لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) بستی رانا اقبال چیچہ وطنی میں ڈاکٹر علی فہیم اور ڈسپنسر زبیر چشتی کی طرف سے ہراساں کرنے پر بنیادی مرکز صحت کی لیڈی ہیلتھ وزیٹر رانی منظور کا اقدام خود کشی، خبریں کی خبر پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کا ایکشن متاثرہ ،خاتون ہسپتال منتقل اہل علاقہ کا خبریں اور ڈی پی او کو خراج تحسین۔ دونوں نظور کو جنسی تعلق پر مجبور کرتے تھے۔ خاتون کی شکایت پرخبریں ٹیم علاقہ میں پہنچ گئی خاتون کے مطابق ایس ایچ او عمران بھٹی نے ان کی بات نہ سنی۔ ڈاکٹر تنویر شاہ خاتون کو درخواست واپس لینے پر مجبور کرتا رہا۔ سینئر صحافی ضیا شاہد نے بتایا کہ جنسی ہراسانی کے کیسز کی تعداد اخباروں کی خبروں سے واضح ہیں۔ معاشرے کا ضمیر اتنا مردہ ہو گیا ہے بجائے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے کے انہیں صلح صفائی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ چینل ۵کے پروگرام ہیومین رائٹس واچ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز 90 فیصد سامنے نہیں آتے لوگ عزت کے خوف سے خاموش رہتے ہیں بڑے بھی کہتے ہیں اب چپ رہو جو ہونا تھا ہو گیا بچیوں کو بہت تنگ کیا جاتا ہے۔ جو کیسز سامنے آتے ہیں ان پر سخت ایکشن ہونا چاہئے متاثرہ لڑکی پر دباﺅ نہیں ڈالنا چاہئے۔ معاشرے کا بڑا مسئلہ غربت اور جہالت ہے لوگوں کے لئے دال روٹی چلانا مشکل ہے کالے کوٹ والوں کی فیسیں کہاں سے دیں۔ فری کیس لڑنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا وکلا بارے ہمیشہ مجھے شکایت رہی وہ کمیٹی بنائیں ضروری نہیں سب فیس دے سکیں۔وکلاءکی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو مقدمات میں مصروف رہتے ہیں جو مصروف نہیں دنگا فساد کرتے ہیں انسانیت کے نام پر دس میں سے کم سے کم ایک کیس فری لڑیں اس سے معاشرے کی اصلاح ہو۔ ہم خود سو میں سے پانچ کیسز کی ہی پیروی کر سکے ہم اپنے وسائل سے وکیل تلاش کرتے ہیں اگر کسی کو انصاف نہیں ملتا اس کی بڑی وجہ وکلاءہی ہیں۔موجودہ کیس کی پیروی بہت ضروری ہے خاتون کا فون لیں بات کریں بیرسٹر صاحبہ کچھ کیسز فری بھی لڑیں انسانی حقوق کے لئے خدمات عزت و وقار کے لئے ہو گا۔ سنا ہے وکلاءکا ایک گروہ ڈاکٹر سے ملا ہے وکیل ہی ملے ہوں تو کیا انصاف ہو گا۔ یہ پانچواں کیس ہے وکلاءکا وزن ظالم کے پلڑے میں ہوتا ہے۔ محتسب ادارے موجود ہیں ۔خبریں میں خبر شائع ہوئی لیکن لاہور میں بیٹھی خاتون محتسب یا اسلام آباد میں کشمالہ طارق نے نوٹس نہیں لیا۔ایسا کیس بنایا جائے کہ کشمالہ طارق کو بھی پارٹی بنایا جائے خواتین محتسب کس چیز کی تنخوا ہ لیتی ہیں ان کی سیلری رکنی چاہئے۔ سفارش یا پیسے یا پھر اثرو رسوخ کے سبب ڈاکٹر فہیم رہا ہو گیا خاتون تاحال مصیبت میں ہے ۔پتہ کیا جائے ڈاکٹر کیوں چھوٹ گیا صرف ذکر کرنے سے کیس حل نہیں ہو گا ٹھوس اقدامات کرنا پڑیں گے۔فارسی میں کہتے ہیں نشستاً گفتناً براخستاً یہ نہیں ہونا چاہئے۔بیرسٹر رمشا نے کہا کہ انسان کے بہت حقوق ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں یہ لوگوں کو نہیں پتہ۔ چھوٹے بچوں کی تربیت کرنی چاہئے کہ کسی چیز پر پردہ مت ڈالیں۔ قانون کے مطابق کسی کوہراساں کرنے کی سزا بڑی سخت ہے لوگوں کو سٹینڈ لینے کی ضرورت ہے۔اسلام میں عورت کو بہت تحفظ دیا گیا ہے۔میری لاءفرم بہت سے کیسز فری لڑتی ہے صرف پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا۔