سری نگر (ویب ڈیسک)پاکستان بھر میں آج سرکاری سطح پر انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں بسنے والوں سے اظہار یکجہتی کا دن منایا جا رہا ہے۔حکومت کی جانب سے اس دن کو منانے کے لیے ترتیب دیے گئے پروگرام میں کہا گیا ہے کہ ملک کے تمام ٹی وی، ریڈیو اور ایف ایم سٹیشنز سے آج کے دن نہ صرف پاکستان کا قومی ترانہ بلکہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے قومی ترانے کو بھی نشر کیا جائے گا۔پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کا قومی ترانہ ملک بھر میں 12 بج کر تین منٹ پر نشر کیا جائے گا۔پاکستان کے قومی ترانے پر تحقیق کرنے والے محقق عقیل عباس جعفری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دراصل پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کا قومی ترانہ ایک نظم ہے جسے سنہ 1949 میں حفیظ جالندھری نے تحریر کیا تھا اور سنہ 1958 میں اسے پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں ریکارڈ کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ریڈیو پاکستان راولپنڈی سٹیشن پر اس نظم کو سب سے پہلے منور سلطانہ اور عنیقہ بانو نے گایا تھا۔حفیظ جالندھری کی سنہ 1949 میں لکھی گئی نظم کو سنہ 1972 میں کشمیر کے قومی ترانے کا درجہ دیا گیا۔ جالندھری پاکستان کے قومی ترانے کے خالق بھی ہیںعقیل عباس جعفری کے مطابق حفیظ جالندھری کی اس نظم کو سنہ 1972 میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے قومی ترانے کا درجہ دیا گیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس نظم کو قومی ترانے کا درجہ دینے سے قبل اس میں ایک آدھ مصرعہ بھی بدلا گیا۔ حفیظ صاحب کی نظم میں مصرعہ تھا ’جاگ اٹھے گی ساری وادی‘ جس کو دوبارہ ترتیب دے کر ’جاگ اٹھی ہے ساری وادی‘ لکھا گیا۔عقیل عباس جعفری کے مطابق اس نظم میں ’آزاد کشمیر‘ سے مراد صرف پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر نہیں بلکہ متحدہ کشمیر (پاکستان اور انڈیا دونوں کے زیر انتظام منقسم کشمیر) تھا۔انھوں نے بتایا کہ اس کی موسیقی عنایت شاہ اور رشید عطرے نے ترتیب دی تھی۔ ’فلمی دنیا میں آنے سے قبل رشید عطرے ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے وابستہ تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کا قومی ترانہ پاکستان کے اپنے قومی ترانے سے بھی پہلے لکھا گیا۔انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان کے قومی ترانے کی موسیقی یا دھن سنہ 1950 میں منظور ہوئی تھی۔ ریڈیو پاکستان سے روز یہ دھن بجائی جاتی اور لوگوں کو کہا گیا کہ وہ اس دھن کو ذہن میں رکھتے ہوئے ترانے کے بول تجویز کریں۔ سات اگست 1954 کو حکومت پاکستان نے حفیظ جالندھری کے قومی ترانے کے بول منظور کیے جبکہ 13 اگست 1954 کو پاکستان کا ترانہ نشر ہوا۔‘عقیل عباس جعفری پاکستان کے قومی ترانے پر لکھی جانے والی تحقیقی کتاب ’پاکستان کا قومی ترانہ- کیا ہے حقیقت؟ کیا ہے فسانہ؟‘ کے مصنف بھی ہیں۔کشمیر کے وزیر اطلاعات مشتاق منہاس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتِ کشمیر اپنے قومی ترانے کو ’ری کمپوز‘ کرنے کا سوچ رہی ہے اور اس حوالے سے آئندہ دنوں میں ایک میٹنگ بھی بلائی جائے گی۔’ترانے میں الفاظ کی کافی تکرار ہے اور چند سطریں بار بار دہرائی گئی ہیں جیسا کہ ’وطن ہمارا آزاد کشمیر‘۔ ہم اس کو مختصر کرنے کا سوچ رہے ہیں۔‘مشتاق منہاس کے مطابق ترانے کی دھن کو بھی تازہ (ریفریش) کیا جائے گا کیونکہ اصل ریکارڈنگ بہت پرانی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت چاہتی ہے کہ موسیقی کی کوئی بڑی کمپنی جیسا کہ ’کوک سٹوڈیو‘ یا کوئی نامور موسیقار یہ کام کرے تاکہ ترانے کو مزید پرجوش اور سننے میں بہتر بنایا جا سکے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اپنے طور پر انھوں نے کشمیر کے قومی ترانے کا ’مختصر‘ ورڑن تیار کر رکھا ہے مگر اس کی منظوری ہونا باقی ہے۔وہ قومی ترانہ جو کشمیر میں سرکاری سکولوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں پر چھاپا جاتا ہے’سکولوں میں پاکستان کا قومی ترانہ ہی پڑھا جاتا ہے‘پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں کشمیر کے قومی ترانے سے زیادہ پاکستان کا قومی ترانہ مقبول ہے اور نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی صبح کے وقت کشمیر کے ترانے کے بجائے پاکستان کا ترانہ پڑھا جاتا ہے۔کشمیر کی تحصیل میرپور کے علاقے پولاک میں نجی تعلیمی ادارے کے پرنسپل زبیر حسین کا کہنا ہے کہ وہاں کے تعلیمی اداروں میں عموماً پاکستان کے قومی ترانے کو کشمیر کے قومی ترانے پر ترجیح دی جاتی ہے۔’میں جس سکول میں پرنسپل ہوں وہاں روزانہ صبح اسمبلی میں پاکستان کا قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے۔ البتہ خاص مواقع، جیسے کہ کشمیر ڈے پر پاکستان کے ترانے کے ساتھ ساتھ کشمیر کا ترانہ بھی پڑھا جاتا ہے اور اس پر بچے ٹیبلو پیش کرتے ہیں۔‘زبیر حسین کے مطابق یہ صورتحال پورے کشمیر میں ایک ہی جیسی ہے یہاں تک کہ سرکاری سکولوں میں بھی۔انھوں نے بتایا کہ ’میں میرپور کے سرکاری سکول اور کالج سے فارغ التحصیل ہوں۔ ہمارے سرکاری سکول میں بھی پاکستان کا ترانہ ہی پڑھا جاتا تھا۔‘ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ کشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں پر بھی پہلے صفحے پر پاکستان کا ترانہ جبکہ کتاب کے آخری صفحے پر کشمیر کا ترانہ چھپا ہوتا ہے۔