واضح رہے کہ کورونا وائرس کے پیش نظر انتظامیہ نے پی ڈی ایم کو 30 نومبر کو ملتان جلسے کی اجازت نہیں دی تھی جس کے بعد گزشتہ روز پی ڈی ایم خاص طور پر پیپلزپارٹی کے کارکنان کی بڑی تعداد نے قلعہ کہنہ قاسم باغ کا رخ کیا تھا اور انتظامی رکاوٹیں ہٹا کر اسٹیڈیم کا تالہ توڑ کر وہاں استقبالیہ کیمپ لگا لیا تھا۔
یہی نہیں بلکہ وہاں جلسے کے لیے سامان بھی پہنچایا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے رات گئے کارروائی کرتے ہوئے وہاں موجود پیپلزپارٹی کے رہنما علی قاسم گیلانی، سابق ایم پی اے جاوید صدیقی، سید عارف شاہ سمیت 25 سے زائد کارکنان کو گرفتار کرلیا۔
ساتھ ہی پولیس اور انتظامیہ نے کنٹینرز اور دیگر رکاوٹیں لگا کر راستے سیل کردیے جس کے بعد آج صبح قلعہ کہنہ قاسم باغ میں پی ڈی ایم کی جانب سے پہنچایا گیا اسٹیج اور دیگر سامان باندھ دیا اور جلسہ گاہ کو مکمل خالی کردیا۔
پی ڈی ایم کارکنان کے خلاف مقدمہ
دوسری جانب پی ڈی ایم جماعتوں کی گزشتہ روز کی ریلی اور دھاوے پر 80 سے زائد افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔
تھانہ لوہاری گیٹ میں درج ایف آئی آر کے مطابق سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے چاروں بیٹوں علی موسیٰ گیلانی، عبد القادر گیلانی، علی حیدر گیلانی اور علی قاسم گیلانی، 100 کے قریب دیگر افراد کے ساتھ قلعہ کہنہ قاسم باغ کی طرف ایک کرین کے ساتھ آئے۔
ایف آئی آر کے مطابق ان میں سے متعدد افراد ڈنڈہ بردار تھے اور ان لوگوں نے کرین پر سوار ہوکر امن و امان کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لگائی گئی رکاوٹیں اور خاردار تاریں ہٹائیں اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق ان لوگوں نے سرکاری اہلکاروں پر کرین چڑھائی اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں، ملزمان نے کارسرکار میں مداخلت کی، سرکاری ملازمین کی زندگیاں خطرے میں ڈالیں، جاتے ہوئے 2 سرکاری بیرئیرز ساتھ لے گئے جبکہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی۔
ادھر گرفتار علی قاسم گیلانی اور پیپلزپارٹی کے رہنما جواد گجر کو کورونا ٹیسٹ کے لیے ملتان کے نشتر ہسپتال لے جایا گیا۔
اس تمام صورتحال پر پیپلز پارٹی نے مؤقف اپنا کہ علی حیدر گیلانی اور علی قاسم گیلانی کو پولیس نے اس وقت گھیرے میں لیا جب وہ اسٹیڈیم میں موجود کارکنان کے لیے کھانا اور سونے کے لیے بستر لے کر جا رہے تھے۔
علی قاسم گیلانی کے نظر بندی کے احکامات
علاوہ ازیں ڈپٹی کمشنر ملتان نے سٹی پولیس آفیسر کی تجویز پر ایم پی او کے تحت علی قاسم گیلانی کے 30 دن کے لیے نظر بندی کے احکامات جاری کردیے۔
ڈپٹی کمشنر نے علی قاسم گیلانی کو ڈسٹرکٹ جیل میں نظر بند کرنے کے احکامات جاری کیے۔
ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پلان تیار
دوسری جانب ترجمان ضلعی حکومت نے بتایا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس کے تازہ دم دستے تعینات کردیے گئے ہیں۔
ترجمان نے بتایا کہ ڈپتی کمشنر کی ہدایت پر ایمرجنسی پلان تیار کرلیا گیا ہے اور ضلعی انتظامیہ، پولیس اور مختلف محکموں کے افسران نے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں جبکہ تمام محکموں کے افسران کو آئندہ72 گھنٹوں تک ضلعی ہیڈکوارٹر نہ چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ریسکیو 1122 میں ’کوڈ ریڈ‘ لاگو
سیاسی سیاسی کارکنوں کی طرف سے قاسم باغ اسٹیڈیم پر توڑ پھوڑ کے واقعات کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ الرٹ ہے اور ڈپٹی کمشنر عامر خٹک کی ہدایت پر ریسکیو 1122 میں”کوڈ ریڈ”لاگو کر دیا گیا۔
کوڈ ریڈ 30 نومبر کو 24 گھنٹے کے لیے لگایا گیا ہے، اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر (ڈی او او) ڈاکٹر کلیم اللہ نے لیٹر جاری کردیا۔
ڈی او او کے مطابق کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ریسکیو ملتان کے 550 ریسکیورز کو قاسم باغ اسٹیڈیم میں تعینات کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ100 موٹر بائیک ایمبولینسسز اور 27 وین ایمبولینسسز اسٹیڈیم میں موجود رہیں گی جبکہ 2ریسکیو وہیکل اور ایک ریکوری وہیکل بھی30 نومبر کو اسٹیڈیم میں دستیاب رہے گی۔
جلسہ تو ہوکر رہے گا، بلاول
ادھر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس تمام صورتحال پر ردعمل میں کہا کہ پی ٹی آئی حکومت ملتان میں پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس سے بوکھلا اٹھی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ حکومت نے ایک بار پھر حملہ کیا اور قاسم گیلانی سمیت ہمارے مختلف کارکنان کو گرفتار کرلیا، چاہے کچھ بھی ہو، ہم 30 نومبر کو پی ڈی ایم کی میزبانی کریں گے، آصفہ بھٹو میری نمائندگی کے لیے پہنچ رہی ہیں جبکہ جلسہ تو ہوکر رہے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن کی ملتان آمد
ملتان میں سیاسی گرما گرمی اور علی موسیٰ گیلانی سمیت پیپلزپارٹی کے دیگر کارکنان کی گرفتاری کے بعد صدر پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن رات گئے ملتان پہنچے جبکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی وہاں پہنچ گئی۔
علاوہ ازیں آج پی ڈی ایم کی قیادت کا ایک ایم اجلاس جامعہ قاسم العلوم میں مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ پی ڈی ایم کی قیادت کی ایک اہم میٹنگ جامعہ قاسم العلوم میں مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں منعقد ہوئی۔
اس اجلاس میں آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا جس کے بعد پی ڈی ایم رہنما پریس کانفرنس بھی کریں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اب تک گوجرانوالہ، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں جلسے کرچکی ہے جبکہ ان کے 30 نومبر کو ملتان اور 13 دسمبر کو لاہور میں مزید 2 جلسے ہونے ہیں۔
اگرچہ حکومت کی جانب سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر جلسے اور جلوسوں پر پابندی لگائی گئی ہے تاہم اس کے باوجود پی ڈی ایم نے بغیر اجازت کے پشاور کا جلسہ کیا تھا اور اب مزید 2 جلسے کرنے کےلیے تیار ہے۔
تاہم حکومت کی جانب سے یہ خبردار کیا گیا تھا کہ جلسے کے منتظمین اور سیاسی رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے، یہیں نہیں بلکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی واضح کیا تھا کہ حکومت اپوزیشن کو ملتان اور دیگر شہروں میں جلسے منعقد کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
اس کے باوجود اپوزیشن رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ ملتان کا جلسہ ہر قیمت پر ہوگا، اگر انہوں نے قلعہ کہنہ قاسم باغ کو نہ کھولا تو پورے ملتان میں جلسہ ہوگا۔
پی ڈی ایم کیا ہے؟
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، 20 ستمبر کو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد تشکیل پانے والا 11 سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو رواں ماہ سے شروع ہونے والے ’ایکشن پلان‘ کے تحت 3 مرحلے پر حکومت مخالف تحریک چلانے کے ذریعے حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔
ایکشن پلان کے تحت پی ڈی ایم نے رواں ماہ سے ملک گیر عوامی جلسوں، احتجاجی مظاہروں، دسمبر میں ریلیوں اور جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف ایک ’فیصلہ کن لانگ مارچ‘ کرنا ہے۔
مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے پہلے صدر ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف سینئر نائب صدر ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اس کے سیکریٹری جنرل ہیں۔
اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے اس اتحاد میں بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں، تاہم جماعت اسلامی اس اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔