تازہ تر ین

چوری روکنا ہے تو بجلی کمپنیوں کے ملوث ملازمین کو پکڑیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بجلی وری کے پیسے بھی ان لوگوں سے وصول کئے جاتے ہیں جو بل ادا کرتے ہیں۔ یہ بجلی کا بل ادا کرنے والوں کے ساتھ ظلم ہوتا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوںکہ عام طور پر غریب آدمی بجلی چوری نہیں کرتا۔ وہ تو ڈرتا ہے۔ اس کا تو ایک لائن میں کھڑا ہو کر چالان کر دیتا ہے۔ بجلی چوری زیادہ تر بڑا آدمی کرتا ہے۔ بڑی بڑی فیکٹریوں والے، بڑی سٹیل ملوں والے بڑی ٹیکسٹائل ملوں والے اور بڑی بڑی صنعتوں والے اس میں ملوث ہیں۔ اب تو کنڈا سسٹم کراچی میں ہے اور بعض دوسرے علاقوں میں ہے۔ بجلی زیادہ میٹر کے ذریعے چوری کی جاتی ہے۔ میٹر ریورس کر کے زیادہ بجلی چوری کی جاتی ہے۔ ملی بھگت سے بجلی چوری ہوتی ہے۔ بجلی چوری کا محکمہ والوں کو علم ہوتا ہے۔ گرمیوں میں تو زیادہ بجلی گھروں میں استعمال ہوتی ہے ایئرکنڈیشنر چلتے ہیں۔ اگر ایک ایئر کنڈیشنر دن رات چلے تو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سات ہزار یا 8 ہزار بجلی کا ماہانہ بل آنا چاہئے۔ جن گھروں میں 5,4 اے سی چلتے ہیں محکمے والے خود آ کر معاملہ طے کرتے ہیں کہ اتنے پیسے ہم آپ لے لیں گے اور آپ کو اتنا بل آئے گا۔ وہ خود بجلی چوری کے طریقے بتاتے ہیں اور خود بجلی چوری کرواتے ہیں۔ بڑے لوگوں کو پکڑیں غریب بجلی کیا چوری کرے گا۔ عمران خان صاحب نے اچھی بات کہی۔ مگر میں یہ ایک ضروری بات کہہ دوں۔ ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ہم نے اعلانات بہت سنے ہیں۔ ساری زندگی میں یہی سنتا رہا ہوں۔ ہر حکومت کی طرف سے دوچار دفعہ یہ اعلان سننے میں آیا۔ جب تک حکومت ایسا سسٹم اڈاپٹ نہیں کرے گی ملی بھگت سے بجلی چوری کرنے والوں کو پکڑا جا سکے اس وقت بجلی چوری نہیں رک سکتی۔ آپ چوروں کو ہی کہتے ہیں کہ دھیان کرنا بھئی چوری نہ کرنا۔ اس طرح کوئی بات مانتا ہے۔ ہمارے خورشید شاہ صاحب ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ لیڈر آف اپوزیشن رہے۔ یہ سکھر میں میٹر ریڈر تھے۔ میٹر دیکھنے والا اتنا مالدار ہوتا ہے کہ پھر اس کے پاس پیسہ آ جاتا ہے۔ پھر اس نے الیکشن بھی لڑ لیا۔ ایل این جی بہت پرانا کیس ہے۔ شیخ رشید صاحب سے ابھی بات ہوئی تھی انہوں نے کہا کہ میں کل یا پرسوں پوری تیاری کر کے آپ سے بات کروں گا ہو سکتا ہے کل ان سے بات ہو جائے۔ وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے بہت پہلے قطر سے جو ایل این جی کا معاملہ شروع ہوا تھا کہ ہم نے ایل این جی منگوائی اس کا جو ریٹ تھا بقول شیخ رشید صاحب کا کہنا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ ریٹ ہے ان کا کہنا تھا کہ اسے قطر نے کم پیسوں پر انڈیا کو گیس دی ہوئی ہے اور ہمیں زیادہ پیسوں پر دی ہے لیکن شیخ رشید صاحب اسمبلی کے ممبر ہوتے تھے۔ لیکن شیخ رشید بھی پوری کوشش کر بیٹھے جو حکومت وقت تھی وہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ یہ معاملہ خفیہ ہے ہم اسے ظاہر نہیں کر سکتے۔ چنانچہ شیخ رشید نے پوری کوشش کی کہ مجھے ریٹ پتہ چل سکے کہ کسی ریٹ پر پاکستان نے ایل این جی خریدی تو قطر نے احتساب الرحمن ان کو کہتے تھے دراصل وہ احتساب بیورو کے انچارج تھے اصل نام سیف الرحمان تھا۔ خاص الخاص آدمی تھا نوازشریف صاحب کا۔ نوازشریف کے فرنٹ مین شمار ہوتے تھے۔ سیف الرحمان رہائی پانے کے بعد قطر چلے گئے تھے۔ اٹک جیل میں نوازشریف کے ساتھ ہی رہے۔ قطر میں ان کا بہت بڑا کاروبار ہے۔ اس میں کہا جاتا ہے نوازشریف صاحب کا حصہ ہے دراصل وہ نوازشریف کے فرنٹ مین بھی حصہ دار ہیں۔ یہ معاہدہ انہوں نے ہی کروایا تھا چنانچہ جو زوروشور سے کیا گیا تھا کہ ہم نے سب سے سستی گیس قطر سے خریدی ہے شیخ رشید اصرار کرتے تھے کہ نہیں جی ہم نے مہنگی خریدی ہے۔ میں سمجھتا ہو ںکہ ایک وقت میں کیس دب گیا تھا کسی وجہ سے لیکن اب یہ پھر خود نیب نے خط لکھ کر اس کو کھولا ہے اور لفتا ہے کہ یہ بات سامنے آ جائے گی کہ ہم کس ریٹ پر لے رہے تھے اور قطر انڈیا کو کس ریٹ پر دے رہا تھا۔ اگر یہ بات ثابت ہو گئی کہ پاکستان زیادہ ریٹ پر خرید رہا تھا تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ شاہد خاقان عباسی کی وزارت میں کوئی گڑ بڑ ہوئی تھی۔
ضیا شاہد نے کہا کہ حمزہ شہباز اب اپوزیشن لیڈر ہیں اور انہوں نے کہا اب لطف بھی محسوس ہونے لگا کہ اپنی اچھی لیڈری کرنے لگے ہیں تو وہ مزہ چکھ لیں۔ اسمبلیاں ہوتی ہیں ہنگاموں کے لئے ہوتی ہیں عمران خان صاحب کہہ رہے ہیں این آر او مانگ رہے ہیں اور اپوزیشن والے پوچھ رہے ہیں کہ بتایا جائے کہ کون این آر او مانگ رہا ہے۔ عمران کے ساتھیوں کو چاہئے کہ وہ ثابت کریں کہ کب انہوں نے این آر او مانگا کس ذریعے مانگ رہے ہیں کن قوتوں کے ذریعے مانگ رہے ہیں درمیان میں میں نے صرف ایک خبر پڑھی تھی کہ پاکستانی فوج کے حوالے سے تھی اس میں تھا کہ شہباز شریف صاحب نے ملاقات کی ہے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے کی تھی اور اس ملاقات کے حوالے سے کہا جا رہا تھا کہ انہوں نے اپنے لئے رعاتیں مانگی ہیں اگلے روز خبریں آتی ہیں کہ لیکن کہا جاتا تھا کہ ان کو کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف پر میں نے 440 صفحات کی کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ”میرا دوست نوازشریف“ میں ان کی اس بات پر یقین نہیں کرتا کہ وہ ٹی وی نہیں دیکھتے، کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کو کسی نے بتایا ہی نہیں، اصل میں وہ جواب نہیں دینا چاہتے تھے یہ ان کی مرضی ہے۔ میرے خیال میں مجھے اب ایک اور کتاب لکھنا پڑے گی ”میرا دوست عمران خان“ لیکن اس سے پہلے مجھے ”میرا دوست شہباز شریف“ لکھنی چاہئے لیکن ان کے حوالے سے میں دوست ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا اس لئے دوست کی جگہ ”واقف“ لکھ دوں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف نے بھی ایک زمانے میں ”قرض اتارو ملک سنوارو“ مہم دنیا بھر میں چلائی تھی۔ بہت سارے لوگوں نے چندہ بھی دیا پھر سکینڈلز بنے۔ پتہ نہیں وہ پیسہ کہاں گیا؟ وزیر خزانہ اسد عمر کو چاہئے کہ سٹیٹ بینک سے چیک کروائیں کہ اس وقت کتنی رقم جمع ہوئی تھی اور وہ کدھر گئی؟ سنا ہے کہ وہ نوازشریف نے اور اسحاق ڈار سمیت دیگر ساتھیوں نے اس پیسے سے باہر جائیدادیں خرید لی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ میں سب سے بڑا نام سلیم سیف اللہ کا آیا تھا جس کی 26 آف شور کمپنیاں تھیں، ان کے بارے میں کبھی کسی نے ذکر نہیں کیا، کے پی حکومت کی بھی شاید ان کے ساتھ رشتے داریاں یا دوستیاں ہیں جو ان کا کبھی نام ہی نہیں لیا۔ سلیم سیف اللہ کا نام دبا دیا جاتا ہے۔ یہ پورا خاندان ہے انور سیف اللہ، ہمایوں سیف اللہ و کلثوم سیف اللہ وغیرہ کے پی میں قد آور سیاستدان تھے۔ نوازشریف کی 3، سلیم سیف اللہ کی 26 آف شور کمپنیاں نکلیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں بڑی شخصیات کی طلبیاں شروع ہو گئی ہیں۔ آہستہ آہستہ سب کی باریاں آئیں گی، لگتا ہے مشکل دور شروع ہو رہا ہے۔ آصف زرداری کے حوالے سے بڑی باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔ شاید ان کی گرفتاری نہ ہو ان کے قریبی ساتھیوں کی ہو جائے، منی لانڈرنگ کے الزام میں اومنی گروپ کی مرکزی شخصیت کو جدہ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اب مزید بہت ساروں کی باری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے تعلیمی اداروں میں منشیات پر پابندی کا اقدام خوش آئند ہے۔ ایک واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاہور کے پوش علاقے میں قائم ایک انگریزی سکول میں خاتون منشیات بیچتی تھی، طالبات نشے پر لگی ہوئی تھیں، ایک بچی غریب تھی جب اسے نشے کی عادت لگ گئی تو وہ نشہ بیچنے والوں کے مجبور کرنے پر گھر سے بھاگ آئی اور ایک منشیات فروش سے شادی کر لی۔ ایسے واقعات پر والدین بھی کچھ نہیں کر سکتے اور اپنی دوسری بچیوں کی خاطر کسی سے ذکر بھی نہیں کرتے، یہ واقعات بہت افسوسناک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غربت کی وجہ سے بڑی خودکشیاں ہو رہی ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کے ساتھ نہر میں کود کر خودکشی کر لیتی ہیں۔ 4,3 سال پہلے پنجاب میں ایسے بہت واقعات پیش آنا شروع ہو گئے تھے۔ عمران خان مدینہ جیسی ریاست کے وعدے کرتے ہیں، اس کے لئے کام بھی کرنا پڑے گا، مدینہ کی ریاست حضرت عمر فاروقؓ کے دور جیسی ہے جہاں رات کو کوئی بھوکا نہیں سوتا، انصاف ملتا ہے، روٹی، کپڑا اور چھت ملتی ہے۔ عمران خان صاحب مدینہ جیسی ریاست تو تب بنتی ہے جب رات کو سونے سے پہلے ریاست اپنی ذمہ داری نبھائے کہ کہیں کوئی بھوکا، بیمار، مقروض یا کسی اور پریشانی میں تو نہیں، یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ زبانی کہنے سے مدینہ جیسی ریاست نہیں بن جاتی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ مہنگائی کی لہر کو تسلیم کرتا ہوں جو بے تحاشا ہو گئی ہے۔ عمران خان سعودی عرب کی طرح اگر دوسرے دوروں میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں تو پہلا مطالبہ کروں گا کہ قانون پاس کروایا جائے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ رات سونے سے قبل تسلی کریں کہ کہیں کوئی بھوکا، بیمار یا کسی تکلیف میں تو نہیں۔ قائداعظم نے بھی کہا تھا کہ ”اگر میرے بنائے پاکستان میں غریب کو روٹی، انصاف اور چھت نہیں ملتی تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے۔“ میں ”سچا و کھرا لیڈر“ کے نام سے قائداعظم پر کتاب بھی لکھی ہے جس کی تقریب رونمائی میں عمران خان بھی آئے تھے، میں نے ان سے کہا تھا کہ 200 کتابیں رعایتی قیمت پر لے لیں اور اپنے ایم این ایز میں تحفے کے طور پر تقسیم کریں تا کہ ان کو پتہ چلے قائداعظم کی نظر میں پاکستان کا نقشہ کیا تھا؟



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv