نئی دہلی، ممبئی، بنگلور، بہار، میرٹھ، بجنور (مانیٹرنگ ڈیسک+ نیوز ایجنسیاں) بھارت بھر میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہا ، بھارتی حکومت نے توڑ پھوڑ کا الزام لگا کر مظاہرین کی پراپرٹیز ضبط کرنا شروع کر دیں۔پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے دوران ہلاکتیں 26ہو گئیں جبکہ سینکڑوں زخمی ہو چکے اور سینکڑوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مظفر نگر میں 50 دکانیں سیل کر دی گئیں جن کے مالکان پر بھارتی حکام کی جانب سے مظاہروں کے دوران توڑ پھوڑ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مظاہروں میں شدت آ گئی ، اتر پردیش میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں 2 ہفتوں کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 26 ہوگئی۔بھارت میں متنازع بل پر ریاست بہار کے مختلف شہروں میں مظاہرے جاری ہیں، پٹنہ میں مظاہرے کے دوران کارکنوں نے رکاوٹیں توڑ ڈالیں، وشالی میں ہائی وے بلاک کر دی، ٹائر جلائے، دربھنگا میں مظاہرین نے ریلوے لائن پر قبضہ کر لیا، ریاست کرناٹک کے شہر مینگلور میں کرفیو نافذ ہے۔ریاست اتر پردیش میں صورتِ حال کشیدہ ہے، اسکول اور کالج بھی بند رہے ، جب کہ بیشتر حساس اضلاع میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل رہی ۔نئی دہلی کی جامع مسجد کے باہر بڑا مظاہرہ ہوا، دلی کے 7 میٹرو اسٹیشن بند کر دیئے گئے، پولیس نے ڈرونز کی مدد سے مظاہروں کی نگرانی کی۔مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں جن میں کئی مظاہرین زخمی ہو گئے، کولکتہ، چنائے، لکھنو، پٹنہ، ممبئی سمیت مختلف شہروں میں پولیس کی بھاری تعداد بھی احتجاج نہ روک پائی۔متنازع شہریت بل پر احتجاج کے دوران میرٹھ میں3، بجنور میں 2، ورانسی، فیروز آباد، کان پور اور سنبھل میں 4 افراد کو گولی مار دی گئی، لکھنو میں ایک شخص اور مینگلور میں 2 افراد گولی لگنے سے ہلاک ہوئے، آسام میں 5 افراد کو ہلاک کر دیا گیا ۔دوسری جانب ایک طالبہ کا کہنا ہے کہ انہیں آزاد بھارت چاہیے، مودی ملک کا مستقبل نہیں، ملک کا مستقبل طلبہ ہیں، وہ فیصلہ کر یں گے کہ ملک کو کیسا ہونا چاہئے۔ادھر بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج میں شدت سے پریشان مودی حکومت نے بھارتی ٹی وی چینلز کو مظاہروں کی کوریج سے روکنے کے لیے ایڈوائزری جاری کر دی ۔انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ منسٹری نے ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے ٹی وی چینلز کو ہدایت کی ہے کہ وہ کسی بھی ایسے مواد کو دکھانے سے پرہیز کریں جس سے تشددکو ہوا ملے گی۔ بھارتی شہریت ترمیمی قانون پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان کے غیر مسلم تارکینِ وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جبکہ مسلمان اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیر قانونی تارکینِ وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا گیا ۔اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلا دیش، افغانستان سے بھارت آنے والے ہندوﺅں، سکھوں، بدھ مت، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو یہ شہریت نہیں ملے گی۔ آل آسام اسٹوڈنٹ یونین کے سموجل بھٹا چاریہ نے رائٹرز کو بتایا کہ آسام بھر میں ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں خواتین بھی حصہ لے رہی ہیں۔ قانون کے خلاف شروع ہونے والی تحریک دن بہ دن زور پکڑ رہی ہے۔بھارت میں کئی حلقے شہریت کے اس متنازعہ قانون کو مسلمانوں کے خلاف نسلی امتیاز قرار دے رہے ہیں۔ اپنی سیکیولر اقدار پر فخر کرنے والے ملک بھارت میں اس قانون کے تحت شہریت کے حصول کو مذہب سے جوڑا گیا ہے۔خبر رساں ادارے ”الجزیرہ“ کے مطابق حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی ایسے بیانات دے رہے ہیں جس سے عوام مزید مشتعل ہو رہی ہے جبکہ کچھ اتحادی جماعتیں یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ کالا قانون منظور کرنا غیر مناسب ہے۔خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت میں شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مظاہرے فرقہ واریت والے نہیں ، ان مظاہروں میں مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے تمام طبقہ ہائے احتجاج کے لیے آ رہے ہیں۔بھارت مظفرنگرمیں مسلمانوں پرقیامت طاری،لوٹ مارقتل وغارت گری شروع ہوگئی ہے اوراطلاعات کے مطابق اس وقت رات کے سخت اندھیروں اوردسمبرکی ٹھنڈی راتوں میں مسلمان خوف کے مارے ادھرادھربھاگ رہے ہیں اوران کو کوئی چھڑانے والا نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت صورت اس قدر خراب ہے کہ آر ایس ایس کے غنڈے گروہ درگروہ مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ رہے ہیں جس طرح بھوکا شیرکسی شکارپرلپکتا ہے،مسلمان خاندان جان بچانے کی خاطر ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اس علاقے میں مسلمانوں کی جائیداداملاک کو جلایا جارہاہے،اوریہ بھی اطلاعات ہیں کہ کاروں ،بسوں اوردوسری گاڑیوں کو جلایا جارہاہے اورہرطرف غدرمچا ہوا ہے ،مظفر نگر سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کہ 2002 میں گجرات میں ہونے سانحات کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ مسلمان سخت خوف کی وجہ سے ادھر ادھر چھپنے کی کوشش کررہے ہیں۔