تازہ تر ین

ایک ملک میں 2صدر ،ٹرمپ افغانستان کو خانہ جنگی سے بچائیں،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ افغانستان میں اندازہ تھاکہ امریکی فوجیں اورنیٹو افواج وہی ہیں لیکن ایک طرح سے سیاسی خانہ جنگی شروع ہو گئی ہے۔ خانہ جنگی سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ ک دوسرے کو قتل ہی کیا جائے سیاسی خانہ جنگی یہی ہوتی ہے کہ ایک ہی ملک میں بیک وقت صدر کا حلف اٹھا لیں اور خود ہی پنے کو ملک کا صدر بنا دیں۔ اشرف غنی کے مقابلہ میں عبداللہ عبداللہ نے آج اپنی صدارت کا حلف اٹھا لیا ہے اور اشرف غنی نے بھی اٹھا لیا ہے اب ٹرمپ کے لئے مشکل پیدا ہو گئی ہے اگر امریکی صدر نے بہت زیادہ دباﺅ نہ ڈالا تو یہ جو سیاسی خانہ جنگی ہے عملاً جو دو تلوار کی خانہ جنگی میں شروع ہو جائے اور معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان کا مقدر پھر اندرونی انتشار ہو جائے گا ان کو چاہئے کہ وہ ان دونوں کو اپنے دائرے میں رکھیں اور دباﺅ ڈال کر جو مذاکرات نامکمل رہے وہ ان کو مکمل کروائیں تا کہ پتہ چل سکے کہ افغانستان میں آئندہ نظام حکومت کیا ہو گا۔ کیا الیکشن نئے ہوں گے کسی کی حکومت ہو گی۔ موجودہ صورت حال نے ٹرمپ کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے۔امریکہ فنڈ دیتا ہے تو امریکہ کی حکومت چلتی ہے اگر امریکہ فنڈ بند کر دے تو افغانستان کی حکومت نہیں چل سکتی ہر چیز فنڈڈ ہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ ان تینوں فریقوں کو بٹھایا جائے ایک نظام حکومت طے کیا جائے۔ تا کہ وہاں کوئی مستحکم حکومت بن سکے۔ کہا جاتا ہے کہ افغانستان کے 60 فیصد حصے پر طالبان کا قبضہ ہے چنانچہ اب وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ 60 فیصد تو نمائندگی تو ان کی ہونی چاہئے حکومت میں لیکن شمالی اتحاد، اشرف غنی اور طالبان کے درمیان اتنا تضادات پائے جاتے ہیں کہ یہ تینوں فریق ایک جگہ اکٹھے ہو نہیں سکتے۔ نہ ہی مل کر حکومت بنا سکتے ہیں لہٰذا افغانستان جو ایشو ہے آج بھی اسی طرح اتنا ہی سنگین ہے اگر ان تینوں فریقوں میں لرائیاں جاری رہی تو امریکہ اور پاکستان کے افغان عمل کے منصوبہ کو خاک میں ملانے کی کوشش ہے۔ فوری طور پر امریکہ اور پاکستان کو مداخلت کرنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ فریقین کے درمیان کوئی ایسا ورکنگ ریلیشن شپ ہونی چاہئے کہ کون حکومت کرے گا۔ امریکہ کا افغانستان سے صرف فوجیں نکال لینا مسئلہ کا حل نہیں ہے اس کے بعد افغانستان کا بنے گا مسئلہ یہ ہے دوبارہ مذاکرات ہونے چاہئیں اور مسلسل ہونے چاہئیں جس طرح امریکہ کی ویتنام جنگ کے دوران کئی برس مذاکرات ہوتے رہے۔ پاکستان میں عورتوں کے بڑے مسائل ہیں۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ عورت فاﺅنڈیشن اور اس قسم کے ادارے جو ہیں جس نے جب سے عاصمہ جہانگیر کا انتقال ہوا ہے میں نے ان کے ادارے کو ہر جگہ دیکھا تھا مختاراں مائی کے مسئلے پر لاہور سے ڈیرہ غازی خان گیا اور اس وقت وہاں بھی یہ محسوس ہوا کہ مجھ سے پہلے عاصمہ جہانگیر وہاں پہنچی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں ہیومن رائٹس کے لئے جن لوگوں نے کام کیا ہے اس کا تو کوئی ہیومن رائٹس سے بنتا ہی نہیں ہے۔ یہ جو مطالبے ہیں عورت فاﺅنڈیشن کے وہ تو بے راہ روی کے مطالبے ہیں۔ وہ تو مالبے کر رہی ہیں کہ اپنا جسم اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گویا یا تو ہم مسلمان ہیں یا نہیں ہیں۔ اگر مسلمان ہیں اگر ہم مسیحی ہیں اگر ہم کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں تواس کی اپنی اخلاقی اقدار ہوتی ہیں، اخلاقی ادار یہ ہوتی ہیں کسی بھی طریقے سے مرد اور عورت کے درمیان کے رشتے کو ایک تقدس دیا جائے اور فیملی لائف کو آگے چلایا جائے آج مغرب کی عورت کو دیکھیں تو وہاں سے اس تحریک نے جنم لیا ہے اس عورت کو سکون نہیں ہے وہ بچے بھی پیدا کرتی ہے تین تین اوراس کے بعد تین تین شادیاں بھی کرتی ہے اس کے باوجود نہ وہ کسی ایک گھر کی ہو سکتی ہے نہ دوسرے گھر کی ہو سکتی ہے بالآخر وہ آزاد ہو جاتی ہے پھر وہ اس قسم کے نعروں پر عمل کرنے لگتی ہے میرا جسم میری مرضی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں وہ بہت مسائل ہیں سب سے بڑا مسئلہ کاروکاری اور ونی کا ہے کسی بھی مرداور عورت کو پکڑ لیتے ہیں اور یہ کارو ہے اور یہ کاری ہے۔ اس کا فیصلہ پنچایت کرتی ہے عدالتوں میں جانے کی بجائے اس کے فیصلے خود ہی کر دیئے جاتے۔ میں چینل ۵ ہیومن رائٹس واچ کے نام سے اس میں ایک نوجوان لڑکا جس کی عمر 16 سال ہے وہ اپنے گھر سے بھاگا ہوا ہے کیونکہ اس کو کارو قرار دے دیا گیا ہے اس کو جب پکڑیں گے مار دیں گے۔ وہ جنگلوں میں چھپتا پھرتا ہے مجھے اس کے پیغام آتے رہتے ہیں کہ میری جان بچائیں۔ وراثت میں عورت کا حق نہیں۔ دفتر میں ہراسگی کے واقعات ہیں، کارخانوں میں ہراسگی ہے بھٹوں میں ہراسگی ہے بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مذہبی نقطہ نظر تو عورت کا بڑا مقام ہے۔ یہ جو بیرونی امداد سے تحریک چلی آ رہی ہے اس لئے اور شور شرابا کچھ بڑے شہروں میں سڑکوں میں ہوا اور اس کے مقابلے میں بھی لوگوں نے ’یوم حیا‘ منایا۔ نگہت لغاری ہماری کالم نگار ہیں انہوں نے دو کالم لکھے ہیں وہ بتاتی ہیں کہ میں پچھلے دنوں ناروے میں اپنے بیٹے کے پاس گئی ہوئی تھیں۔ جو مغرب کی عورت کو سکون نہیں وہ کہتی ہے مجھے مردوں کے برابر کام بھی کرنا پڑتا ہے اس کے باوجود مجھے بچے پیدا کرنے اور بچے پالنے کی ضرورتیں بھی پوری کرنی پڑتی ہیں۔ وہ شادی پر یقین نہیں رکھتی۔ اگر یہ فیملی سسٹم برقرار نہ رہے تو نسل انسانی آگے کیسے چلے گی۔ ہمارا دین سب سے بڑی رہنمائی ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ وزیراعظم کا اعلان خوش آئند ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ ہر طرف سے آواز آئی تھی کہ فلاں فلاں چیز میں اضافہ ہو گیا۔ ملک کے حالات میں سٹاک مارکیٹ سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ منصوبے بنانے کے بعد ان پر عمل بھی ہونا چاہئے۔ بھاشا ڈیم کے نام پر اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے فنڈز جمع کرنا شروع کئے تھے سوال یہ ہے ان کو ریٹائر ہوئے بھی کئی ماہ ہو گئے اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ بھاشا ڈیم پر کیا کام ہوا کچھ پتہ نہیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv