تازہ تر ین

ایوب ، ضیاالحق اور اب نواز شریف ، مسلم لیگ مشکل وقت میں ٹوٹ جاتی ہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوںو تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ مسلم لیگ کبھی بھی نظریاتی و مستحکم سیاسی جماعت نہیں رہی۔ ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ بنائی جو ان کے دور حکومت کے بعد بکھر گئی۔ مشرف نے اسی مسلم لیگ کو گود میں لیا، شجاعت حسین صدر بنے۔ ضیاءالحق نے بھی مسلم لیگ کو گود میں لیا اور نوازشریف کی زیرقیادت پنجاب میں پروان چڑھایا۔ آج مسلم لیگ ن پر بھی وہی وقت ہے البتہ ابھی حتمی فیصلہ نہیں آیا نوازشریف وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شیخ رشید نے کہا کہ نواز لیگ کے 40 ارکان پارٹی چھوڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ایک اینکر پرسن نے ان میں سے 21 کے نام بتا دیئے اور یہ بھی کہا کہ آئی بی کے ذریعے ان پر دباﺅ ڈال جا رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ 40 ارکان نواز شریف کو چھوڑ دیں گے۔ ادھر ذوالفقار کھوسہ نے دھماکہ کیا ہے کہ ”ان کے پاس 55 ایم این ایز کی فہرست ہے جو تیار بیٹھے تھے اور بجٹ سیشن میں بھی نہیں جانا چاہتے تھے۔“ذوالفقار کھوسہ ان 55 ایم این ایز کے نام بھی بتائیں۔ یہ آخری وقت تک دیکھیں گے کہ معاملہ کدھر جاتا ہے۔ مسلم لیگیوں نے ہر دور میں ڈوبتی ہوئی کشتی سے چھلانگیں لگائی ہیں۔ اگر یہ کشتی تیرتی رہی تو بہت سارے دوبارہ نوازشریف کے ساتھی بن جائیں گے لیکن اگر ڈوب گئی تو بہت سارے چھلانگیں لگا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شجاعت حسین نے بھی میرے پروگرام میں نوازشریف بارے امکان ظاہر کیا تھا کہ ان پر لگے الزامات سچ ثابت ہو جائیں گے۔ گزشتہ چند روز میں خاص مسلم لیگیوں نے مجھے فون کر کے کہا کہ ہم تو قیادت کو بہت اچھا سمجھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ چودھری نثار سمجھدار آدمی ہیں، اچھے طریقے سے فاصلہ رکھ کر چلتے ہیں۔ آخری وقت پر جدھر فائدہ دیکھیں گے ادھر شریک نظر آئیں گے۔ بدقسمتی سے اس ملک میں مسلم لیگ نے قائداعظم کی جتنی مٹی پلید کی ہے کسی نے نہیں کی۔ ایک زمانے میں کہا جانا تھا کہ کسی بھی مسلم لیگی کو پیسے سے خریدا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے پیپلزپارٹی میں جانے کے سوال پر مجھے کہا تھا کہ ”میں پاگل ہوں کہ جو پارٹی عروج پر جا رہی ہے، میں اس کے دوسرے نمبر پر ہوں اور قومی اسمبلی میں لیڈ کر رہا ہوں اسے چھوڑ کر چلا جاﺅں۔“ تجزیہ کار نے کہا کہ وزیراعظم کا قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ اچھا ہے لیکن وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے؟ پارٹی کے لوگ اس ڈر سے کہ شاید وزیراعظم نااہل ہو جائیں ان کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ شجاعت حسین نے کہا تھا کہ بہت جلد پرندے اڑنا شروع ہو جائیں گے اب پرندے اڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر نے منظور وٹو کی چھٹی کرا دی تھی بعد میں اسی پی پی نے ان کو پنجاب کا صدر بنا دیا۔ بے نظیر کہتی تھیں کہ ”اس سے بڑا چور، ٹھگ کوئی نہیں، طے کر لیا ہے کہ اس گندگی کو نکال باہر کریں گے۔ اسی منظور وٹو کو پیپلزپارٹی نے سینے سے لگا لیا۔ اس وقت منظور وٹو کے 22 ایم این ایز تھے جن کی بنیاد پر وہ پی پی کو بلیک میل کر کے وزیراعلیٰ بنے۔ نوازشریف نے جاوید ہاشمی کو منظور وٹو کو لانے کی ذمہ داری سونپی حالانکہ اس نے نوازشریف کے والد کو دھکے دیئے اور گرفتار بھی کرایا تھا۔ منظور وٹو نے جب مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا تو اس وقت ان کے ساتھ کوئی 15 لوگ ہوں گے، باقی غائب ہو گئے۔ جتنے آدمیوں کے ساتھ نواز لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا تھا اگلے ہی روز ان میں سے بھی 3 نے تردید کر دی۔ یہ قائداعظم کی مسلم لیگ نہیں بلکہ ایوب خان، ضیاءالحق اور پرویز مشرف کی مسلم لیگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جاوید ہاشمی نے پہلے مسلم لیگ ن چھوری پھر باغی باغی کے نعرے لگواتے پی ٹی آئی کو بھی چھوڑ دیا، انہیں اس وقت پی ٹی آئی کو نہیں چھوڑنا چاہئے تھا۔ آج یہ سن کر دکھ ہوا کہ جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ ”انہیں 3 وزراءنے زدوکوب کیا“ جن میں رانا تنویر، خواجہ آصف اور تیسرے کا نام نہیں بتایا شاید وہ خواجہ سعد رفیق یا اسحاق ڈار ہوں گے۔ اگر واقعی یہ بات درست ہے تو اس سے سیاست کا اصل چہرہ نظر آیا۔ یہ کہاں کی شرافت ہے کہ ایک بیمار شخص کو زدوکوب کیا۔ سیاستدان ہیں یا بدمعاش ہیں؟ جاوید ہاشمی سے اچھے تعلقات ہیں انہوں نے مجھے یہ واقعہ کبھی نہیں سنایا۔ ان کو نوازشریف کے سر پر تلوار لٹکتی نظر آ رہی ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ میں مسلم لیگی ہوں، مشہور ہوا تھا کہ نواز لیگ میں واپس چلے جائیں گے پھر کہا کہ میں ہوں ہی مسلم لیگی آنے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آج نوازشریف کو مشکل میں دیکھتے ہوئے وزراءکی جانب سے زدوکوب کرنے کا بیان دے دیا۔ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ وزیراعظم کو الزامات کا جواب دینے کا موقع ملنا چاہئے، عدالت میں جانا ان کا حق ہے۔ جے آئی ٹی کی تشکیل کو قانونی طور پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ جب بنی تھی تو مسلم لیگ ن نے رضامندی کا اظہار کیا تھا پھر 2 ممبران پر اعتراض اٹھایا لیکن عدالت نے مسترد کر دیا۔ جے آئی ٹی کی تفتیش ایسی ہی ہے جیسے کسی تفتیشی ادارے کی ہوتی ہے۔ اگر تفتیش درست نہیں تو وزیراعظم اپنا جواب داخل کر سکتے ہیں جو پیر کے روز کریں گے۔ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ دیکھی ہے اس میں شہبازشریف کو نااہل قرار دینے کی کوئی بات نہیں۔ عدالت میں تو ان کا ذکر بھی نہیں ہوا۔ اگر کوئی ایسی بات ہو بھی تو شہباز شریف اپنا جواب داخل کروا سکتے ہیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv