تازہ تر ین

وزیراعظم ،حسین نواز، حسن نواز کے ساتھ ساتھ مریم نواز کیخلاف کیا ہونے جارہا ہے؟, اہم ترین خبر

اسلام آباد ( رپورٹنگ ٹیم‘مانیٹرنگ ڈیسک‘ ایجنسیاں) پاناما جے آئی ٹی نے وزیرا عظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز اور بیٹی مریم نواز کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کردی۔لی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کے مطابق مدعا علیہان تحقیقاتی ٹیم کے سامنے رقوم کی ترسیلات کی وجوہات نہیں بتا سکے، جبکہ ان کی ظاہرکردہ دولت اور ذرائع آمدن میں واضح فرق موجود ہے۔سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچے آمدنی کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے اور منی ٹریل ثابت نہیں کر سکے۔رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی نے برٹش ورڑن آئی لینڈ سے مصدقہ دستاویزات حاصل کرلی ہیں، آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کی مالک مریم نواز ہیں اور ان دونوں کمپنیوں کے حوالے سے جمع کرائی گئی دستاویزات جعلی ہیں، جبکہ ’ایف زیڈ ای کیپیٹل‘ کمپنی کے چیئرمین نواز شریف ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بےقاعدہ ترسیلات سعودی عرب کی ’ہل میٹلز‘ اور متحدہ عرب امارات کی ’ کیپیٹل ایف زیڈ ای‘ کمپنیوں سے کی گئیں، جبکہ بےقاعدہ ترسیلات اور قرض نواز شریف، حسن نواز اور حسین نواز کو ملے۔برطانیہ کی کمپنیاں نقصان میں تھیں مگر بھاری رقوم کی ہیر پھیر میں مصروف تھیں، جبکہ یہ بات کہ لندن کی جائیدادیں اس کاروبار کی وجہ سے تھیں آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔رپورٹ کے مطابق انہی آف شور کمپنیوں کو برطانیہ میں فنڈز کی ترسیل کے لیے استعمال کیا گیا، ان فنڈز سے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئیں۔پاکستان میں موجود کمپنیوں کا مالیاتی ڈھانچہ مدعا علیہان کی دولت سے مطابقت نہیں رکھتا، بڑی رقوم کی قرض اور تحفے کی شکل میں بےقاعدگی سے ترسیل کی گئی، یہ رقوم سعودی عرب میں ’ہل میٹلز‘ کمپنی کی طرف سے ترسیل کی گئیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 اے وی کے تحت یہ کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے، لہٰذا جے آئی ٹی مجبور ہے کہ معاملے کو نیب آرڈیننس کے تحت ریفر کردے۔ جبکہ وزیراعظم نوازشریف کے نام سے بھی ایک آف شور کمپنی کا انکشاف ہوا ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق ایف زیڈ ای کیپٹل کمپنی کے چیئرمین نوازشریف ہیں، وزیراعظم اور ان کے بچے منی ٹریل ثابت نہیں کر سکے۔ الانا سروسز، لینکن ایس اے اور ہلٹن انٹرنیشنل سروسز بھی شریف خاندان کی ہیں، اس سے قبل نیلسن، نیسکول اور کومبر گروپ نامی کمپنیاں منظر عام پر آئی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق شریف خاندان نے کورٹ میں جعلی دستاویزات جمع کرائیں، جے آئی ٹی نے نیلسن اور نیسکول سے متعلق دستاویزات جعلی قرار دے دیں۔ رپورٹ کے مطابق حسن نواز کی لندن میں جو فلیگ شپ اونر کمپنی اور جائیدادیں ہیں اس میں بھی تضاد پایا جاتا ہے کیونکہ برطانیہ کی کمپنیاں نقصان میں تھیں مگر بھاری رقوم کی ریوالونگ میں مصروف تھیں۔ آف شور کمپنیز برطانیہ میں شریف خاندان کے کاروبار سے منسلک ہیں، آف شور کمپنیاں برطانیہ میں موجود کمپنیوں کو رقم فراہمی کے لئے استعمال ہوتی ہیں پیسہ برطانیہ، سعودی عرب، یو اے ای اور پاکستان کی کمپنیو ںکو بھی ملتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نوازشریف اور حسین نواز یہ فنڈز بطور تحفہ اور قرض وصول کرتے رہے، تحفے اور قرض کی وجوہات سے جے آئی ٹی کو مطمئن نہیں کیا جا سکا، متحدہ عرب امارات نے بارہ ملین درہم کی کوئی ٹرانزیکشن نہ ہونے کی تصدیق کر دی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 14 اپریل 1980ءکو گلف اسٹیل مل کی فروخت کا کوئی ریکارڈ نہیں مل سکا، 2002,2001ءمیں دبئی سے جدہ کسی قسم کا کوئی اسکریپ نہیں بھیجا گیا، طارق شفیع بی سی سی آئی کے 9 ملین درہم کے ڈیفالٹر تھے۔ واضح رہے کہ پانامہ عمل درآمد کیس کی سماعتکے دوران جے آئی ٹی نے حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔ سربمہر رپورٹ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاءنے عدالت میں پیش کی۔ رپورٹ میں سپریم کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے 13 سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔ حتمی رپورٹ میں قطرے شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنے کے لئے کی جانے والی کوششوں کی تفصیلات کے علاوہ مختلف اداروں کی جانب سے مہیا کردہ ریکارڈ بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ پانامہ کیس کی تحقیقات کے لئے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئی رپورٹ کی جلد نمبر 3میں متحدہ عرب امارت کی وزارت انصاف کا خط شامل کیا گیا ہے جس میں وزارت نے وزیر اعظم پاکستان کے کزن طارق شفیع کے 6میں سے5دعوے مسترد کردئیے ہیں۔پانامہ کیس کی تحقیقات کے دوران شریف خاندان کی جانب سے دی گئی منی ٹریل کو متحدہ عرب امارات کی وزرات انصاف نے مسترد کردیا گیا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کے کزن طارق شفیع کی جانب سے گلف سٹیل مل کی فروخت کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ 14اپریل 1980ءگلف سٹیل مل کی فروخت کی گئی لیکن جے آئی ٹی کا کہنا تھا کہ دوبئی سے اس فروخت کا کسی بھی قسم کا ریکارڈ نہیں ملا۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ 80اور 90کی دہائی میں کمپنیاں بنائی گئیں تو اس وقت نوازشریف سرکاری عہدہ رکھتے تھے ،مریم نواز کی نیسکول اورنیلسن کمپنی کی ملکیت بھی ثابت ہو گئی ہے جبکہ طارق شفیع کی جانب سے کیے جانے والے چھ دعوں میں دبئی کی حکومت نے 5مسترد کر دیئے ہیں۔جے آئی ٹی کی جانب سے اس سے متعلق یو اے ای حکومت کا خط بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیاہے۔ جے آئی ٹی نے قطری خط کو افسانہ قرار دیدیا ہے،قطری شہزادے کے خطوط حقیقت نہیں یہ محض ایک فسانہ ہیں،غیرملکی حکومتوں کے خطوط کے بعد قطری خط کی حیثیت بے معنی ہوگئی ہے۔جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قطری خاندان سے بیریئر سرٹیفیکیٹس کی شریف خاندان کو منتقلی جھوٹی اور من گھڑت کہانی ہے جبکہ قطری شہزادے کا خط حقیقت نہیں محض ایک فسانہ ہیں۔رپورٹ کے مطابق قطری کاروبار سے متعلق تمام مالیاتی دستاویزات غلط ہیں۔ پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ انہوں نے تحقیقات میں معاونت کیلئے 6ممالک سے رابطہ کیا۔جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ انہوں نے سعودی عرب سمیت چھ ممالک کو خطوط لکھے جن میں سوئٹزر لینڈ ،لکسمبرگ ،آئس لینڈ ،متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔جے آئی ٹی کا اپنی رپورٹ میں کہناتھا کہ یو اے ای کی وزارت انصاف نے سات میں سے چار خطوط کا جواب نہیں دیا جبکہ برطانیہ کے ہوم آفس سے 7مختلف درخواستیں کی گئیں اور آئس لینڈ کے اٹارنی جنرل نے تین خطوط میں سے ایک کا جواب نہیں دیا۔ رپورٹ میں کہا ہے کہ شریف خاندان کی جانب سے جاوید کیانی کی معاونت کے لئے قرضے حاصل کرنے کے لئے 1991ئ تا 1998 ء فرضی غیرملکی کرنسی اکاونٹس فراڈسے کھولے گئے۔ انہی فرضی اکاونٹس پر قرضے لیے گئے، ڈپازٹس کو حدیبیہ پیپرز،حدیبیہ انجینئرنگ کے فائدے کے لیے استعمال کیا گیا۔شریف خاندان کی جانب سے ، 712 ملین روپے مالیت کے شیئرزکے عوض قرضہ لیاگیا۔ 642ملین روپے قرضہ حدیبیہ پیپرملز کے نام پرلیاگیا جبکہ 70ملین روپے قرضہ حدیبیہ انجینیرنگ کے نام پر بھی لئے گئے۔ اس قرضے کو1998میں مکمل کیاگیا،یہ سیٹ اپ اسحاق ڈارنے تیارکیاتھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیب آرڈیننس 1999کے سیکشن 9اے وی کے تحت یہ کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کے سرکاری جواب میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ یو اے ای کی مرکزی بینک کے ذریعے طارق شفیع کی طرف سے فہد بن جاسم بن جبار بن الثانی کو ایک کروڑ 20لاکھ درہم منتقل کرنے کا بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گلف سٹیل مل کے حوالے سے سوال پوچھنے پر وزیر اعظم نواز شریف نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ حسین نوازاورہل میٹل نے نوازشریف کے اکاونٹس میں تحفوں کے نام پربڑی رقوم منتقل کیں، شریف خاندان کے برطانیہ،دبئی میں اثاثوں سے 88 کروڑ روپے تحفوں کے نام پرمنتقل کیے گئے۔ ریکارڈ کے مطابق نوازشریف نےاپنی اہلیہ،بیٹوں اوربیٹیوں کے نام پرشیئر رکھے۔ نوازشریف کامقصدخاندانی کاروبارپر کنٹرول رکھتے ہوئے بھی کنٹرول ظاہرنہ کرناتھا۔ تاہم یہ کمپنیاں فنڈز کو مسلسل اپنے درمیان گھما پھرا رہی تھیں۔تحقیقات کے دوران جب وزیر اعظم سے گلف سٹیل مل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا جواب دینے کی بجائے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ جے آئی ٹی نے پاناماکیس کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہاہے کہ وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے جعلی دستاویزات جمع کروائیں۔تفصیلات کے مطابق جے آئی ٹی کا اپنی رپورٹ میں کہناتھا کہ مریم نواز اور حسین نواز کے درمیان لکھی گئی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے ،بچوں کی طرف سے فراہم کردہ دستاویزات خود ساختہ ہیں ،ان جعلی دستاویزات پر حسین نواز ،مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے بھی دستخط ہیں ،یہ جعلی دستاویزات حقائق کو توڑنے مڑونے کیلئے ہیں ،جعلی دستاویزات دینا جرم ہے۔جے آئی ٹی کا کہناتھا کہ حسن نواز نے بھی سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ جے آئی ٹی نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ پانامہ کیس کے الزامات اسی کے گرد گھومتے ہیں اگر اس کیس کی پروفیشنل انداز میں تحقیقات کی جاتی تو پانامہ لیکس کا معاملہ کئی سال پہلے ہی حل ہوجاتا مگر نیب انتظامیہ کے تاخیری حربوں کی وجہ سے یہ غیر معمولی طور پر تاخیر کا شکار ہے ، اگر چہ 27دسمبر 1999کواس کیس کی تحقیقات شروع کرنے کی اجازت دی گئی مگر اٹھارہ سال گزرنے کے باوجود نیب لندن میں جائیداد کے حوالے سے کوئی ثبوت اکھٹے نہیں کر سکا ،اب سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی میں اس حوالے سے کافی شواہد سامنے آئے ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نیب کی انوسٹی گیشن کا اس کے ساتھ گہرہ تعلق ہے ،اسی طرح رائیونڈ کے گرد و نواح میں خریدی گئی زمین کا کیس فروری 2000سے،رائیونڈ سٹیٹ میں سڑک کی تعمیرمیں اختیارات کا ناجائز استعمال کا کیس اپریل 2016سے،شریف ٹرسٹ کے حوالے سے جاری تحقیقات کا کیس مارچ 2000سے حدیبیہ انجینئر کمپنی میں بے نامی سرمایہ کاری کے حوالے سے کیس فروری 2000سے،ایف آئی میں غیر قانونی بھرتیوں میں اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے کیس 1999سے ،لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں غیر قانونی پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا کیس 2000زیر التواءہیں ،جے آئی ٹی نے وزیراعظم کیخلاف خارج ہونے والے متعدد مقدمات کو دوبارہ ری اوپن کرنے کی سفارش کی ہے ،مقدمات میں نواز شریف ،سیف الرحمان کیخلاف ہیلی کاپٹر کی خریداری کا کیس ، حدیبیہ پیپر مل کیس ،رائیونڈ میں غیر قانونی تعمیر ات سے متعلق کیس شامل ہیں جبکہ جے آئی ٹی نے وزیراعظم نواز شریف کیخلاف ایف اے کے حدیبیہ انجینئرنگ پرائیوئٹ لمیڈڈ ،اور حدیبیہ پیپر مل لمیٹڈ کے منسوخ مقدمات کو دوبارہ ری اوپن کرنے کی سفارش کی ہے اسی طرح جے آئی ٹی کی جانب سے ایس ای سی پی کی جانب سے چوہدری شوگر مل چوہدری شوگر مل کے سالانہ آڈٹ اکاﺅنٹس میں پر اسراربے ضابطگیوں اور منی لانڈرنگ کے کیس کو بھی دوبارہ کھولنے کی سفارش کی گئی ہے۔ نوازشریف کا اپنے خاندانی کاروبار سے گہرا تعلق تھا، رپورٹ سے یہ بھی ظاہرہوتاہے نوازشریف خاندانی کاروبارسے مالی فائدہ لے رہے تھے۔ نوازشریف اثاثے بناکر بچوں کے نام پر ظاہر کرتے رہے۔ اس حقیقت کوانکم ٹیکس گوشواروں اورالیکشن کمیشن میں بھی ظاہرنہیں کیاگیا۔ یہ معاملہ دولت کو ظاہر نہ کرنے کے زمر ے میں آتا ہے اس لئے سپریم کورٹ اس معاملے کا نوٹس لے آئی ٹی کی رپورٹ نے مریم نواز کی کمپنیوں کا انکشاف کیا ہےکہ دختر اول مریم نواز نیلسن اور نیسکول سمیت مزید دس کمپنیوں کی مالک ہیں جبکہ نیلسن اور نیسکول کا کوئی ٹرسٹی نہیں مریم نواز ہی اصل مالک اور بینفیشر ہیں۔جے ا?ئی ٹی اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دختر اول مریم نواز نیلسن اور نیسکول سمیت مزید دس کمپنیوں کی مالک ہیں جبکہ وہ کئی ملوں میں بھی حصہ دارہیں۔ حالی سٹیل کی فروخت کا معاہدہ جعلی ہے، 1980ئ میں ال ا?حالی سٹیل کے 25 فیصد شیئرز کی فروخت کا ریکارڈ موجود نہیں ہے، ڈیکلریشن ا?ف ٹرسٹ سے متعلق خود ساختہ رپورٹس جمع کرائی گئیں۔جے ا?ئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ کے حکم پر پبلک کر دی گئی ہے۔ تاہم رپورٹ کا والیم 10 جو کہ دیگر ممالک سے متعلق ہے، اسے جے ا?ئی ٹی کی درخواست کے مطابق، پبلک نہیں کیا گیا۔ وزیر اعظم کو جے ا?ئی ٹی کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے۔ اٹارنی جنرل اور دیگر ماہرین قانون نے جے ا?ئی ٹی کی رپورٹ پر وزیر اعظم کو بریفنگ دی۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv