افسروں کو 200لیٹر ماہانہ خرچ کرنے کی اجازت ہے لیکن اضافی پٹرول کیلئے لاہور سے باہر دوسرے شہروں کے دورے ڈال دیے بڑے افسروں نے محکمے کے ذیلی دفاتر سے گاڑیاں منگوا کر بیوی بچوں کیلئے مختص کر دیں۔محکمے سے تبدیل ہونے پر گاڑیاں بھی لے گئے
دو سال کے دوران سرکاری افسروں نے 151گاڑیاں حادثات میں تباہ کی جنہیں بعد میں اونے پونے نیلام کرنا پڑا
پنجاب کی بیوروکریسی نے چلاکی مہارت کی مد میں حکومتی خزانے کو کروڑوں کا چونا لگانا شروع کر دیا۔سرکاری خزانے کی بہتی گنگا میں چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکرٹری کے سٹاف کے بھی مزے لوٹ رہے ہیں تفصیلات کے مطابق حکومت پنجاب سروسز جنرل ایڈمنسٹریشن نے 22ستمبر 1999کو ایک نو ٹیفیکیش جاری کیا تھا۔جس میں مختلف عہدے داران کی حد مقرر کی تھی
ضلع کی بعض سرکاری گاڑیاں افسران کے رشتہ داروں کے زیر استعمال ہیں اور وہ بھی ضلع سے باہر۔ کبھی بچوں کی اسکول لے جاتے ہیں تو کبھی بازار سے سودا سلف اور سیر سپاٹے کیلیے گاڑیاں دوڑاتے ہیں نجی تقریبات اور چھٹیوں میں سرکاری گاڑیاں استعمال میں لاتے ہیں کیا یہ کرپشن نہیں ہے ۔عوامی حلقوں میں نئے سوالات جنم لے رہے ہیں،اس پر عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ضلعی افسران سرکاری گاڑیوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ان گاڑیوں میں سرکاری فیول استعمال کرتے ہیں ، ضلع سے باہر جانے پر ٹی اے ڈی اے بھی سرکار سے لیتے ہیں اور کام اپنا کرتے ہیں۔ عوامی سماجی حلقوں نے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے اصلاح احوال کیلیے اقدامات اٹھانے کامطالبہ کر دیا ہے۔