لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو نے وجودہ حکومت کے بارے میں جو کچھ کہا انہیں یہی کچھ کہنا چاہئے تھا۔ سیاسی مخالفت میں ایک دوسرے کے بارے ہمیشہ ایسی ہی باتیں کی جاتی ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بہت بڑا واقعہ تھی۔ یہ ایک حیران کن بات ہے کہ اس کے بعد آصف علی زرداری صاحب کی 5 سال حکومت رہی ان کی حکومت کے دوران بھی بے نظیر بھٹو کے قتل کے سلسلے میں کوئی سولڈ بات پتہ نہ چلی۔ اس حکومت میں وزیراعظم بھی ان کا تھا۔ اس کے باوجود اگر کچھ نہیں ہو سکا تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں تو خامی ضرور ہے۔ عام انسانکو اس ملک میں کیا انصاف مل سکتا ہے۔ اگر ملک کا صدر اپنی ہی اہلیہ کی شہادت کا کھوج نہیں لگا سکا۔بلاول تقریریں تو بہت کرتے ہیں لیکن انہوں نے بھی اس سلسلے میں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کیا۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت بھی کچھ نہیں کر سکی اور اس سے یہ لگتا ہے مدینہ کی ریاست تھی یا نہیں تھی یا عمران خان اس کا دعویٰ کرتےے ہیں یا نہیں کرتے لیکن جو نہیں کرتے ان کے کام کون سے اچھے ہیں۔ پیپلزپارٹی اپنی لیڈر کی شہادت کا کھوج نہ لگا سکے۔ پرانی باتیں اس لئے کی جاتی ہیں کہ اپنے پلے کچھ نہیں۔ آدھے لوگوں کو تو یاد ہی نہیں رہا کتنے لوگوں کو یاد ہے کہ بھٹو صاحب کے زمانے میں کیا ہوا تھا کیا نہیں ہوا تھا۔ میری عمر کے لوگ جنہوں نے وہ چیزیں اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں وہ کتنے لوگ رہ گئے ہیں۔ نوجوانوں کو کیا پتہ بھٹو کے دور میں کیا ہوا تھا کیا نہیں ہوا تھا بعض لوگ ان کی حکومت کے خلاف ہیں وہ آج بھی یہ کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا ہوا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان توڑنے کے تین کردار تھے ایک ذوالفقار بھٹو، ایک جنرل یحییٰ اور تیسرے شیخ مجیب الرحمن اور تینوں کا حشر جو تھا وہ تاریخ میں بہت بُرا ہے۔ یہ بھی ایک بات ہے جو اپنی جگہ پر جو کہی جاتی ہے۔ پرانی باتیں نہیں کرنی چاہئے بہاول بھٹو کو چاہئے کہ آج جہاں ان کی حکومت ہے اس کو وہ مثالی حکومت بنائیں اور گندگی اور کچرا وہاں سے ختم کریں کراچی کے مسائل ختم کریں۔ ایک یونیک اور مثالی حکومت پیپلزپارٹی کی وہاں بنائیں تا کہ لوگ کہہ سکیں کہ باقی ملک میں بھی پیپلزپارٹی کی حکومت ہو گئی تو ان کے کارنامے یہ ہوں گے۔ یہاں حال میں رہ کر مستقبل کی ۔پلاننگ کی جائے بہ نسبت اس کے کہ ماضی کی باتیں کی جائیں۔ بلاول بھٹو کا جلسہ اچھا تھا کہا جاتا ہے کہ 25,20 ہزار لوگ اس میں شامل تھے پرجوش جلسہ تھا بلاول بھٹو نے پرجوش تقریر کی۔ اسی طرح دوسری طرف عمران خان مدینہ کی ریاست کی بات کرتے ہیں آج کی بات کیوں نہیں کی کہ جب لوگوں کے پاس کھانے کیلئے دو وقت کی روٹی نہیں ہے اور بیروزگاری بڑھ گئی ہے لوگ مفلسی کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ آج سے 14 سو سال پہلے کی مثالیں دینے سے کیا حاصل ہو گا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو حال میں کچھ کر کے دکھانا چاہئے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ کہنا برا آسان ہے کہ آج معاشی بحران ہے سوال یہ ہے کہ جب اس کی جڑوں میں جائیں تو پچھلے دور میں بھی معاشی بحران تھا اس سے پچھلے دور میں بھی معاشی بحران تھا۔ جب صنعتیں، بینک قومیائے گئے تھے جب بڑے کارخانے قومیا کر نالائق افسر بٹھا دیئے گئے تب نوکریاں پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو ملتی تھیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کو کبھی بھی ایسی حکومت نہیں ملی جس کے دور میں حالات صحیح ہوں۔ ضیا شاہد نے کہا ہے کہ کل کا سب سے بڑا واقعہ ہے کہ پرویز مشرف نے اپنے لئے جو کیس کیا ہے وہ دیکھنے والا ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے جو کیس سپریم کورٹ میں دائر ہوا ہے وہ دیکھنے والا ہے۔ ضیا شاہد نے نیب آرڈی نینس میں جو ترمیم ہوا ہے وہ تو بڑی زبردست ہے اس لئے کہ نیب حکومت نے یہ طے کیا ہے کہ 50 کروڑ سے کم کسی کیس میں کسی کو نہیں پکڑ سکے گی۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی اصلاحات سامنے آتی ہیں، رانا ثناءاللہ کی رہائی کے حوالہ سے ٹی وی چینلز پر بحثیں ہوتی رہیں۔ رانا صاحب حلف اٹھا کر یہ کہتے رہے کہ میں نے کوئی ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ وہ سارے لوگ جو کہتے تھے کہ ان کے پاس 25 کلو ہیروئن تھی، پھر 15 پر آئی، پھر 12 گرام پر آئی۔ سوال یہ ہے کہ کسی نے یہ سارے کیسز کرائے حکومت وقت کو چاہئے کہ وہ تحقیق کرے کہ جس طریقے سے متعلقہ وزیر نے پریس کانفرنس کی ہے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی پریس کانفرنس سے کوئی ایسا خاص اثر نہیں پڑا ان کو چاہئے کہ وہ اس سوال کا جواب دیں کہ6 ہفتے تک کوئی جج ہی نہیں تھا جو ان کے کیس کی سماعت کر سکتا چنانچہ جج صاحب نے جو کیس لکھا ہے اس میں لکھا ہے کہ ان کی ضمانت اس لئے منظور کی جاتی ہے کہ ان کا کیس سننے والا کوئی جج ہی نہیں تھا۔ مسلم لیگ ن اب سیاسی انتقام کا الزام لگا رہی ہے حکومت اس الزام کو دھوکے اور رانا کیس کو لوگوں کے سامنے پیش کرے اصل حقائق عوام کے سامنے لائیں، ان کے کیس کے لئے جج مقرر کرے اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہونی چاہئے اور انصاف فوری طور پر مل سکے۔ کابینہ نے نیب کا 2019ءترمیمی آرڈی نینس منظور کر لیا جب تک سارے فریقین، خواہ اپوزیشن ہو خواہ حکومت ہو کچھ باتوں پر تو اتفاق ہونا چاہئے جو ترمیم ہوئی ہے اپوزیشن کی بھی تجاویز لینی چاہئے تھی۔ کاش اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لے کر کوئی قانون بناتے۔ پارلیمنٹ کے اندر تو انہیں منظور ہونے چاہئیں پہلے بحث مباحثہ ہو پھر کسی نتیجے پر پہنچا جائے۔ پرویز مشرف کی فیصلہ کے خلاف درخواست پر بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ وقتی طور پر جو جسٹس سیٹھ صاحب نے بہت سخت الفاظ استعمال کئے تھے۔ ان کو عملدرآمد روک دیا گیا۔ وہ خود پیش ہوتے یا وکیل کے ذریعے کیس ہوت ہے اس کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں سے کوئی کمیشن بھیج دیا جائے جو پرویز مشرف کا بیان وہاں جا کر ریکارڈ کر لے۔ ایف آئی اے نے ن لیگ کے دفتر پر چھاپہ اور ریکارڈ قبضہ میں لے لیا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ن لیگ جو اس کا کیس تو عدالت میں کر سکتی ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے واجد ضیا آج کل لاہور میں جو ایف آئی اے ہے اس کے سربراہ ہیں اگر وہ چھاپہ مارنا چاہیں تو ان کو حق حاصل ہے۔ ن لیگ شوق سے مقدمہ کروا سکتی ہے۔ہمیشہ سے ہوتا ہے جب اپنے اوپر پڑتی ہے و آدمی قانونی راستہ تلاش کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ن لیگ کیس دائر کرے گی۔ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔