تازہ تر ین

پانامہ پر دونوں مخالف فریقوں کے لہجے میں شدید تلخی ، تحمل سے کام لیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی جب تک چاہے گی وہ حسن نواز سے سوال جواب پوچھ سکتی ہے۔ اسی طرح وہ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز سے بھی پوچھ گچھ کرے گی۔ مریم ہم سب کے لئے قابل احترام ہے۔ وہ بیٹی ہیں۔ ہم سب ان کی عزت کرتے ہیں۔ چونکہ ان کا نام بھی پانامہ میں ہے اس لئے ان کو بھی جے آئی ٹی میں بلایا جائے گا۔ جے آئی ٹی نے صرف سوال جواب کرنے ہیں اصل فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ بالاآخر شریف فیملی کو جواب تو دینے ہی ہوں گے جے آئی ٹی کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دینی ہے۔ اس نے دونوں فریقوں کو بلا کر اس پر جرح کرنی ہے۔ پھر فیصلہ دینا ہے۔ حسن نواز نے موٹر سائیکل کا الزام والا بیان دے کر جے آئی ٹی پر طنز کی ہے۔ اسی طرح دادی کو بلا لو کہنا بھی درست نہیں۔ جے آئی ٹی نے خود سے کوئی سوال نہیں کرنا بلکہ کورٹ کی طرف سے ٹائپ شدہ سوالات کے جوابات مانگ رہی ہے۔ جے آئی ٹی پابند ہے کہ سپریم کورٹ کے سوالوں کا جواب حاصل کرے۔ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کا ہر حکم پورا کرنے کی پابند ہے۔ پانامہ پر اس وقت معاملہ اپنی ”ہائیٹ“ پر پہنچ گیا ہے۔ دونوں پارٹیاں اس وقت اپنا پریشر بنانے میں مصروف ہیں۔ اسی لئے دونوں جانب لہجہ میں تلخی آتی جا رہی ہے۔ فریقین کو ذرا صبر سے کام لینا چاہئے۔ وفاقی وزراءہوں یا محمود الرشید تلخ لہجے کا کسی کو بھی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس طرح کی بیان بازی سے وہ پھنستے چلے جائیں گے۔ ہمارے ملک میں آدھی بادشاہت اور آدھی جمہوریت ہے۔ قطر ایک ایسا ملک ہے جہاں مکمل بادشاہت قائم ہے۔ بادشاہ جو کہتا ہے، آئین ہے جو بولتا ہے وہ قانون ہے۔ ایسے ملک کا شہزادہ کیوں کسی کے سامنے پیش ہو۔ وہ کسی کو جوابدہ نہیں؟ لیکن وہ پاکستان کی عدالت کو کیا سمجھتے ہیں۔ ان سے کوئی بحث نہیں کر سکتا۔ اسحاق ڈار سمجھدار آدمی ہیں۔ ان کے بیان کے پیچھے کوئی رمز تو ہو گی۔ لیکن گزشتہ 23 سال سے مجھے تو کوئی احتساب ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ پچھلے دو چار ماہ سے ضرور شور شرابا مچ رہا ہے۔ جمشید دستی نے اپنی تقریر میں اتنی زیادہ گالم گلوچ کی اور غیر شائستہ زبان استعمال کی ہم تو اس کی مذمت ہی کر سکتے ہیں۔ سیاسی مخالف ہونے کی وجہ سے حکومت پر تنقید ضرور کریں لیکن گالم گلوچ اور گھٹیا زبان ان لوگوں کو زیب نہیں دیتی۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی ان کی تقریر سنی وہ انتہائی گھٹیا ہے۔ جمشید دستی نے ایک بھارتی سیاسی پارٹی کے نام سے متاثر ہو کر اپنی پارٹی ”عوامی راج پارٹی“ بنائی ہے۔ وہ خود اس کے صدر ہیں۔ اب ان کی جیل یاترا سے وہ لیڈر بن گئے ہیں۔ یہ حکومت کی ناسمجھی تھی کہ اسے اس موقع پر جیل میں ڈال دیا۔ اب رہا کر کے اور زیادہ مضبوط کر دیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں اب اس کے نعرے لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ کوئی عقلمند یہ بات مان سکتا ہے کہ ”بچھو“ کو سمجھا اس کے کمرے میں چھوڑا گیا کہ اسے ڈرانا ہے۔ کاٹنا نہیں۔ جیلوں میں کیڑے مکوڑے تو ہوتے ہیں۔ رانا ثناءاللہ کی بات درست ہے نہ تو ان پر تشدد کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی قسم کے کیڑے مکوڑے ان پر چھوڑے گئے ہیں۔ کوئی بھی لیڈر یہ غلطی نہیں کرے گا کہ ایسے شخص کو پٹوائے اور پھر وہ باہر نکل کر اس پر مقدمہ کر دے۔ جمشید دستی کا ماضی بہت کریمینل قسم کا ہے۔ ان کے والد ڈانس کا کاروبار کرتے تھے۔ بھائی فراڈیئے ہیں۔ ان کے بھائی بھی مجرمانہ مقدمات میں ملوث ہیں۔ ایک پر قتل کا مقدمہ ہے۔ دوسرا کپڑوں کو آگ لگا کر موت کے کنوئیں پر ٹکٹیں بیچا کرتا تھا۔ وہ خود قبول کرتے ہیں کہ ان کا خاندان کریمینل ہے۔ اس قسم کا شخص کس طریقے سے عوام کا لیڈر بن سکتا ہے۔ انہیں اگر لیڈر بننا ہے تو انہیں بہت محنت کرنا پڑے گی۔ سب سے پہلے اپنے خاندان سے لاتعلقی اختیار کرنے پڑے گی۔ اس کے بعد عوام کی بہت خدمت کرنی پڑے گی۔ تب جا کر انہیں عوام کی حمایت حاصل ہو گی۔ وہ جس بہن کا ذکر کر رہے ہیں کہ وہ کینسر کی مریضہ ہے۔ جمشید دستی نے ان کے نام کتنی زمینیں خریدی ہیں۔ اور پراپرٹی اور پیسہ اپنے نام رکھنے کی بجائے بہن بھانجوں کے نام کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف بھی معلومات دستیاب ہیں۔ عوامی راج پارٹی کے رہنما جمشید دستی نے کہا ہے کہ حکومت نے مجھ جیسے غریب سیاستدان پر ظلم و ستم کر کے اپنا چہرہ دنیا میں دکھایا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مل کر مجھ پر ظلم کیا، میرا اصل قصور یہ ہے کہ وفاقی بجٹ میں ہمارے صوبے کیلئے کچھ بھی نہیں رکھا گیا۔ مجھ پر 60 کیسز بنائے گئے ہیں۔ میں نے بجٹ کی کاپیاں پارلیمنٹ میں پھاڑ کر پھینک دی تھیں۔ پانی کے کیس میں 30 جون کو میری ضمانت ہو گئی تھی۔ رات 9 بجے ڈی پی او اور بھاری تعداد میں پولیس وہاں آئی اور انہیں تھانہ احمد پور شرقیہ کا واقعہ بھی بھول گیا اور رمضان کی سکیورٹی بھی بھول گئی انہیں صرف جمشید دستی یاد تھا۔ مجھے رات دو بجے ملتان جیل سے نکال کر ڈیرہ غازی خان جیل منتقل کیا گیا۔ مجھے وہاں دس دن رکھا گیا یہاں سزائے موت کے قیدی ہیں۔ نہ وہاں لیٹرین تھی نہ کوئی اور سہولت وہاں اتنے کیڑے تھے کہ بس۔ لال بیگ تھے۔ چوہے اور بچھو تھے۔ رانا ثناءاللہ نے انتقام کے طور پر میرے ساتھ یہ سلوک کروایا۔ مجھے ساری رات کھڑا رکھا جاتا تھا۔ میں نے کبھی نہیں کہا کہ مجھ پر تشدد کیا جاتا تھا۔ میں نے 12 روزے صرف ایک گلاس پانی سے رکھے۔ میری ملاقات بند تھی۔ اوپر بہت بڑا بلب لگایا گیا تھا۔ پنجاب حکومت جھوٹ بول رہی ہے۔ رات دو بجے کسی کو جیل منتقل کیا جاتا ہے۔ میں دہشت گرد نہیں تھا۔ حکمران اب بے نقاب ہو چکے ہیں پبلک اور میڈیا نے انہیں بے نقاب کر دیا ہے۔ انہیں اپنا وقت یاد نہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیا تو میری ملاقات میرے خاندان والوں سے کروائی گئی۔ سرگودھا میں میری ملاقات کروائی گئی مجھے بی کلاس دی گئی اور مجھے کھانا کھلایا گیا۔ سیشن جج اب اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ میں نے کسی سے نہیں کہا کہ مجھ پر تشدد کیا گیا۔ مجھے ایک نئی زندگی ملی ہے۔ ملک ایک پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے۔ میں نے جاگیرداروں کے خلاف مہم کا آغاز کیا ہے میں لڑتا رہوں گا۔ میری پارٹی عمران خان کی پارٹی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑے گی۔ ملک محمد احمد خان ترجمان پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ جمشید دستی جو بات کر رہے ہیں تمام ریکارڈ اس کے برخلاف ہیں۔ آئی جی جیل خانہ جات لاءمنسٹر، ہائی کورٹ نے بھی تحقیقات کروائی ہیں اور رپورٹ مرتب کی گئی ہے اس رپورٹ میں کوئی تشدد یا مس ٹریٹمنٹ کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ جیل حکام نے واضح بتایا ہے کہ انہیں وقت پر کھانا مہیا کیا گیا، قانون کے مطابق انہیں تمام چیزیں مہیا کی گئیں۔ جمشید دستی اس رپورٹ کو چیلنج کر دیں۔ بابر اعوان صاحب اب ملتان پہنچے ہیں اور اس کا کیس لڑیں گے۔ جمشید دستی کا بیان ایک شخصی بیان ہے۔ وہ رکن قومی اسمبلی ہیں۔ ہم ان کا احترم کرتے ہیں ڈاکٹروں کی جس ٹیم نے جیل میں ان کا معائنہ کیا وہ حکومت پنجاب کے ملازم ضرور تھے لیکن ایک انسان اور ڈاکٹر بھی تھے۔ وہ کسی قسم کا جھوٹ تو رپورٹ میں درج نہیں کر سکتے تھے۔ وہ ایک سیاسی شخص ہیں۔ شاید وہ اپنی سیاست چمکانا چاہتے ہیں۔ پنجاب حکومت ان کے لگائے جانے والے الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ وہ من گھڑت اور جھوٹے الزام لگا رہے ہیں۔ ان پر جو مقدمات درج ہیں ان کے تمام تر ثبوت موجود ہیں۔ معاملہ عدالت میں ہے وہ وہاں جائیں اور اپنا موقف بیان کریں۔ جو مقدمات ان پر بنتے تھے وہی درج کروائے گئے ہیں۔ تجزیہ کار مکرم خان نے کہا ہے کہ جمشید دستی کو کون نہیں جانتا۔ ان کے خاندان ان کے بھائیوں کے بارے میں ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ پہلے ناظم بنے پھر ایم این اے بنے جس طرح انہوں نے یہاں تک کا سفر طے کیا یہ سب جانتے ہیں۔ اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے۔ جو تاریخ کا حصہ ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ چھ دن کوئی شخص بھوکا، زندہ رہ سکے۔ انہیں زہریلا پانی پلایا جائے تو وہ زندہ کس طرح ہیں۔ جمشید دستی پارلیمنٹ میں سیٹیاں بجاتے رہے۔ صدر مملکت کی تقریر کے دوران انہوں نے کاپیاں پھاڑیں اور وزیراعظم کی طرف اچھالیں۔ گیلری میں موجود تمام افراد نے کہا کہ جمشید دستی کا رویہ انتہائی گھٹیا تھا۔ جمشید دستی پر پہلا مقدمہ 1993ءمیں دفعہ 379/441 کے تحت 152/93 مظفر گڑھ میں درج ہوا۔ 21 واں مقدمہ 2014ءمیں ان کے خلاف درج ہوا درمیان میں ن لیگ کی حکومت نہیں تھی۔ لیکن ان پر درجنوں مقدمات درج ہوئے۔ کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارتی حکمرانوں کا ہمارے حکمرانوں سے بلاواسطہ اور بلواسطہ رابطہ ہے۔ حکمرانوں نے اگست تک اس معاملے کو لٹکانا ہے۔ اِس دوران پاکستان کے حکام سے انہوہں نے اس تک کونصل رسائی مانگی ہے۔ پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے حکومت پھر کہے گی کہ ہم نے انکار کر دیا۔ بھارتی تاجر ہمارے وزیراعظم کے پاس آتا ہے پیغام لے کر آتا ہے اور پیغام لے کر جاتا ہے۔ حکومت پاکستان کا موقف اور ہے اور ہمارے اہم ادارے کا موقف اور ہے۔ اور افواج پاکستان کا موقف اور ہے۔ کلبھوشن کا معاملہ اگست ستمبر تک کھینچ کر اس لئے لے جائیں گے کہ بین الاقوامی عدالت نے وہ وقت دیا ہے اور حکومت اس معاملے کو مارچ تک کھینچ کر لے جانا چاہتی ہے تا کہ سینٹ کے الیکشن آ جائیں۔ دوسری جانب ہمارے ایک کرنل صاحب جو یہاں سے اغوا کئے گئے، اس وقت بھارت کی قید میں ہیں۔ اور ان کے متعلق سودا ہو رہا ہے۔ وہ کرنل (ر) را کی قید میں ہے۔ اس سے فوجی موقف پر فرق تو پڑے گا۔ مجھے ایک ذمہ دار شخص نے بتایا ہے کہ کلبھوشن اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا۔ کچھ انتظار تو کرنا پڑے گا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv