تازہ تر ین
Zia Shahid ky Sath

سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار پورا نظام غیر یقینی صورتحال کا شکار

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں جس نوازشریف کو جانتا ہوں وہ بہت رحم دل، خدا خوفی رکھنے والے وزیراعظم تھے۔ انہوں نے جب ہمارا سلوگن سُنا ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ تو انہوں نے اسی سلوگن کو اپنا لیا ”جہاں ظلم وہاں نواز شریف“ نوازشریف صاحب چھوٹے سے چھوٹے واقعہ پر بھی پہنچ جاتے تھے۔ حتیٰ کہ کچے کے علاقے میں وہ ہیلی کاپٹر میں ایک بچی کے ساتھ زیادتی کی خبر پر وہاں پہنچے اور ملزمان کی گرفتاری تک وہاں رہے۔ شمالی لاہور میں ایک مرتبہ شدید بارش ہوئی۔ ہر طرف پانی پانی تھا۔ نواز شریف نے مجھے اور چند صحافیوں کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور اڑھائی گھنٹوں تک وہ ہمارے ساتھ پانی میں پھرتے رہے۔ اب شاید وہ نوازشریف تبدیل ہو چکے ہیں۔ لاہور میں دھماکے کے باوجود وہ دوسرے ملک کے دورے پر چلے گئے اور دھماکہ بھی ان کی پرانی رہائش گاہ کے اتنا قریب ہوا۔ اتنے عرصہ سے حکمران رہنے کے بعد شاید وہ پرانے والے نوازشریف نہ رہے ہوں اور انہوں نے دھماکے کو صوبائی معاملہ سمجھتے ہوئے میاں شہباز شریف پر ڈال دیا ہو۔ میں اس نوازشریف کو جانتا ہوں جو وزیرخزانہ تھے تو ہمارے دفتر آ کر ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر گوال منڈی سبز چائے پلانے لے جاتے تھے۔ یہ ان کا شوق تھا، بطور دوست وہ ہمدرد انسان تھے۔ چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کی آج ملاقات ہوئی ہے لیکن امن ملاقات ہی سے کچھ نہیں نکلنے والا۔ مسلم لیگ (ن) چوہدری نثار کا گھر ہے۔ انہوں نے گھر چھوڑ کر کہیں نہیں جانا وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیر ریلوے سعد رفیق صاحب نے 4 گھنٹے ملاقات میں ضائع کئے، انہیں اپنے اپنے معاملات دیکھنے چاہئیں۔ چوہدری نثار کہیں نہیں جانے لگے۔ چوہدری نثار علی کی پریس کانفرنس کرنا یا نہ کرنا اتنی بڑی خبر نہیں کہ اٹھ کر کھڑے ہو جائیں یہ کیا ہوا عمران خان اور شیخ رشید سادا لوح انسان ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چھوڑ چلے ہیں۔ ایسا ممکن نہیں۔ چوہدری نثار علی خان وہی ہیں جو کہتے تھے کہ فواد حسن فواد نے لیکس کی رپورٹ پر بیان کیوں دے دیا یہ تو میرا استحقاق تھا، یہ بیان تو میں نے دینا تھا، میری منسٹری نے بیان جاری کرنا تھا۔ اسی قسم کی لڑائیاں اور ناراضگیاں ہیں۔ یہ جلد دور ہو جائیں گی۔ میر شکیل رحمن نے عدالت نے معافی مانگ کر بہت اچھا کیا۔ عدالت سے معافی مانگ لینی چاہئے۔ ان سے لڑنا نہیں چاہئے۔ عمران خان نے پیسے جوڑ کر لاہور میں شوکت خانم بنا لیا۔ پھر پیسے جوڑ کر پشاور میں بنا لیا اب کراچی میں بنائے جا رہے ہیں یہ فلاحی کام سیاست سے بھی زیادہ اچھا کام ہے۔ خان صاحب اسی طرف لگے رہیں۔ عمران خان کی لوگوں میں جو عزت ہے وہ 99 فیصد شوکت خانم کی وجہ سے ہے۔ سیاست کی وجہ سے نہیں ہے۔ عمران خان نے جنگ اور جیو کے بائیکاٹ کا پہلے بھی اعلان کیا تھا لیکن کسی نے عمل نہیں کیا یہ لڑائی تو دو فریقین کی ہے۔ میڈیا گروپ (جنگ) اور دوسرا فریق عمران خان وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس سٹریٹ پاور ہے۔ عمران کو شکایت ہے تو اسے بھی عدالت میں لے جائیں۔ وہاں ثابت کر دیں کہ یہ فنڈنگ لے کر لوگوں کے لئے کام کر رہے ہیں۔ میاں نوازشریف اور شہباز شریف کے شکل ہی معصومانہ ہے۔ اللہ نے انہیں چہرہ ہی ایسا دیا ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر بھی بحث ہونی چاہئے تھی۔ عدالت کی طرف سے یہ بیان آنا کہ جے آئی ٹی نے بہت عمدہ، مکمل رپورٹ دی ہے۔ اس سے عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ جے آئی ٹی نے سب کچھ صحیح کہا ہو گا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو یا تو سپریم کورٹ مسترد کر دے۔ عدالت کے بیان سے لگتا ہے کہ اسے جے آئی ٹی کی تحقیقات قبول و منظور ہیں۔ اس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ بھی محفوظ کر لیا ہے۔ محترم جج صاحبان نے جو بھی فیصلہ دینا ہے خدارا جلد دے دیں۔ اس کا فیصلہ سب کو قبول ہونا چاہئے۔ فیصلہ محفوظ کرنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے یہ کوئی اکاﺅنٹ نہیں کہ جس کے پیسے برھتے جائیں گے۔ یا یہ انڈے بچے دے گا۔ فیصلہہ محفوظ کرنے کے بعد شاید اس میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ ججوں کے سامنے کس کی پیش چلتی ہے کہ وہ ان کے دیئے ہوئے فیصلے کو تبدیل کروا سکے۔ کیا امریکہ آ کر کہے گا یا کوئی اور اوپر سے آ کر کہے گا۔ ایسا ممکن نہیں ان کا دیا ہوا فیصلہ کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ پانامہ کیس کے فیصلے کی وجہ سے مکمل اہم کام روکے ہوئے ہیں۔ پروجیکٹ رک گئے ہیں۔ پالیسیاں رک گئی ہیں۔ عدالت فیصلہ دے دے۔ تا کہ پتا چلے گا کہ نوازشریف نے رہنا ہے یا جانا ہے۔ ان کی جگہ کسی عوام نے نہیں لینی۔ لیکن رکنے کی وجہ سے ملکی معیشت رک گئی ہے۔ جس کا تعلق عام آدمی سے ہے۔ تقرریاں رکی ہوئی ہیں۔ پی پی پی اور پی ٹی آئی ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے پیچھے چل رہے ہیں ایک چھوٹی مگر اہم خبر یہ آئی ہے کہ آصف زرداری ناراض ہو کر باہر چلے گئے ہیں۔ سیاست میں پوائنٹ سکورنگ ہوتی ہے۔ خورشید شاہ اور عمران خان ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں۔ عمران خان ایک سیاسی رہنما ہیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ایک میڈیا گروپ صحیح خبریں نہیں دے رہا بلکہ اینگلنگ کر رہا ہے۔ تو انہیں حق حاصل ہے کہ وہ اس کے بارے جو چاہیں کہیں۔ جس طرح سیاست دانوں کی اپنی سوچ ہوتی ہے اسی طرح صحافی بھی اپنی رائے رکھتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ اشتہاروں کی لالچ کی وجہ سے اپنی رائے تبدیل کر لیں۔ مجیب الرحمن شامی حکومت کے حق میں بولتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی جیب میں لفافہ گیا ہے۔ کوئی میڈیا گروپ نیک نیتی سے بھی تو سمجھ سکتا ہے کہ میاں نواز شریف درست کام کر رہے ہیں یہ ان کا حق ہے۔ آزادی اظہار کا سب کو حق حاصل ہے۔ اے آر وائی کا اخبار ہی کوئی نہیں تو انہیں سرکاری اشتہار کہاں سے ملتے۔ آج کل سلمان اقبال صاحب ان کے صاحبزادے اے آر وائی چلا رہے ہیں۔ ان کے والد مرحوم عبدالرزاق صاحب کے حکومت کے ساتھ بہت شدید اختلافات تھے۔ اس وقت یہ سونے کا کاروبار کرتے تھے ابھی ٹی وی چینل نہیں کھولا تھا۔ ان کے خلاف کچھ مقدمات درج تھے۔ اس کی وجہ سے وہ پاکستان میں آ نہیں سکتے تھے۔ اور پابندیاں ختم کروائیں۔ اب ان کی اپنی سوچ ہے کہ حکومتوں کے بارے میں حکومت پاکستان کے بارے میں حتیٰ کہ آصف زرداری کے دور میں بھی وہ حکومت کے خلاف چلتے تھے۔ انہوں نے شاید تہیہ کر رکھا ہے کہ حکومت پاکستان کےخلاف چلنا ہے۔ اب اس صورتحال میں حکومت تو انہیں اشتہار نہیں دے گی ناں۔ تجزیہ کار قسور کلاسرا نے کہا ہے کہ چودھری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس ملتوی کی ہے۔ ان کے اور پارٹی کے دیگر ارکان کے آپس میں معاملات کشیدہ ہیں۔ پانامہ کے بعد میاں نواز شریف کو استعفیٰ دینا چاہیے تھا۔ اس بات پر چودھری نثار علی خان متفق تھے۔ ان کا خیال تھا کہ نواز شریف کو کسی متبادل کا اعلان کر دینا چاہیے تھا۔ شہباز شریف اور چودھری نثار علی کی ملاقات آج ہوئی ہے آپ کو یاد ہو گا کہ جب ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ن لیگ کا معاملہ چل رہا تھا تو ان دونوں نے ملکر اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے کئے تھے۔ نثار علی خان کا 32 سال کا نواز شریف سے قریبی تعلق ہے وہ لگتا نہیں کہ ان کا ساتھ چھوڑیں گے لیکن خبر یہ ہے کہ شہباز شریف نے چودھری نثار علی خان کو راضی کر لیا ہے کہ اختلافات کو میڈیا پر لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے اختلافات اپنی جگہ لیکن یہ معاملات میڈیا پر نہیں آنے چاہئیں۔ ماہر قانون دان خالد رانجھا نے کہا ہے کے عدالت کی جانب سے فیصلہ اسی لئے محفوظ کیا جاتا ہے کہ اسے فوری طور پر لکھا نہیں جا سکتا۔ اس دوران اسے تفصیل سے لکھا جا رہا ہوتا ہے۔ مختصر فیصلہ سنایا نہیں جاتا۔ عدالت کی کارروائی کے دوران اسے مختصراً لکھ لیا جاتا ہے اور محفوظ کرنے کے بعد اسے تفصیلی طور پر تحریر کیا جا رہا ہوتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے فواد چودھری نے کہا ہے کہ عمران خان نے جنگ گروپ کے خلاف درست کہا ہے۔ آپ ان کا اخبار نکال کر دیکھ لیں۔ وہ عمران خان کے خلاف بھرا ہوتا ہے۔ وہ آئی ایس آئی کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ وزراءبیٹھ کر عمران خان کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ لگتا ہے یہ منفی پروپیگنڈا ان کی پالیسی کا حصہ ہے۔ انہوں نے جے آئی ٹی کو بدنام کیا سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر کہا بیہودہ بات کی ہے۔ ہم ان کے ایجنڈے کے خلاف ہیں، عمران خان نے درست کہا ہے کہ بائیکاٹ ہونا چاہیے۔ اے آر وائی والے اگر حکومت کے خلاف باتیں کر رہے ہیں تو وہ حکومت سے ریونیو تو وصول نہیں کر رہے۔ شکیل الرحمن نے قبول کیا ہے کہ وہ کاروباری ہیں صحافت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv