ریاض، دوحہ (مانیٹرنگ ڈیسک، ایجنسیاں) سعودی عرب کے مرکزی بینک نے قطری بینکوں کیساتھ کسی بھی قسم کے ریال میں دین لین ممنوع قرار دے دیا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب کے سرکاری مالیاتی ادارےساما نے ملک کے بینکوں کو ہدایات جاری کیں ہیں کہ وہ قطر کے بینکوں کیساتھ ریال میں لین دین بند کردیں، ساما کے قطر کیساتھ ریال میں لین پر بندش کیساتھ ہی مسلسل دوسرے امریکی ڈالر کے مقابلے میں قطری ریال کیساتھ مستقبل کی تجارت نیچے آگئی ہے جبکہ سپاٹ مارکیٹ میں بھی ڈالر کی بولی 3.647قطری ریال رہی،اس کی وجہ سعودی عرب اور امارات کی جانب سے تعلقات منقطع کرنے کے بعد قطر کی معیشت پر ممکنہ طویل المیعاد اثرات کا اندیشہ ہے۔برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق یہ جون 2016 کے بعد دیکھی جانے والی نچلی ترین سطح ہے۔ مرکزی بینک نے ڈالر کے مقابل 3.64 قطری ریال کا بھا رکھا ہوا ہے اور اس سطح کے نزدیک محدود کمی بیشی کی اجازت ہے۔ ڈالر مقابل قطری ریال ایک سال مدت کے مستقبل کے سودے 275 پوائنٹس کی کم تر سطح پر ہوئے جبکہ پیر کے روز مارکیٹ بند ہونے پر یہ سطح 250 پوائنٹس رہی۔ واضح رہے کہ سفارتی بحران سے قبل ان سودوں کی سطح 180 بی پی ایس کے قریب تھی۔یہ صورت حال موڈیز ایجنسی کی جانب سے قطر کی کریڈٹ ریٹنگAA3 سے کم کر کے AA2 کیے جانے کے چند روز بعد سامنے آئی ہے۔دبئی میں موڈیز ایجنسی کے تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ “صورت حال حد درجہ غیر واضح ہے۔ قطر اور خلیج تعاون کونسل کے دیگر ممالک کے درمیان اس اختلاف کے حل کے امکان کے حوالے سے کوئی ٹھوس امر سامنے نہیں ہے۔ قطر میں سینکڑوں پاکستانی پھنس گئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے وزیرمملکت انور قرقاش نے کہا ہے کہ برادر اسلامی ملک سے تعلقات کا خاتمہ ہمارے لئے بہت تکلیف دہ ہے، ہم نے قطر کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے بہت کوشش کی لیکن سالوں کی محنت پر پانی پھر گیا ہے۔ہم نے شاہ سلمان کا ساتھ دے کر سچائی ، شفافیت، استحکام،ترقی اور جدید یت کا انتحاب کیا ہے۔ سوشل میڈیا سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹس کے ذریعے متحدہ عرب امارات کے وزیرمملکت انور قرقاش نے قطر سے تعلقات کی بحالی کیلئے واضح اور ضمانت شدہ لائحہ عمل کا مطالبہ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قطر کوعرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی پرغور کر نے سے پہلے ایک واضح لائحہ عمل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی ٹوئٹس میں انہوں نے قطرپر دہشتگردوںکو فنڈنگ کا الزام بھی عائد کیا۔یہ خود مختاری اور آزادی کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ یہ اس پالیسی کی تردید ہے جو خلیجی ممالک کو تباہی کے دھانے کی جانب دھکیل رہی ہے۔قطر یہ سمجھتا ہے کہ میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے وہ اپنی بالادستی قائم کر سکتا ہے حالانکہ بالادستی کے لئے خلیجی ممالک میں امن و امان کا فروغ نہایت ضروری ہے۔ قطر نے سعودی عرب اور مصر سمیت چھ عرب ممالک کی جانب سے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے اعلان کے بعد سفارتی تنازع کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات پر زور دیا ہے۔قطر کے وزیرِ خارجہ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ تمام ممالک کو بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات دور کرنے چاہئیں۔الجزیرہ ٹی وی نے قطری وزیرِ خارجہ سے اس بحران کی وجوہات کے بارے میں سوال پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم قطر کے خلاف پیدا ہونے والے حیران کن تنازعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم اس بحران کے حقیقی وجوہات کے بارے میں نہیں جانتے۔محمد بن عبدالرحمان الثانی کے مطابق اگر اس بحران کے پیچھے اصل وجوہات تھیں تو ان پر گذشتہ ہفتے جی سی سی کے ہونے والے اجلاس میں بات چیت یا بحث کی جا سکتی تھی تاہم اس اجلاس میں اس بارے میں کوئی بات چیت یا بحث نہیں کی گئی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاض میں ہونے والے امریکی اسلامی عرب سمٹ میں بھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا۔ ان اجلاسوں میں ایسا کچھ بھی تھا تو ہمارے پاس اس بحران کے پیدا ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔الجزیرہ کے اس سوال پر کہ اس بحران کے بعد قطر کے امیر شیخ تمیم رات خطاب کرنے والے تھے تاہم ان کا خطاب ملتوی کیوں کر دیا گیا کے جواب میں شیخ محمد کا کہنا تھا کہ قطر کے امیر قطر کے لوگوں سے خطاب کرنا چاہتے تھے لیکن انھیں کویت کے امیر نے فون کر کے اس بحران کو حل کرنے کے لیے اس خطاب کو ملتوی کرنے کا کہا۔ کویت کے امیر الشیخ صباح الاحمد الجابر الصباح نے امیر کویت الشیخ تمیم بن حمد آل ثانی پر زور دیا ہے کہ وہ پڑوسی ملکوں کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کے بجائے موجودہ بحران پر قابو پانے کیلئے موثر اقدامات کرے۔ عالم اسلام کی نمائندہ ’اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے قطر پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پڑوسیوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔