گائیڈ لائنن جاری کی ہے اس پر عمل کرنا چاہئے۔
سوال: ایک جانب بار بار ہاتھ دھرنے کا کہا جا رہا ہے دوسری جانب شہروں اور دیہاتوں میں گندگی کی ابتر صورتحال ہے، لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں شہر کچرے کے ڈھیر بن چکے ہیں اس پر حکومت کیا کر رہی ہے؟
جواب: پاکستان کو سرسبز اور صاف بنانا وزیراعظم کا عزم ہے جسے پورا کرنے کے لئے 10 ارب پودے لگائے جائیں گے، کے پی میں 1 ارب پودے لگائے گئے۔بدقسمتی سے ملک میں صفائی کی صورتحال خراب ہے جسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاہم حکومت ایک حد تک ہی کام کر سکتی ہے۔ ملک کو صاف رکھنے کے لئے سب لوگوں کو ساتھ دینا ہو گا۔ بیماری اور گندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، صفائی ستھرائی ہی بیماریوں سے بچاﺅ کا بہترین طریق ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv