لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں نے زندگی میں قائداعظم پر بہت پڑھا پاکستان میں قائداعظم کا ایک سال منایا گیا تھا۔ میں اس سال پی ٹی وی پر روزانہ قائداعظم کی زندگی پر 5 منٹ کا ایک واقعہ سناتا تھا۔ 360 دن تک میں ناتا رہا تھا۔ میں نے بہت پڑھا جتنے واقعات مختلف لوگوں نے لکھے تھے میں نے ان کی تصدیق کی جو ان میں زیادہ سے زیادہ قابل اعتبار تھے قابل یقین تھے جن میں کوئی شکوک و شبہات نہیں پائے جاتے تھے ان کو جمع کیا۔ پھر کتابی شکل میں بڑے سائز میں اس کا نام ہے ”سچا اور کھرا لیڈر“ میں نے اپنی زندگی میں جتنے بھی لیڈر پڑھے جن کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کیں میں سیاسی لیڈروں کی بات کر رہا ہوں ان میں سے قائد کی ذات مجھے سب سے ایک پروقار اور قابل اعتماد اور صاحب کردار شخص نظر آئے۔ ان کے بچپن کے واقعات، طالب علمی کے زمانے کے واقعات سامنے ہیں جب وہ نو عمری میں ہی انگلینڈ چلے گئے۔ وہاں پڑھتے رہے وہاں جب قانون کی ڈگری پھر بارایٹ لا کے بعد وہ انڈیا آئے اس وقت پاکستان نہیں بنا تھا اور انہوں نے ممبئی میں اپنی پریکٹس شروع کی۔ بلاﺅتھ نے جنہوں نے قائداعظم پر کتاب لکھی ہے وہ ایک انگریز مصنف تھے جن کو انہوں نے بلایا تھا سرکاری اخراجات پر جو لیاقت علی خان تھے قائداعظم کے ساتھی تو انہوں نے ان کو بلایا اور انہوں نے بڑی تحقیق کے ساتھ لکھا جب ابتدائی زندگی میں وکیل کی حیثیت سے کام شروع کیا جہاں تک ان کی ایمانداری کا تعلق ہے مشہور واقعہ ہے کہ ایک مقدمہ میں ان کی فیس طے ہوئی۔ فیس کا ان دنوں رواج تھا کہ جتنی پیشیاں اتنی فیس۔ ہر ایک پیشی کے اعتبار سے فیس لیا کرتے تھے انہوں نے جو پیسے طے کئے تو جب انہوں نے مقدمہ شروع کیا تو اتنے دنوں سے بہت پہلے ہی کیس جیت لیا۔ جب ہندو سیٹھ کا کیس لڑ رہے تھے انہوں نے ایک لفافے میںپیسے جو بچے وہ واپس ڈالے اور ان کو واپس کر دیئے ہندو سیٹھ نے کہا کہ میں بہت خوش ہوں کہ آپ نے میرا مقدمہ جیت لیا میں اپنی خوشی سے آپ کو دیتا ہوں۔ قائد نے کہا کہ میں اصول پر چلتا ہوں میرا اصول یہ تھا کہ اتنی پیشیوں کے اتنے پیسے لوں گا جتنی پیشیاں میں نے استعمال کیں اس سے بہت پہلے آپ کا کام ہو گیا تو میں پیسے نہیں رکھوں گا ان پیسوں پر میرا کوئی حق نہیں ہے۔ اس واقعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کس قدر دیانتدار، صاف گو انسان تھے۔ ایک اور واقعہ میری کتاب میں ہے ان کے پاس ایک کک کام کرتا تھا۔ پٹھان تھا۔ ایک دن اس نے کہا میرے بچے بڑے ہو گئے ہیں اب مجھے اجازت دیں میں واپس صوبہ سرحد جانا چاہتا ہوں جس کو آج کل خیبرپختونخوا کہتے ہیں۔ آپ مجھے اچھا سا خط لکھ دیں تا کہ میں خط دکھا کر کسی اچھے گھر میں ملازمت حاصل کر سکوں تو قائد نے کے ایچ خورشید کو جو ان کے سیکرٹری تھے ان سے کہا کہ خط لکھیں۔ قائد نے جو خط ڈکٹیٹ کروایا تو وہ انگریزی میں تھا جب کے ایچ خورشید نے ٹائپ کر کے اس کو دیا وہ تو انگریزی نہیں جانتا تھا تو وہ فاطمہ جناح کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے پڑھ کر سنائیں کہ کیا لکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لکھا ہے کہ یہ بہت اچھا باورچی ہے اپنا کام اچھی طرح جانتا ہے مگر اس میں بڑی خرابی ہے کہ لڑتا جھگڑتا بہت ہے اس ایک خرابی کے سوا کوئی کمی نہیں ہے جب اس نے سنا تو خط لے کر قائد کے پاس واپس آ گیا کہ اس خط پر مجھے کون ملازمت دے گا یہ تو آپ نے میرے خلاف لکھ دیا ہے تو قائد نے کہا کہ میں وہی کچھ لکھوں گا جو سچ ہو گا۔ میں سچ کے سوا کچھ نہیں لکھوں گا۔ آج کل جب الیکشن ہوتا ہے تو لوگ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ ایک واقعہ ہے کہ جی ایم سید ان دونوں مسلم لیگ میں تھے۔ جی ایم سید سندھ کے رہنے والے تھے۔انہوں نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے مقابلہ میں دو آدمی اور تھے جی ایم سید نے قائد کو خط لکھا کہ ایک آدمی تو بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہے ایک میرے حق میں بیٹھنا چاہتا ہے لیکن وہ کہتا ہے جتنے میرے پیسے اخراجات ہوئے ہیں وہ مجھے مل جائیں تو میں آپ کے حق میں دستبردار ہو جاﺅں گا اگر وہ بیٹھ جائے تو میری کامیابی یقینی ہو جائے گی اس لئے اجازت دیں کہ ہم مسلم لیگ فنڈ میں سے اس کو پیسے ادا کر دیں۔ قائد نے مختصر جواب لکھا ”میں سیٹ ہارنا پسند کروں گا بہ نسبت اس کے کہ میں سیٹ خریدوں“ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قائد کے ذہن میں الیکشن کا کیا تصور تھا۔ اور آج لاکھوں کروڑوں خرچ کر کے لوگ الیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں قائد کا اس بارے کیا تصور تھا۔ قائداعظم پہلے کانگریس میں تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ہندو بہت متعصب اور تنگ نظر ہے اور مسلمانوں کو ان کے حقوق دینے کے لئے تیار نہیں اس لئے انہوں نے کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور آہستہ آہستہ بہت زیادہ کوشش کی اور مسلم لیگ کو منظم کیا اور دو قومی نظریے کا آغاز کیا۔ 1940ءمیں جو قائد نے لاہور ہی میں ایک اقبال پارک جس کا اس کا نام اس وقت منٹو پارک تھا اس جلسے میں خطاب کیا جس میں انہوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا۔ اس کا مطلب تھا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں اور یہ ایک ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ جوں جوں وقت گزرتا چلا جا رہا ہے آج انڈیا میں جو حالات ہیں جس طریقے سے مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے مودی نے اور جس طریقے سے متعصب ہندوﺅں نے ان کی زندگیاں تنگ کر دی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قائداعظم کا دو قومی نظریہ بالکل درست تھا اور دو سو فیصد ٹھیک تھا۔ اس وقت مولانا ابوالکلام آزاد اور جو دیو بند کے علماءتھے جو یہ کہتے تھے کہ ہندوﺅں اور مسلمانوں کو اکٹھے مل کر رہنا چاہئے وہ آج وہ بھی محسوس کر رہے ہوں گے کہ قائداعظم کا فلسفہ ٹھیک تھا اس لئے کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں۔ دیکھیں ہندوﺅں نے بابری مسجد کو چلنے نہںی دیا۔ گائے کا ذبیخہ کی اجازت نہیں جگہ جگہ مسلمانوںکو ان کی عبادات مذہب اور ان کی رسوم کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دیتے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زندگی کس قدر ویژن رکھنے والے انسان تھے کہ 1947ءسے پہلے 1940ءمیں قرارداد لاہور منظور کی اور 1947ءتک پاکستان کے قیام کی جدوجہد کی۔ اور جو انہوں نے کہا وہ آج پورے انڈیا میں ثابت ہو رہا ہے کہ انڈیا میں شہریت کا حصول ہے اس کے تحت مسلمان کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جا رہا۔ جب پوچھا گیا گیا کہ قائد کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے۔ اس پروگرام میں متعدد بار کہہ چکا ہوں کہ قائداعظم نے کہا تھا کہ اگر میرے بنائے ہوئے پاکستان میں غریب کو دو وقت کی روٹی، محروم کو چھت، مظلوم کو انصاف میسر نہیں ہے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے۔ آج ایسا نہیں ہے لہٰذا قائداعظم کا بنایا ہوا پاکستان کہیں نظر نہیں آتا۔ جب سے پاکستان بنا ہے پاکستان پر جو سیاسی قادتیں مسلھ ہیں وہ سو فیصد اپنی ذاتی اغراض کے لئے لڑ رہی ہیں ”قائد کے بنائے اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ اتنے برسوں سے جس طریقے سے لوٹ کھسوٹ ہے۔ جس کو دیکھو اس نے حکومت کا پیسہ کھایا ہوا ہے۔ جب تک پیسہ واپس نہیں آئے گا ان کو سزائیں نہیں ملیں گی اس وقت قائداعظم کا پاکستان واپس نہیں آئے گا۔
رانا ثناءاللہ کا کیس اس کی شاندار مثال ہے کہ اگر ان پر الزامات تھے کہ نارکوٹکس والے کہتے تھے کہ ثبوت موجود ہیں تو سامنے کیوں نہیں لے کر آئے۔ 6 مہینے تک تو اس کا کوئی جج ہی نہیں رہا۔ ملک میں اتنی ناانصافی ہے جس وزیر کو پکڑا گیا اور پھر یہ سوال کیا گیا کہ جناب آپ نے جج ہی نہیں مقرر کیا ہوا۔ اب ان کی جو ضمانت ہوئی ہے وہ اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ گناہ گار نہیں تھا بلکہ 6 ماہ سے اس کا کیس ہی آگے نہیں بڑھ رہا تھا چنانچہ عدالت نے ان کی ضمانت لے لی۔ پتہ چلتا ہے کہ جو پکڑا جاتا ہے وہ پیسہ خرچ کرتا ہے کہ وہ بچ نکلے۔ شہریارآفریدی وزیر تھے اس محکمے کے اندر اتنے اہم کیس کا 6 ماہ سے کوئی جج ہی نہیں تھا۔ اس کا کون ذمہ دار تھا۔ حامد صاحب اس مشکل میں حکومت تو تحریک انصاف کی ہے۔ وزیر بھی تحریک انصاف کے ہیں شہریار آفریدی تو پھر ذمہ دار کون ہے۔ سب اخبارات نے لکھا تھا اس وقت یہ کہا گیا ہے کہ نارکوٹکس کا ریکارڈ شاندار ہے وہ کبھی غلط آدمی کو نہیں پکڑتے اگر انہوں نے پکڑا ہے تو ان کے پاس ویڈیوز موجود ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ پاکستان میں چرچز کو پوری آزادی حاصل ہے اور اقلیتوں کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے مذہبی تقریبات منعقد کرنے کی۔ آج اگر موازنہ کیا جائے تو اگر مواہ کیا جائے کہ انڈیا کی پوزیشن اور پاکستان کی کیا پوزیشن ہے تو پاکستان ایک جنت نظر آئے گا جس میں اقلیتوں کو ہر آزادی حاصل ہے یہ پاکستانن کا جو جھنڈا ہے سفید رنگ وہ اقلیتوں کا رنگ ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ کا حصہ اقلیتوں کی آزادیوں کو ظاہر کرتا ہے۔