بطور سیاسی کارکن کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ وزیراعظم کو ہٹا کر مجھے وزیراعظم کے منصب پر بٹھاؤ، لہذا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ شکوے شکایات ہیں لیکن ہماری جنگ نہیں،شکوے شکایت والی ہماری سوچ کا احترام ہونا چاہیے۔ صدر پی ڈی ایم کی میڈیا سے گفتگو
اسلام آباد ویب ڈیسک : پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی جگہ پربیٹھنے کا کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا، بطور سیاسی کارکن کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ وزیراعظم کو ہٹا کر مجھے وزیراعظم کے منصب پر بٹھاؤ، لہذا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ شکوے شکایات ہیں لیکن ہماری جنگ نہیں،شکوے شکایت والی ہماری سوچ کا احترام ہونا چاہیے۔انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم رہنماؤں کے بیانات پر کہاجاتا ہے کہ پی ڈی ایم ٹوٹ گئی ہے، جبکہ یہ خواب کبھی ان کا شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، ہم اعتماد کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔خارجہ پالیسی اس وقت کی حکومت کمانڈ کرتی ہے، اس ایسی نااہل حکومت کے حوالے ہوچکے ہیں، ہندوستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے،ایران، افغانستان انڈیا کے کیمپ میں ہے،چین سی پیک کی وجہ سے ناراض ، سعودی عرب ، یواے ای دور چلا گیا، ملائیشیا جہاز روک رہا ہے، اس کو دیکھیں تو ہم عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہیں۔
جوبائیڈن اس بات کو سمجھتا ہے کہ ڈیموکریٹس ہیں، وہ پاکستان کی حکومت کو جمہوری حکومت تسلیم نہیں کررہا ، ان کو کرنی بھی نہیں چاہیے،پاکستان میں الیکشن کے ذریعے حکومت آئے اور عوامی نمائندہ حکومت بن کربات کرتی ہے، جب دنیا سمجھتی ہے یہ حکومت عوام کی نمائندہ نہیں ہے، پھر تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں، بیت المقدس میں امریکا نے سفارتخانہ کھولنے کی بات کی، وہ ٹرمپ کا غیرج جمہوری فیصلہ ہے، اس کو متنازع علاقہ تسلیم کریں اور سفارتخانہ واپس کردینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو اپنے لوگوں پر اعتماد نہیں ہے، ان کو پتا ہے کہ یہ ہمارے لوگ نہیں ہیں۔ایک سوال ”شیخ رشید کہتے ہیں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے،“ کے جواب میں کہا کہ شیخ رشید کے ساتھ ساری زندگی ہاتھ ہوتا رہا ہے، شیخ رشید اب ہاتھ کا عادی ہوگیا ہے۔ نیب احتساب کا ادارہ نہیں ہے، پنڈی اور اسلام کی طرف لانگ مارچ کا فیصلہ پی ڈی ایم کرے گی ،اسٹیبلشمنٹ سے ہماری جنگ نہیں، ہماری شکایت اور گلے شکوے ہیں ، اس وقت قوم پر جو بھی مصیبت مسلط ہے، وہ خود کو ذمہ دار تسلیم کریں، بطور ایک سیاسی کارکن کہہ سکتا ہوں کہ اس وزیراعظم کو ہٹا کر وزیر اعظم کے منصب پر میں نے بیٹھنا ہے، کیامیں کبھی یہ سوچ سکتا ہوں کہ میں آرمی چیف کی جگہ بیٹھنا چاہتا ہوں، آرمی ہاؤس میں جانا چاہتا ہوں، یہ تصور ہی نہیں ہے، پھر میں کیوں کہوں؟ ان کو ہمارے ساتھ جنگ نہیں لڑنی چاہیے، یہ آپ کے فائدے میں نہیں ہے، ہم کہتے ہیں آپ ریاستی ادارہ ہیں، ہماری سوچ کا احترام ہونا چاہیے۔کیا ہم غلط کو غلط بھی نہ کہیں؟ شکایت اور گلہ بھی نہ کریں، یہ کوئی انڈیا کی فوج ہے؟ شکایت اپنوں سے ہوتی ہے، میں پاکستان اداروں، الیکشن کمیشن، نیب، اسٹیبلشمنٹ سے شکایت کرتا ہوں، جو جماعتوں کو توڑنے کا کردار ادا کریں۔ جب یہ باتیں ہمیں معلوم ہوں گی تو گلہ ہوگا۔