لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ حکومت نے جسٹس قار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جانے کا فیصلہ کیا ہے یہ اچھا اقدام ہے۔ جسٹس صاحب نے جو فیصلہ دیا ہے وہ فیصلہ ایک ذاتی اشتعال اور غصے کا فیصلہ ہے فیصلے میں ذاتی غصہ شامل نہیں ہونا چاہئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک پہلوان کے اوپر چڑھ کر اس کو مارنے لگے تو اس نے آپ کے منہ پر تھوک دیا حضرت علیؓ رک گئے اور کہا کہ اب میں تمہیں نہیں ماروں گا کیونکہ اس سے پہلے میں قتل کرنا چاہتا تھا اسلام کی خاطر کہ تم اسلام کے دشمن تھے لیکن اب میرے غصے میں ذاتی غصے کا عنصر شامل ہو گیا ہے لہٰذا میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ میں سمجھتا ہو ںکہ جج کو اپنے اشتعال اور غصے کو شامل نہیں ہونا چاہئے جبکہ جو فیصلہ آج سنایا گیا ہے کہ اس میں جس طرح ایک شخص کو جو بیمار ہے جو اپنا کیس بھی شامل نہیں ہو سکا اور صفائی بھی نہیں پیش کر سکا اس کو سزا سنا دی۔ ہمارے پڑوسی ملک میں جشن منایا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کو جو کارگل کا ہیرو قرار دیا جاتا تھا سیاست دانوں نے کارگل کے فیصلے کو یو این او امریکہ میں لے جا کر اس کو واپس لے لیا اور صلح کر لی۔ اس لحاظ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ دو دن کے اندر اندنر جو شخص پاکستان میں یہ کہا جا رہا تھا آدھے لوگ حق میں تھے آدھے لوگ مخالف تھے اس فیصلے کے الفاظ نے ان کو ہیرو بنا دیا اب لوگوں کی تمام تر ہمدردیاں پرویز مشرف کے ساتھ ہو گئیں۔ اس سے فیصلے سے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس میں کوئی غیر ملکی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ یہ مقدمہ نوازشریف کا شروع کردیا تھا۔ ان کی جو پرویز مشرف سے ذاتی ناراضگی تھی وہ اس لئے بھی ظاہر تھی کہ پرویز مشرف نے ان کو اقتدار سے ہٹایا تھا اس مقدمے میں شروع سے ہی ذاتی عناد شامل ہے ایسے کیوں میں جہاں انتقام کا جذبہ شامل ہو تو پوری دنیا میں عدل و انصاف سے عاری قرار دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جج کو اپنے فیصلے میں جذباتی نہیں ہونا چاہئے۔ اس وقت جو ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہو رہا ہے پاک فوج نے نہایت عقلمندی کا ثبوت دیا ہے اگر آج سے 10,10 سال پہلے ایسا واقعہ آیا ہوتا تو یقینا ملک میں مارشل لاءلگ جاتا لیکن پاک فوج نے معاملات آئین اور قانون کے تابع رکھے ہیں اور حکومت سے کہا ہے کہ جو بھی آئین ور قانون میں اسے تلافی نظر آتی ہے۔ چنانچہ آئین میں جو تلافی نظر آتی تھی وہ راستہ لیا گیا ہے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ قصور میں زینب کے قتل کا واقعہ ہوا اس میں اس قاتل نے جتنی بچیوں سے زیادتی کی تھی تو اس پر خود زینب کے والد نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس کو سرعام لٹکایا جائے لیکن عدالت نے اس کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ کیونکہ پاکستان کی کوئی عدالت سرعام لٹکانے کو تسلیم نہیں کرتی یہ کس قسم کا فیصلہ ہے جو ایک جج اس کی مخالفت کر رہے ہیں وار ایک جج صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اگر فوت بھی ہو جائیں یہ ایک انتہائی خوفناک فیصلہ ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ فوت بھی ہو جائیں تو ان کی میت کو نکال کر ان کو گھسیٹتے ہوئے لایا جائے اور ان کو ڈی چوک میں لٹکایا جائے۔ پاک فوج نے حکومت کو بھی ایکشن لینے کو کہا ہے حالانکہ کوئی فوج ایکشن لینا چاہتی ہے تو فوج ہمیشہ جمہوری حکومتوں کا بوریا بستر لپیٹ دیا کرتی ہے۔ میجر جنرل آصف غفور کی جب کل گفتگو شروع ہوئی تو میرے کمرے میں بیٹھے لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ان کی پریس کانفرنس شروع ہونے والی ہے لگتا ہے آج ملک میں مارشل لا لگ جائے گا۔ یہ جملہ بہت سارے جملوں پر حاوی ہے جب انہوں نے کہا کہ ملک پہلے ہے ادارے بعد میں ہیں۔ یہ بات واقعی صحیح ہے کہ ادارے اہمیت نہیں رکھتے ملک اہمیت رکھتا ہے۔ پاک فوج ملک کی سربلندی، مضبوطی و استحکام کی ضمانت ہے کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اگر فوج کو کمزور کیا جاتا ہے۔ پرویز مشرف پر الزام ہو سکتا ہے لیکن اسے کتنے مواقع ہیں کہ کمیشن بنائے گئے اور ملک سے باہر بھیجے گئے تو اب کیا بات تھی اور کیا وجہ تھی کہ کوئی کمیشن بنا کر دبئی نہیں بھیجا گیا کہ وہ پرویز مشرف کا بیان نہیں لیا گیا جبکہ وہ بیان دینے کو تیار تھے۔ اب جبکہ وہ بیمار ہیں ان سے بولا بھی نہیں جا رہا کیا قدرتی انصاف یہ طریقہ نہیں ان کے پاس ایک کمیشن بھیج دیا جائے جو ان کا بیان لے لے۔ یکطرفہ طور پر اتنا سخت فیصلہ یہ کسی طور قابل انصاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایوب خان کے دور میں جب مارشل لاءآیا تو جسٹس محمد منیر نے یہ فیصلہ دیا کہ جو کامیاب بغاوت ہوتی ہے وہ جائز ہوتی ہے اور اس کو تسلیم کر لینا چاہئے جنرل ضیاءالحق کو بھی مارشل لا کو جائز قرار دیا گیا۔ اس دور کے ججز حضرات نے درست سمجھا۔ پرویز مشرف نے جب محمد نوازشریف کی حکومت کا خاتمہ کیا اس وقت بھی جو کہ سپریم کورٹ کے جج حضرات نے ان کو جائز قرار دیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان ججوں کو کون پوچھے گا جسٹس منیر سے لے کر جسٹس انوارالحق تک اتنے ججوں کو جو مختلف مارشل لاﺅں کو جائز قرار دیتے رہے اب ایک خصوصی عدالت کے ایک جج صاحب کو اتنا غصہ آیا ہوا کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ میت نکال کر ڈی چوک میں لٹکائی جائے۔
کے بارے میں پڑھا کرتے تھے کہ انگلستان میں جنہوں نے اس وقت حکومت پر قبضہ کیا تھا اور شاہ کی حکومت کو ختم کیا تھا تو اس وقت یہ فیصلہ آیا تھا کہ اس کی لاش کو نکال کر لٹکایا جائے۔ اگر جج حضرات اگر تو مستقلا یہ فیصلے دیتے رہتے تو شاید ماارشل لا نہ لگتا۔ ہر مارشل لاءکو انہی ججوں نے ویلڈ قرار دیا اور یہ ہر مارشل لا درست قرار دیتے رہے پرویز مشرف نے کہا کہ میں نے ایمرجنسی والا فیصلہ تن تنہا نہیں کیا میرے ساتھ وزیر قانون تھے میرے ساتھ سارے لوگ تھے پارلیمنٹ تھی ان کی بات نظر انداز کر دی گئی۔ جب یہ معاملہ جوڈیشل کونسل میں جائے گا تو یہ انڈو ہو جائے گا۔