دہلی (ویب ڈیسک)بھارتی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف بالی وڈ اداکارہ سوارا بھاسکر نے بھی خاموشی توڑتے ہوئے مودی حکومت کو آئینہ دکھا دیا۔اداکارہ سوارا بھاسکر کا شمار ان بالی وڈ ستاروں میں ہوتا ہے جو معاشرتی مسائل کے حل کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہتے ہیں، ایسے میں اداکارہ نے بھارتی ریاست اتر پردیش میں بھارتی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف پریس کلب میں ہونے والے احتجاج میں شرکت کی اور ’ہلہ بول‘ کے نعرے لگائے۔اس موقع پر ایک بھارتی صحافی نے اداکارہ سے بھارتی شہریت کے متنازع قانون اور مظاہرین پر پولیس تشدد سے متعلق سوالات کیے جس پر انہوں نے کرارے جواب دے کر صحافی کی بولتی بند کر دی۔صحافی نے سوارا بھاسکر سے سوال کیا کہ آپ اترپردیش کی پولیس سے اتنی ناراض کیوں ہیں؟اداکارہ نے جواب دیتے ہوئے کہ جس طریقے سے حالات بنے ہیں اس پر اترپردیش کی پولیس کا مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ رہا ہے (چاہے وہ مظاہرین ہوں یا نہ ہوں) وہ ایک بھیانک عمل ہے۔سوارا نے کہا کہ جس طرح اترپردیش کی پولیس مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر لوگوں کو مار رہی ہے، سڑکوں پر نہتے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے یا پھر وہ جس طریقے سے یکطرفہ فائر کر رہی ہے اس طرح وہ اپنا کام نہیں غنڈہ گردی کر رہی ہے کیونکہ پولیس کا کام ہوتا ہے قانون کے دائرے کار میں رہتے ہوئے کارروائی کرنا۔اس پر صحافی نے اداکارہ کی بات پر دخل دیتے ہوئے زور دیا کہ آپ پولیس کو غنڈوں سے تشبیہ دے رہی ہیں۔ اس پر سوارا نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فوراً جواب دیا کہ میں نہیں وہ خود ایسے کام کر رہے ہیں جو غنڈہ گردی میں شمار ہوتے ہیں۔صحافی نے اداکارہ سے سوال کیا کہ جب مظاہرین مشتعل ہوں گے تو پولیس جوابی کارروائی کرے گی اس پر سوارا بھاسکر نے کہا کہ ’کیا آپ جنگ لڑ رہے ہیں یا سرحد پر ہیں؟ پولیس کا کام کنٹرول کرنا ہے تو یہ جوابی کارروائی کا کیا طریقہ ہے، یقیناً آپ کی اور پولیس کی سمجھ میں خرابی ہے‘۔سوارا بھاسکر کا کہنا تھا کہ ’مسئلہ نظریے کا ہے کیونکہ کہ آپ لوگ (بھارت سرکار) مسلمانوں کو برابر شہری تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں، انہیں اپنے ملک کا حصہ ماننے کو تیار ہی نہیں اس لیے ان کے ساتھ جارحانہ برتاو¿ کیا جا رہا ہے۔اداکارہ نے شدید غصے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بتائیں یہ کونسا طریقہ ہوا کہ آپ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ اور جامعہ کے ہاسٹلز میں گھس کر طلبہ مظاہرین کو مار رہے ہیں؟جوڈیشل انکوائری کے سوال پر اداکارہ نے مزید کہا کہ بالکل مجھے لگتا ہے کہ اس پورے معاملے پر جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے کیونکہ جب پولیس اپنی ذمہ داریوں سے اس طرح مکرے گی اور وہ جب دہشت کا ماحول پھیلائے گی تو ان پر بھروسہ کرنا مشکل ہو جائے گا، پھر عدالت کی ذمہ داری ہے کہ اس پر جانچ پڑتال کرے۔سوارا بھاسکر کا کہنا تھا کہ ہم قانون پڑھ کر آ رہے ہیں لیکن شروعات سرکار (حکومت) نے کی ہے، متنازع بیان ان کی جانب سے آرہے ہیں، اگر وہ اتنے اچھے ہیں تو سرکار مل کر فیصلے کر لے کے آخر قانون ہے کیا کیونکہ سب ہی الگ الگ باتیں کر رہے ہیں۔بعدازاں سوارا بھاسکر جب پریس کانفرنس کر رہی تھیں تو دوران کانفرنس بھارتی صحافیوں نے ان سے مسلمانوں کو فیور دینے سے متعلق سوال کیا جس پر اداکارہ جواب ہی دے رہی تھیں کہ ان کی بات کاٹ دی گئی اور پریس کانفرس کو ختم کروادیا گیا۔