تازہ تر ین

ماضی میں جج حضرات سوشل تقریبات میں نہیں جاتے تھے ، اب بھی ایسا ہی ہونا چاہیے : ضیا شاہد ،جج ارشد ملک کو رشوت یادباﺅ پر سپروائزری جج کوبتانا چاہئے تھا: رشید رضوی کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے 9 سال انرجی کی وزارت اپنے پاس رکھی، بڑے بڑے پراجیکٹس بنائے ان میں اکثر فلاپ ہو گئے۔ ان میں قائداعظم سولر پلانٹ بھی ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ جج ارشد ملک کا ہے ڈاکٹر اختر ملک یہ بہت اہم موضوع ہے اس میں توانائی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جب یہ توانائی کی وزارت بنی اس وقت تو لوڈ شیڈنگ کا عذاب مسلط تھا۔ پھر سمجھا گیا کہ شاید کوئی پنجاب حکومت نئے وحینچرز بنائے انہوں نے نئے وینچرز بنائے بھی لیکن اس وقت شور شرابا مچ گیا تھا کہ یہ سولر انرجی اس پر اتنی زیادہ کاسٹ خرچ آئی ہے کہ وہ قابل عمل نہیں ہو گا اور پھر وہ کامیاب بھی نہی ںہو سکا۔ یہ فرمایئے کہ آپ نے جب چارج سنبھالا اس وقت کیا پوزیشن تھی۔ اور اس وقت کیا ہے اور بڑے بڑے پروجیکٹس جو آپ کی نظر میں ہیں وہ کیا ہیں اورجو پہلے فلاپ ہو چکے ہیں۔ ان کا آپ کیا کر رہے ہیں۔رشید اے رضوی! آج کا بہت بڑا ایشو ارشد ملک کا مسئلہ ہے ان کے بارے میں سپریم کورٹ میں بنچ بھی بن گیا ہے اور دوسری طرف شہباز شریف، مریم نواز صاحبہ نے بھی کہا ہے کہ اب جبکہ یہ بات کلیئر ہو گئی ہے کہ یہ ویڈیو جو ہے اس کے مندرجات بھی سامنے آ گئے ہیں کہ وہ صحیح ہے کہ اب نواز شریف کو رہا کیا جائے۔ بالفرض یہ ثابت ہو جائے کہ ویڈیو صحیح ہے اور فرانزک آڈٹ میںثابت ہو جائے کہ یہ یقینا یہ گفتگو ہوئی ہے تو بھی کیا جو فیصلہ نوازشریف کے خلاف کیا کیا وہ ختم ہو سکتا ہے کہ ویڈیو پکڑی گئی ہے۔ جج کا مس کنڈکٹ تو بنتا ہے۔ نوازشریف کے فیصلے کا اس بات سے تعلق نہیں بنتا کہ جج صاحب سے کوئی ملا تھا یا نہیں ملا تھا۔ ایسے حالات میں واقعی ایسی پوزیشن میں گھر جائے جج تو اس کو کیا کرنا چاہئے جس طرح سے وہ خاموش رہے اور ملاقاتیں تک جا کر نوازشریف سے ملاقاتیں تک کیں اس سے کیا ثابت ہوتا ہے کہ وہ بہرحال وہ نیوٹرل اور منصف جج تو نہیں رہے لیکن اس بنیاد پر فیصلہ کالعدم ہو سکتا ہے۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے جو تین رکنی بنچ بنایا ہے فیصلہ نہیں دے دیتا یہ ساری چیزیں رکی رہیں گی۔ اس میں ہم کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی فریقین کے اس مطالبے کو اہمیت دی جا سکتی ہے کہ نوازشریف کو اس بنیاد پر رہا کیا جائے۔ اس سے ایک بات ثابت ہوئی ہے کہ جج حضرات کو پرانے دور میں مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب پہلی مرتبہ جسٹس کیانی پبلک تقریروں میں آنے لگے تو بہت سے پرانے جج حضرات جیسے جسٹس منظور قادر تھے تو انہوں نے محمود علی قصوری میں مجھے کہا تھا کہ یہ جو ججوں نے سوشل تقریبات میں آنا شروع کیا ہے اور بیاہ شادیوں میں شرکت شروع کی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دور کا جج صاحبان وہ ایسا نہیں کرتے تھے وہ بالکل واقعی الگ تھلگ رہتے تھے ان کا کلب لائف سے کوئی تعلق نہیں تھا چنانچہ یہ بحث ایک ڈیڑھ سال تک جاری رہی تھی اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کیونکہ جسٹس کیانی نے پہلی بار تقاریر کرنا شروع کیں اور مختلف فنکشنوں میں جانا شروع کیا اس وقت بھی جو کنونشنل جج حضرات تھے وہ اس کے مخالف تھے وہ یہ کہتے تھے کہ جج کا نام صرف کیس سننا ہے اس کے بعد اپنے گھر جانا ہے اور سوسائٹی سے الگ تھلگ ہو اس طرح کا میل جول جس طرح کی یہ جج حضرات کی ویڈیو آ رہی ہیں جس طرح سے وہ لوگوں کے ساتھ لپاٹکی کر رہے ہیں اس کی اجازت عام طور پر نہیں جاتی تھی۔ جج حضرات کو اس میں سب سے بڑا قصوروار تو خود جج ارشد ملک ہیں کہ جج کو یہ شایان شان یہ بات نہیں جاتی کہ وہ اس طرح کی عام مجلس (فری گیدرنگ) میں بیٹھے۔ پینے پلانے اور ناچ گانے دیکھے۔ یہ برٹش جوڈیشری سے یہ ٹریڈیشن یہی رہی ہے کہ جج اپنے آپ کو بالکل الگ تھلگ کر سکتے تھے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv