تازہ تر ین

بھارت ، مسلمانوں پر حملے جاری ،ہلاکتیں 42ہو گئیں ،اقوام متحدہ کا نوٹس ، کینیڈا نے اپنے شہریوں کو بھارت جانے سے روک دیا

جنیوا (نیٹ نیوز) بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے دورانہلاکتوں کی تعداد 42 ہو گئی ہے جبکہ مظالم پر عالمی میڈیا میں بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔بھارتی میڈیا کے مطابق ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے، آج مزید دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں ، ایوب شبیر نامی شخص کو ڈنڈوں سے تشدد کر کے مار دیا گیا، بیٹے کا کہنا تھا کہ والد کباڑیے کا کام کرتے تھے، صبح باہر نکلے تو مار دیے گئے۔دوسری طرف مشتعل ہجوم نے ایک مسلمان کے گھر کو آگ لگا دی جس کے باعث 85 سالہ خاتون جان بحق ہو گئی، اکبری نامی خاتون دم گھٹنے سے جان کی بازی ہار گئی۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہجوم نے پٹرول بموں سے گھر پر حملہ کیا اور گھر والوں کو اندر ہی محصور رکھا۔بھارتی میڈیا این ڈی ٹی وی کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 42 ہے، 38 کا انتقال جی ٹی بی ہسپتال میں ہوا، تین کا انتقال ایل این پی جی ہسپتال میں ہوا جبکہ ایک کی ہلاکت جگ پرویش چندرا ہسپتال میں ہوئی۔ادھر بھارتی میڈیا نے 42 میں سے 28 ہلاک شدگان کی فہرست جاری کر دی ہے، مرنے والوں میں 20 مسلمان اور 8 ہندو ہیں۔ فسادات میں دو سو سے زائد زخمی اب بھی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ بعض زخمیوں کی حالات تشویشناک بتائی گئی ہے۔حالات قابو سے باہر ہونے کے بعد بھارتی فوجیوں نے گشت شروع کر دیا ہے، نئی دہلی میں ایسا لگ رہا ہے جیسے ہو کا عالم ہے اور مقبوضہ کشمیر والا منظر سامنے آ رہا ہے۔ دہلی کے شمال مشرقی محلے میں پرتشدد جھڑپوں کے دوران شہید ہونیوالی مساجد میں مسلمانوں نے پہلی بار ہفتہ وار نماز جمعہ ادا کی ہے۔جمعے کو دہلی کے مضافات میں مسجد کی چھت پر تقریبا 180 مسلمانوں نے نماز جمعہ ادا کی۔ نمازیوں میں سے ایک محمد سلیمان کا کہنا تھا کہ اگر وہ ہماری مسجدوں کو جلائیں گے تو ہم انہیں دوبارہ تعمیر کر لیں گے اور دعا کریں گے۔ یہ ہمارا مذہبی حق ہے اور کوئی بھی ہمیں اس حق سے روک نہیں سکتا۔واضح رہے کہ دہلی میں گزشتہ اتوار کو شہریت ترمیمی قانون کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئی تھیں اور پھر بعد میں یہ تشدد مسلم کش فسادات کی شکل اختیار کرگیا۔ بھارتی پارلیمان سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہونے والے مسلم کش فسادات تین روز تک جاری رہے جس میں درجنوں افراد کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر مکانات، دکانوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔دریں اثنا نئی دہلی میں ہونے والے فسادات کے بعد امتحانات کے التوا کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، نئی دہلی ہائیکورٹ نے حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس ہر حال میں کچھ کر کے دکھائے اور سکیورٹی میں اپنا کردار ادا کرے۔دریں اثنا عالمی میڈیا بھی نئی دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کو سامنے لے آیا ہے، جس کے بعد بین الاقوامی میڈیا پر بھی بھارت میں ہونے والے مسلم کش فسادات پر آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔برطانوی اخبار دی گارڈین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی میں ہونے والے فسادات گجرات قتل عام کے بعد بد ترین فسادات ہیں، فسادات کی وجہ مودی سرکار کا شہریت سے متعلق قانون ہے۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ دلی فسادات کے پیچھے صرف ایک شخص کپل مشرا کا ہاتھ ہے، بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے گلی کوچے کسی جنگ زدہ علاقے کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ایک اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ 42 افراد کی ہلاکت کے بعد دہلی پولیس کی اہلیت پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں، پولیس فسادیوں کو روکنا نہیں چاہتی یا روک نہیں سکتی۔ برطانوی اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن کا کہنا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں افسوسناک ہیں، بنیادی انسانی حقوق کے متصادم شہری قوانین نہیں بننے چاہئیں۔سربراہ لیبر پارٹی کا کہنا تھا کہ شہریوں کو عبادت کرنے اور زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے، نئی دہلی میں مسلم آبادی پر پر تشدد واقعات کی مذمت کرتا ہوں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ انتہا پسندانہ نظریات تشدد کی طرف لے جاتے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ جنیوا میں بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کروں گا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ مچل بچلیٹ نے مقبوضہ کشمیر اور نئی دہلی کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ بھارتی قانون نافذ کرنے والے ادارے طاقت کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے مظاہرین کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے 43 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ مچل بچلیٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور متنازع شہریت بل کے مظاہرین پر طاقت کے استعمال پر بھارتی حکومت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وادی کشمیر میں انسانی حقوق معطل اور نئی دہلی میں آزادی اظہار رائے کو کچلا جارہا ہے۔ برطانیہ کے قائد حزب اختلاف جریمی کوربن نے بھی دہلی میں ہونے والے قتل عام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے حق کے لیے مظاہرہ کرنے والوں کےساتھ کھڑے ہیں۔ہندو اکثریت والے ملک بھارت میں دیگر اقلیتوں کیساتھ مسلمانوں کی زندگی بھی اجیرن بنا دی گئی ہے۔ بی جے پی کے غنڈوں کو پولیس کی مدد بھی حاصل ہے اور تعلیمی اداروں کو بھی جلایا جا رہا ہے۔ ہندوبلوائیوں نے پولیس کی مدد سے مسلمانوں کے گھر نذرآتش کر دیے ہیں اور وہ بے بسی کے عالم میں اپنی جان بچ جانے کے کسی معجزے کا انتظار کر رہے ہیں۔بی جے پی کے وزیر کپل مشرا نے امن مارچ کا ڈھونگ رچانے کوشش کی جو کامیاب نہیں ہوسکی۔ کپل شرما کے سپورٹرز نے صحافیوں کو بھی دھمکیاں دی ہیں۔ بھارت میں احتجاج مظاہروں کے دوران دہلی پولیس کے اہلکاروں کا مسلم خواتین طالبات کے نازک اعضا پر تشدد، پچاس سے زائد خواتین کو پوشیدہ اعضا پرزخم ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق بھارت میں متنازعہ شہریت بل کیخلاف جاری مسلم کمیونٹی کے احتجاج میں بھارتی پولیس کی ستم گری کی ایک اور داستان منظر عام پر آگئی ہے۔احتجاجی مظاہرے میں شریک خواتین طالبات نے بھارتی مظالم کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا ہے کہ پر امن احتجاجی مظاہرہ کرنا چا رہے تھے۔ بھارت میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات اور جلا گھیرا کے واقعات کے باعث کینیڈا نے اپنے شہریوں کو بھارت جانے سے گریز کرنے کی ہدایات کر دی۔کینیڈا نے بھارت کی حالیہ صورتِ حال اور مسلم کش فسادات کے بعد پیدا ہونے والی صورت حالے کے پیش نظر اپنے شہریوں کے لیے سفری پابندیوں کے احکامات جاری کیے ہیں۔کینیڈین حکومت کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق کینیڈین شہری بھارت کے سفر سے گریز کریں، خاص طور پر گجرات، پنجاب، راجستھان، اروناچل پردیش، آسام اور منی پور جانے میں احتیاط برتی جائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے، بھارت میں تشدد کی آگ بھڑکانے کا ذمہ دار ان سیاسی قائدین کو ٹھہرایا ہے، جو نفرت انگیز تقاریر کر کے پرتشدد ماحول پیدا کررہے ہیں۔ ایمنسٹی نے ان کو فوری طور پر کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔بھارتی ٹی وی کے مطابق نئی دہلی اور بینگلور سے شائع ہونے والی ایمنسٹی کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیاکہ نئی دہلی کے شمال مشرقی حصے میں ہونے والے فسادات میں اب تک بتیس سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ 100 سے زیادہ زخمی ہیں۔ جامعہ ملیہ یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ہونے والے پر تشدد واقعات اور ان سے پہلے رونما ہونے والے ایسے ہی فسادات کے پیچھے بھی سیاسی رہنماں کی نفرت انگیز تقاریر کا ہاتھ تھا۔ انوراگ ٹھاکر جیسے مرکزی وزرا سے لے کر یوگی آدتیہ ناتھ جیسے وزرائے اعلی تک، منتخب نمائندوں نے لوگوں سے غداروں کو گولی مارنے اور انتقام لینے کا مطالبہ کیا،



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv