لندن(ویب ڈیسک)یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) معاہدے سے قبل برطانوی پارلیمنٹ معطلی سے متعلق وزیراعظم بورس جونسن کے فیصلے کو عدالت میں چینلج کردیا گیا۔واضح رہے کہ بورس جونسن کی درخواست پر ملکہ ایلزبتھ دوم نے 5 ہفتوں کے لیے پارلیمنٹ معطل کرنے کی منظوری دے دی تھی۔برطانوی وزیراعظم کے فیصلے سے سیاسی نظام میں ہلچل مچ گئی تھی۔اپوزیشن رہنما جیریمی کوربن نے حکومتی فیصلے کو ’جمہوریت کے لیے خطرہ‘ قرار دیا اور ملکہ ایلزبتھ سے فوری اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی تھی۔بریگزٹ کی مخالف اور بزنس مین خاتون گینا میلر نے بتایا کہ انہوں نے پارلیمنٹ معطلی سے متعلق ’اثرات اور اراروں‘ کے خلاف ’جوڈیشنل ریو‘ داخل کردیا۔انہوں نے بتایا کہ ’ہم سمجھتے ہیں یہ درخواست غیرقانونی ہے‘۔گینا ملیر نے بی بی سی ریڈیو کو انٹریو میں کہا کہ ’جدید تاریخ میں پارلیمنٹ معطلی سے متعلق کوئی مثال نہیں ملتی‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے نزدیک یہ عمل پارلیمنٹ کو بریگزٹ معاہدے کے خلاف قانون سازی کو روکنے کے مترادف ہے‘۔اس دوران اسکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) کی سیاسی رہنما جواننا چیری نے کہا کہ وکلا نے اسکاٹ لینڈ کی سب سے اعلیٰ سول عدالت میں عبوری سماعت کے لیے درخواست دائر کردی ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ سماعت جلد متوقع ہے۔دوسری جانب بریگزٹ کے حامی وزیر جیکو بزش موگ نے پارلیمنٹ معطلی کی حمایت کی اور زور دیا کہ وزرا کے پاس بریگزٹ پر بحث و مباحثہ کرنے کا وقت ہے۔واضح رہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی تاریخ 31 اکتوبر ہے۔علاوہ ازیں پارلیمنٹ سے متعلق فیصلے کے بعد برطانیہ کے متعدد شہروں میں ہزاروں شہریوں نے مظاہرے کیے اور آن لائن پٹیشن دائر کی گئی جس پر 12 لاکھ سے زائد لوگ دستخط کرچکے ہیں۔اس حوالے سے بتایا گیا کہ لندن، مانچسٹر، ایڈن برگ سمیت دیگر شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں جبکہ لندن میں پارلیمنٹ کے پاس لوگوں جمع ہوئے اور یورپی یونین کا جھنڈا اٹھا کر ’بغاوت روکو‘ کے نعرے لگائے۔