لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نوازشریف کے حوالے سے پروگراموں میں کہہ چکے ہیں۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد زیادہ کھلی انڈین لائن لینے لگے ہیں۔ اسد درانی کی کتاب سے پہلے جو ایک بھرپور انداز میں وہ سرل المیڈا کو انٹرویو دے چکے ہیں جس طرح سے اس انٹرویو کو انڈین ٹی وی چینلز نے لیا۔ میرے پاس 5 انڈین ٹی وی کے کلپس ہیں ان میں سے 3,2 کا تو ہیڈ لائن ہی یہ ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم نے اعتراف کر لیا کہ ہم انڈیا میں دہشتگردی کے لئے لوگ بھیجتے تھے ممبئی حملے کے سلسلے میں آج جو نظر آ رہا ہے پاکستان کے سوچنے، سمجھنے والے لوگوں کو دیکھنا چاہئے میں نے کبھی شہباز شریف صاحب کی بات نہیں کی شہباز شریف صاحب نے نہ کبھی عدلیہ کو بُرا بھلا کہا نہ فوج پر تبرّے بازی کی اور نہ ہی ان معاملات میں شامل ہوئے لیکن نوازشریف نے اگرچہ وہ ان کے بڑے بھائی ہیں شاید طے کر لیا ہوا ہے کہ وہ آج کے جس طرح انہوں نے اس درانی جو نیشنل سکیورٹی کمیٹی ہے وہ تو اس کی مذمت کر رہی ہے اور آج وزیراعظم کی زیر صدارت میں انہوں نے جنرل (ر) اسد درانی کا ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی ہے دوسری طرف جی ایچ کیو میں ان سے پوچھ گچھ شروع ہو چکی ہے۔ تیسری طرف آج نوازشریف نے بڑا کھل کر جنرل اسد درانی کی حمایت کی ہے یہ پہلی آواز ہے جو اسد درانی کی حمایت میں آئی ہے کسی بڑے آدمی کی طرف سے۔ حمایت میں انہوں نے کہا ہے کہ جنرل اسد درانی نے جو باتیں کی ہیں وہ بڑی اہم ہیں۔ یہ نہیں کہا کہ غلط ہیں۔ یہ کہا کہ صرف ان سے پوچھ گچھ کرنے کا فائدہ جنرل درانی کے بارے میں سافٹ کارنر دیتے ہوئے اچانک نوازشریف نے یہ کہا ہے کہ قومی کمیشن بنایا جائے جو اس پورے نیٹ ورک کا جائزہ لے۔ جو لوگ جانتے ہیں کہ ان کی مراد کیا ہے ان کی مراد یہ ہے کہ جب پرویز مشرف کے دور میں کارگل میں لڑائی ہوئی اور کارگل کا وینچر سمجھا جاتا تھا کہ یہ ان کا ذاتی اور کچھ دوستوں کا وینچر ہے تو نوازشریف نے سعودی عرب سے واپسی پر سیاست میں واپس آنے کے بعد لندن سے واپس آنے کے بعد سب سے اس پر احتجاج کیا کہ کارگل کے مسئلے پر تحقیقات کروائی جائے یہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے کی سازش تھی۔ جنرل (ر) نعیم لودھی نے کہا کہ شاید آپ میری بات پر حیران ہوں کہ میں خود اس چیز کا حامی ہوں کہ ایسے نیٹ ورک کو پکڑا جائے جو پاکستان کے خلاف باہر کی طاقتوں سے مل کر پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ نوازشریف کہے یا کوئی اور کہے میرا خیال ہے کہ عوام اتنے پاگل نہیں ہیں کہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وہ کون سے نیٹ ورک ہیں جو پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کون سی وہ نیٹ ورک ہیں جو انسٹی ٹیوشنز کے نیچے سے زمین کھودنا چاہ رہے ہیں جو اس ملک کی حفاظت کر رہے ہیں صبح شام اپنا لہو بہا رہے ہیں اس ملک کی حفاظت کے لئے۔ تو میں تو سمجھتا ہوں کہ نواز شریف صاحب کی یہ بات فوراً مان لینی چاہئے اور ایک قومی کمیشن بنا لینا چاہئے جو یہ پتہ کرے کہ کون لوگ ہیں جو واقعی پاکستان کی مسلح افواج، پاکستان کی جوڈیشری، پاکستان کے انسٹی ٹیوشنز کے خلاف کام کر رہے ہیں مجھے تو اس بات کی بہت خوشی ہو گی۔ ضیا شاہد نے کہا کہ جہاں تک میری معلومات یا مشاہدے کا تعلق ہے وہ ہر گز قومی کمیشن اس مقصد کے لئے نہیں بنانا چاہتے جس کی طرف اشارہ کیا وہ تو خود سب سے بڑا، میرے پاس 5 انڈین ٹی وی چینلز کے کلپس جو سرل کے ڈان میں ان کے انٹرویو کے بعد آئے تھے۔ ان میں سے 3 ٹی وی چینلز کے پروگرام اور ان کی نیوز کا پہلا جملہ یہ ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم نوازشریف نے اعتراف کر لیا کہ ہم انڈیا کی سرزمین پر ممبئی حملوں میں پاکستان سے لوگ گئے تھے۔اور انہوں نے یہ حرکت کی تھی۔ اس بیانیہ کے بارے میں یہ خبریں بھی آئیں کانگرس کے ارکان کو نوازشریف کے اس انٹرویو کو ثبوت کے طور پر بھیجا گیا اور ان میں تقسیم کیا گیا۔ ان کے خیال میں نیٹ ورک کا، یہ چھان بین کا مطلب یہ نہیں ہے جو آپ فرما رہے ہیں۔ بلکہ ان کا مطلب وہی ہے جو انہوں نے سیاست میں سعودی عرب اور لندن سے واپسی کے بعد کہا تھا کہ یہ کارگل سازش تھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات خراب کرانے کی اور یہ پرویز مشرف نے جو حرکت کی اس کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئے۔
جنرل نعیم لودھی نے کہا میں آپ کی بات تو سمجھ گیا۔ میں نے جان بوجھ کر کہا تھا کہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ اور کون سے نیٹ ورک یہاں چل رہے ہیں۔ شاید وہ لوگ جو یہ بیانیہ دے رہے ہیں وہ یہ بات بھول گئے کہ بھارت کے اپنے لوگوں نے بھارت کے آئی جی نے کتاب لکھی ہے جس میں یہ حملہ کیسا ڈرامہ بنایا گیا۔ ایک نیوٹرل جرمن نے کتاب لکھی ہے جس میں تمام ثبوت بھی ساتھ بھی اٹیچ کر دیئے ہیں اور بتا دیا کہ یہ حملہ کیسے اور کہاں پلان کیا گیا اس نے ثابت کر دیا کہ بھارت کا اپنا کیا ہوا کام تھا۔ ہمارے وہ انٹلیکچوئل جو دشمن کی بات پر یقین کرتے ہیں اور غیر جانبدارانہ بات پر یقین نہیں کرتے۔ اپنے لوگوں پر یقین نہیں کرتے ان پر مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے میرا خیال ہے یہ باتیں جتنی مرضی کر لیں جو دنیا کہہ رہی ہے جو نیوٹرل لوگ کچھ ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ جو امریکہ کہے گا وہ تو واضح ہے وہ تو ہمیشہ مخالفت کرے گا بھارت کی حکومت ہمیشہ مخالفت کرے گی۔ہندوستان کے اپنے لوگ باتیں کر رہے ہیں۔ یہ ساری چیزیں واضح ہیں یہ تو ویسے ہی ایک واویلا میرے خیال میں اس پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
شہباز شریف مسلم لیگ ن کے صدر ہیں اس وقت ملک کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی صاحب ہیں۔ ان دونوں اصحاب کا نقطہ نظر بڑا دلچسپ ہے عجیب گورکھ دھندا ہے کہ نوازشریف صاحب کو دونوں رہنماﺅں کو بھی قرار دیتے ہیں لیکن شہباز شریف صاحب وقتاً فوقتاً فوج کے خلاف دشنام طرازی کی مذمت بھی کر دیتے ہیں عدلیہ کی حمایت بھی کر دیتے ہیں حتیٰ کہ انہوں نے نیب کے بارے میں بھی کہا کہ بڑا اچھا کام کر رہی ہے دوسری طرف شاہد خاقان عباسی قومی سلامتی کمیٹی کی صدارت کر رہے ہوتے ہیں بطور وزیراعظم جس میں جنرل اسد درانی کے خلاف کارروائی ہوتی ہے اور نام ای سی ایل میں جاتا ہے جس پر انکوائری کا حکم ہوتا ہے۔ دوسری طرف ان کے قائد مسلسل بھارت کی لائن لے رہے ہیں۔ ججوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں فوج کو صلواتیں سنا رہے ہوتے ہیں ان کی بیٹی تو خلائی مخلوق ہماری پارٹی میں سے لوگ توڑ کر فلاں پارٹی میں جمع کروا رہی ہے۔ پاکستان کے عوام کو اس گورکھ دھندے میں پتہ ہی نہیں چل رہا کون کیا کہہ رہا ہے کیا اب پنجاب میں فضا بدل گئی ہے اب واقعی پنجاب میں کبھی پرو انڈیا فیلنگ نہیں مقبول ہوئی۔ اب ایک پرو انڈین ایک لائن لینے والا نقطہ نظر رکھنے والا لیڈر محمد نوازشریف وہ بڑے جلسے بھی کر رہا ہے کہ ووٹر ہمارے ساتھ ہے۔ اس لئے جن پانچ ججوں نے مجھے سزا دی تھی ان کو کٹہرے میں بھی لائیں گے۔ اس صورت حال میں آرمی ایک ادارہ ہے جواب نہیں دے سکتی پاکستان کی سکیورٹی کے سلسلے میں کیا پاکستان کی آرمی چپ کر کے بیٹھی رہے گی۔
جنرل (ر) نعیم لودھی نے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ مجھے سیاست کو زیادہ نہیں جانتا لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ ن لیگ بڑی قومی جماعت ہے اور مجھے یوں لگ رہا ہے کہ اس کے اندر زیادہ ذہین لوگ زیادہ محب وطن لوگ ہیں وہ اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ یہ بیانیہ کتنا خطرناک ہے یہ تو یوں ہے کہ آپ اگلے انتخابات میں اس ایجنڈے پر جا رہے ہوںکہ اگر آپ فوج کے خلاف ہیں تو مجھے ووٹ دیں فوج کے خلاف نہیں ہیں تو کسی اور کو ووٹ دیں۔ میرا خیال ہے ن لیگ کا بہت بڑا حصہ ان سے اپنے آپ کو الگ کر لے گا یا ان کو الگ کر دے گا۔ اور جب ن لیگ انتخابات میں جائے گی تو یہ بیانیہ مٹ چکا ہو گا یا بہت دھیما پڑ چکا ہو گا۔ یہ ایک لائن ڈرا کر دی گئی ہے کہ میں جوڈیشری اور فوج کو سیدھا کر دوں گا۔ لوگوں کے ووٹ کی توقیر بھی ہونی چاہئے اور قانون کو بھی اپنا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
ممبر قومی اسمبلی جمشید دستی نے کہا ہے کہ ضیا شاہد کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے پانی کا ایشو اٹھایا، خوفناک صورتحال سے قوم کو بھی آگاہ کیا اور حکمرانوں کو بھی شرم دلوائی مگر بدقسمتی سے قوم بے چاری بے بس و تقسیم ہے، علاقہ پرستی میں ڈاکوﺅں کی غلام بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ آیا تو صوبوں نے بدمعاشی کر لی، سارا تخت لاہور، کراچی، پشاور و کوئٹہ میں چلا گیا، ہمارا حصہ پنجاب میں ہے۔ جنوبی پنجاب میں نہروں میں پانی کی بندش کے باعث آم و گنا کی فصلیں تباہ ہو گئیں، پینے کے لئے پانی نہیں ہے۔ پانی کی کمی نہیں ہے۔ سندھ کا پانی 60 ہزار کیوسک جا رہا ہے۔ 2016ءمیں 21 ہزار کیوسک پانی سمندر میں ضائع ہوا ہے، کالا باغ ڈیم بنتا تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔ ڈیم کسی نے نہیں بنائے اس پر سیاست چل رہی ہے۔ آج دھرنا دیئے بیٹھے ہیں کیونکہ لوگ پریشان ہیں، کسانوں کی آنکھوں میں کون ہے ان کے جانور مر گئے، پانی نہیں دیا جا رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 70 گھنٹے پہلے ان کو نوٹس دیا، چیف سیکرٹری سمیت تمام افسران خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔ مجبور ہو کر دھرنا دیا میرے لوگ مر رہے ہیں، اپنا حق لے کر رہوں گا۔ چینل ۵ کے توسط سے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ جنوبی پنجاب میں بچے مر رہے ہیں۔ افسوسناک صورتحال ہے ہمیں پانی دلوار کر انصاف دیں۔ جنوبی پنجاب کے وزراءتخت لاہور کے چپڑاسی ہیں۔ ان میں اخلاقی جرا¿ت نہیں، بزدل، نالائق و کرپٹ ہیں۔ اسمبلی میں بات ہوتی تو نون لیگ نے کالا باغ ڈیم کی بات کی تھی اب چپ ہیں تو کہتے ہیں کہ زرداری ناراض ہوتا ہے۔ اچکزئی، بانی متحدہ و نواز شریف کا ایجنڈا ملک دشمن ہے۔ غداروں نے پانی، دریا دشمنوں کو فروخت کر دیئے جو ہمارے جوانوں و بچوں کو شہید کر رہے ہیں۔ یہ ان سے دوستیاں بڑھا رہے ہیں۔ جنرل (ر) اسد درانی نواز شریف اتنے بڑے ذمہ دار جرم کرتے ہیں ان کے لئے کوئی قانون ہے؟ ان کو پکڑو اور پھانسی چڑھا دو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی بھی اسمبلیوں میں 90 فیصد پاکستان دشمن بیٹھے ہیں، کوئی جمہوریت نہیں، ملک مالی دہشتگردوں کے قبضے میں ہے اور یہ پاکستان دشمن ہیں۔ ان کے لئے قوم کو جگا رہے ہیں۔ میں نے پہلے دن کالاباغ ڈیم کی قرارداد دی تھی، زرداری نے مجھے شوکاز دیدیا۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا ہے کہ 8 اضلاع اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی زیر سماعت ہیں۔ حلقہ بندیوں کے حوالے سے سنجیدہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں میں رول کی خلاف ورزی کی۔ رول و ایکٹ میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے آبادی کے تناسب سے جو رول میں ذکر کیا تھا اسے نظر انداز کر دیا۔ جب یہ سپریم کورٹ تک بات گئی تو قومی اسمبلی میں ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی کہ حلقہ بندیاں غلط ہو گئی ہیں۔ دانیال عزیز حلقہ بندیوں میں ماہر ہیں، انہوں نے چیلنج کیا کہ الیکشن کمیشن نے رول کی خلاف ورزی کی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان کی باتوں کو نظر انداز کیا، اجلاس میں بھی نہیں گئے اور کہا کہ آپ ہمارے اختیارات کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اس بنیاد پر حلقہ بندیاں ہو گئیں اور پھر چیلنج ہو گئیں۔ حلقہ بندیوں کے بنیادی سٹرکچر پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 15 مارچ 1968ءمیں اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر نے حلقہ بندیوں کے بارے میں جو اصول وضع کئے تھے وہ میں نے چیف الیکشن کمیشن کو بھجوائے۔ اب یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہو چکا ہے اگر الیکشن کمیشن اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر عدالت کو مطمئن نہ کر سکا تو معاملہ سپریم کورٹ میں چلا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو عام انتخابات 3,2 مہینوں کے لئے موخر ہو سکتے ہیں۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں ملتان میاں غفار نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب میں پانی کی کمی کی وجہ سے 7 لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس کی کاشت نہیں ہو سکی۔ اس وقت ہیڈ بلوکی، ہیڈ اسلام و ہیڈ سلیمانکی بالکل زیرو ہیں۔ بھارت کی جانب سے دریائے چناب میں پانی بہت کم چھوڑا جا رہا ہے جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں نہریں بند ہیں۔ جو نہریں 15 اپریل کو کھل جانی چاہئے تھیں وہ تاحال نہیں کھل سکیں۔