تازہ تر ین

ڈیڈ لائن ختم، وزیراعظم نے استعفیٰ دیا نہ پی ڈی ایم لانگ مارچ کا فیصلہ کرسکی

پاکستان کی گیارہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا مقصد تو تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجنا ہے لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے یہ جماعتیں کسی ایک حکمت عملی پر اتقاق کرتی نظر نہیں آتیں۔

پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے گذشتہ دنوں دیے گئے متضاد بیانات نے اپوزیشن اتحاد میں موجود نااتقافی کو مزید عیاں کر دیا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب مسلم لیگ نواز اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فصل الرحمان حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کی تاریخوں پر بات کرتے نظر آ رہے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ ان کی جماعت حکومت کو ہٹانے کے لیے آئینی، قانونی اور جمہوری طریقہ اپناتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تجویز پی ڈی ایم کی سامنے پیش کرے گی۔

تاہم مسلم لیگ نواز کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے اس تجویز کو رد کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو کے پاس نمبرز پورے ہیں تو سامنے لائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں نمبر گیم پوری ہونے کے باوجود چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تھی۔ اس لیے ان کی جماعت تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں۔

بہت سے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی جانب سے مختلف حکمت عملیوں کے حوالے سے بیانات پی ڈی ایم میں اندرونی انتشار کی طرف نشاندہی کر رہے ہیں تاہم مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا کہنا ہے کہ ’یہ محض رائے کا اختلاف ہے جسے بات چیت سے حل کیا جا سکتا ہے‘۔

محمد زبیر نے پیپلز پارٹی کی عدم اعتماد سے متعلق تجویز پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا جن قوتوں سے مقابلہ ہے وہ صرف پاکستان تحریک انصاف نہیں اور اگر اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لاتی ہے اور وہ اس تحریک عدم اعتماد کی طرح ناکام ہو جاتی ہے جو صادق سنجرانی کے خلاف لائی گئی تھی تو یہ پی ڈی ایم کے لیے بڑا دھچکا ہو گا اور اس ناکامی کے بعد تحریک کو زندہ رکھنا ایک بڑا چیلینچ ہو گا۔

دوسری جانب سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف کا ماننا ہے کہ حکومت کو ہٹانے کے لیے زیر غور تمام ہی آپشنز آئینی ہیں، پھر وہ چاہے لانگ مارچ ہو یا پُرامن احتجاج یا تحریک عدم اعتماد اور پیپلز پارٹی نے ان تمام ہی آپشنز کو کھلا رکھا ہے۔

صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اگرچہ پی ڈی ایم کی جانب سے بار بار اپنے بیانات اور حکمت عملی تبدیل کرنا اس کے بیانیے کے لیے نقصان دہ ہے لیکن یہ پی ڈی ایم میں کسی سخت اختلافات کی طرف اشارہ نہیں کرتا کیونکہ اگر اختلافات اتنی شدت اختیار کر چکے ہوتے تو یہ اتحاد اب تک قائم نہ رہتا۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ نہ اسمبلی سے استعفوں کے دعوے، نہ جلسے اور اب نہ ہی تحریک عدم اعتماد حکومت کے لیے کسی دباؤ کا باعث ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے اگر پی ڈی ایم حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرنا چاہتی ہے تو پہلے یہ ایسی حکمت عملی ترتیب دے جس پر وہ خود چار دن تک کھڑے رہ سکیں۔

انھوں نے کہا کہ آئے روز تبدیل ہوتی حکمت عملی حکومت کے لیے کوئی خطرہ نہیں تاہم سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اگر اپوزیشن پوری تیاری کے ساتھ تحریک عدم اعتماد لے کر آئے تو لانگ مارچ کے مقابلے میں یہ حکومت پر دباؤ کا باعث بن سکتی ہے۔



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv