تازہ تر ین

نیب جسے پکڑے ،کیس جلد نمٹا ئے ،سالوں نہ لٹکائے ،زیادہ دیر گرفتار نہ رکھے :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نیب کے کام اتنے ست ہیں۔ مثال کے طور پر ابھی الیکشن نہیں ہوا تھا میں نے اپنی کتاب ”سچا اور کھرا لیڈر“ جو قائداعظم پر ہے اس کی افتتاحی تقریب کے لئے عمران خان صاحب کے پاس گیا اس وقت تو وہ وزیراعظم نہیں تھے اپوزیشن لیڈر تھے۔ میں نے ان کو دعوت دی۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے اس سے دو ہفتے پہلے صدر پاکستان ممنون حسین کو دعوت دی تھی مجھے انہوں نے وعدے کے باوجود مجھے وقت نہیں دیا۔ میں جس نے ان کے پاس ان کے پاس لاہور ایئرپورٹ پر گیا اس دن یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ نارووال گئے ہیں وہ وہاں نارووال سپورٹس کمپلیکس کا افتتاح کرنے گئے ہیں۔ اگلے ہی ہفتے یہ خبر آ گئی تھی کہ نیب نے کہا ہے کہ اس میں بہت سے گھپلے ہوئے ہیں اور اس سارے پروجیکٹ کو نیب نے دیکھنا شروع کر دیا ہوا ہے۔ اب ایک سال 6 مہینے ہو گئے ہیں اس بات کو۔ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ نیب کے کام کس قدر سست ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ اعتراض کیا جاتا ہے نیب جس کام کو بھی شہباز شریف پر نیب نے جو الزامات لگائے ان گرفتار بھی کیا گیا۔ پھر ان کو پروڈکشن آرڈر پر رہا بھی کر دیا گیا۔ پھر کبھی پتہ نہیں چلا کہ ان کاموں کا کیا ہوا۔ بڑے ادب کے ساتھ جناب جسٹس جاوید اقبال لوگ تھک جاتے ہیں بوڑھے ہو جاتے ہیں لیکن عمل مکمل نہیں ہوتا۔ اب کافی کیسز پینڈنگ ہیں۔ مثال کے طور پر کہا گیا کہ فلاں فلاں پکڑے گئے۔ فلاں صاحب کا پتہ چلا کہ وہ وعدہ معاف گواہ بھی بنے کو تیار ہے لیکن دوبارہ پھر ان کے بارے میں اطلاع نہیں آتی میری ان سے درخواست ہے کہ نیب نے اچھے کام کئے ہیں لیکن ان کا کام اتنا سست ہے اب احسن اقبال کی ایک سال 6 ماہ بعد گرفتاری ہوئی ہے۔ کتنے سال اور لگنے ہیں اس مقدمے کو۔ اس صورتحال میں لوگوں کو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں کہ ضرور کوئی نہ کوئی وجہ ہے۔ اب گرفتاری ہوئی ہے احسن اقبال کا کہنا ہے کہ یہ نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے ان پر آرٹیکل 6 لگنا چاہئے۔ اس پر ضیا شاہد نے کہا ہے جہاں تک ان کے بھانجے کا تعلق ہے ان کا کہنا ہے کہ میں صرف پاس کھڑا تھا میں نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا۔ تحقیقات میں جائزہ لیا جائے کہ انہوں نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا اس پر آرٹیکل 6 کا اطلاق تو بالکل نہیں ہوتا۔ نیب کیسز میں کون پکڑا گیا کون نہیں میں تو بار بار یہ کہہ رہا ہوں جس کو پکڑا گیا ہے اس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے جس کو ایسا نہیں کر سکتے اس کو رہا کیا جائے مہینوں گرفتاری کا عمل ہے اس کو اتنی دور تک نہ کھینچا۔ اپوزیشن کا مطالبہ کہ احتساب بلا امتیاز نہیں ہو رہا۔ بلاول بھٹو اگر کہہ رہے ہیں کہ میں پیش نہیں ہوں گا ہمت ہے تو گرفتار کر کے دکھائیں۔ نے جو کچھ کہا ہے اس کا مخاطب اول نیب ہے اس کو چاہئے کہ اس کا جواب دے نیب کے مطالبات زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ بلاول بھٹو کا مسئلہ یہی ہے کہ جب کبھی ان کو گرفتار کرنے کی بات ہوتی ہے یا ان کے کسی عزیز کو گرفتار کرنے کی بات ہوتی ہے وہ ہمیشہ دھمکی دیتے ہیں کہ مجھے یا ہمارے لوگوں کو گرفتار کیا گیا تو اس کے نتائج بہت بڑے ہوں گے وہ ہمیشہ سندھ کارڈ استعمال کرتے ہیں۔ اصل میں 18 ویں ترمیم کے بعد صوبے طاقت ور ہو گئے ہیں اور وفاق کمزور ہو گیا ہے۔ 18 ویں ترمیم پیپلزپارٹی کے لوگوں کے ہاتھوں ہوئی تھی اور انہوں نے صوبوں کو اس قدر اختیارات دے دیئے ہیں اب صوبے آگے اور وفاق پیچھے چلا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھا کسی نہ کسی طرف سے یہ بات یہ سنائی دیتی ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام حکومت ہونا چاہئے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ صوبے جو ہیں وہ بہت پاور فل ہو گئے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں بھی تعاون نہیں کر رہی۔ حکومت کے لوگ بھی تعاون نہیں کر رہے۔ ایک وفاقی وزیر کو گرفتار کرنا چاہ رہے ہیں لیکن ان کی صحت کمزور ہے اس لئے نہیں کر رہے۔ میرا خیال ہے یہ تو کوئی دلیل نہیں۔ اگر انہوں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو ان کو ضرور پکڑنا چاہئے۔ حکومت وقت کچھ باتوں پر انہیں بھی غور کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر ہماری بڑی بدنامی ہوئی ہے جو وہ کوالالمپور نہیں گئے ہیں عمران خان اور اس پر طیب اردگان جیسے ایک ترکی کے سربراہ نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان جو ہے اس لئے اس میں نہیں گیا کہ سعودی عرب نے دھمکی دی تھی کہ وہ پاکستان کے 40 لاکھ افراد ملک سے نکال دیں گے اس کی جگہ بنگلہ دیش کے لوگ لے آئیں گے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ حالانکہ فنڈو اسلام کے بارے سب سے زیادہ تقاریر کرنے کے باوجود جب اس پر طے ہوا کہ ترکی، ملائیشیا اور پاکستان مل کر اس پر فنگشن کروائیں گے اور جب تقریب ہوئی تو عمران خان نہیں گئے۔ اس پر بہت لے دے ہوئی اور اس پر سعودی عرب نے بھی اس کی ممانعت کی ہے کہ ہم نے ہر گز کسی قسم کی کوئی دھمکی نہیں دی پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور ہم اس کو دھمکی نہیں دی اس کے باوجود پاکستان کا کوالالمپور کے فنگشن میں شریک نہ ہونا اس پر بڑی باتیں ہو رہی ہیں اس پر کافی لے دے ہوئی۔ عمران خان کو کوالالمپور کا دورہ کرنا چاہئے اور ترکی کا بھی دورہ کریں اور یہ تاثر ختم کریں کہ ہم کسی دباﺅ کے تحت ان دونوں ملکوں کے اپنے تعلقات خراب کر رہے ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ قوم سے خطاب کریں اور ان سوالات کا جواب دیں یہ جو شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں ان کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ چونکہ اپوزیشن کے لوگ زیادہ تر ملوث ہیں کرپشن کے الزامات میں اس لئے جب ان کو پکڑا جاتا ہے تو وہ دھمکیاں دینے لگتے ہیں اور نیب جو کو پکڑتی ہے اس کو منطقی انجام تک پہنچائے۔ سالوں نہ لٹکائے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ایک زمانے میں بھارت بڑے فخر سے کہا کرتا تھا کہ پاکستان کے مسلمانوں کی آبادی بیس کروڑ ہے جبکہ ہمارے ملک میں 22 کروڑ مسلمان رہتے ہیں لیکن اب وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے صرف مسہمان ہی نہیں بلکہ سکھ اور عیسائی اور دوسری اقلیتیں جو ہیں وہ اس بات کو بہت زیادہ اچھال رہی ہیں ان کے شہری حقوق پامال ہو رہے ہیں شہریت کے قانون کی رو سے جو ان کے جائز حقوق کو کچلا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب تو آج توسونیا گاندھی اور اپوزیشن نے ایک بڑا جلوس نکالا ہے جس طرح سے حکومت نے دھمکی دی حکومت نے کہ جو شخص ان مظاہروں میں شریک ہوا اس کی جائیداد ضبط کر لی جائے گی اس کے باوجود لوگ باز نہیں آ رہے۔ جس طرح سے 10 ریاستوں میں جو طوفان چھپا ہوا اور لوگ شہریت کے قانون کو نہیں مان رہے ہیں مجھے یہ لگتا ہے کہ مودی حکومت سے یہ معاملہ سنبھلتا دکھائی نہیں دیتا۔ انڈیا کا جو اندرونی انتشار بڑھے گا۔ انڈیا میں جو کچھ ہو رہا ہے کوئی یو این او، سلامتی کونسل اور دنیا کا کوئی ملک کوئی ادارہ اس پر نہیں بولتا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



آج کی خبریں



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv