لاہور (ویب ڈیسک) منہاج یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف لینگوئجز اور صدر شعبہ اردو،معروف دانشور ، ادیب ، شاعر ، محقق اور استاداورپروفیسر ڈاکٹر مختار احمد عزمی نے کہا ہے کہ پاکستان میں سرکار ی سطح پر اردو کے نفاذمیں بیوروکریسی رکاوٹ ہے۔تفصیلات کے مطابق ”روز نامہ پاکستان “سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر مختار احمدعزمی نے کہا کہ میں نے ابتدائی وثانوی تعلیم تلمبہ سے حاصل کی جہاں میر ے ننہال تھے اور پھر ملتان گورنمٹ کالج میں پڑھتے رہے ،بہا?لدین ذکریا ملتان یونیورسٹی میں ہم پہلے طالب علموں میں سے تھے جہاں مجھے طلبہ کی قیادت کاموقع بھی ملا۔وہاں میں نے اپنے آ پ کو ایک طالب علم لیڈر کے طور پر خود کو منوایا،اس کے علاوہ میں یونیورسٹی میں ایک مضمون نگار ، خطیب اور ایک اچھے طالبعلم کے طور پر بھی مشہور تھا۔اس کے بعد میں نے پنجاب پبلک سرورس کمیشن کا امتحان دیا اور ٹاپ کیا۔اس کے بعد میں نے خواجہ فریدگورنمنٹ کالج رحیم یار خان سے بطور لیکچرر عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اس کے بعد میں اسسٹنٹ پروفیسر ، پھر ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پھر پروفیسر بن کر ریٹائر ڈ ہوا ، میری جوانی اور عملی زندگی کے واقعات رحیم یار خان سے ہی منسلک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرا رزق منہاج یونیورسٹی میں لکھا تھا تو میں یہاں آگیا ، پہلے وزٹنگ پروفیسر اور پھر مجھے شعبہ اردو کا ہیڈ بنادیا گیا ،اس کے علاوہ ڈین فیکلٹی آف لینگوئجز اور انتظامیہ کی جانب سے بہت سی ذمہ داریاں میرے سپرد کردی گئیں۔زندگی میں حاصل کی گئی کامیابیوں کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں نے بطور استاد کے اپنی ایک شناخت بنائی ہے اور ایک اچھے استاد کے طور پر ، آپ حیران ہونگے کے ایک استاد بننے کیلئے میں ایک بہت منفعت بخش عہدہ چھوڑ کر اس پیشے سے منسلک ہوا، تعلیم تدریس میرا جنون ہے اور مجھے اس پیشے کے ساتھ عشق ہے کیونکہ یہ میرے آقا ? کا پسندیدہ شعبہ ہے۔آپ ? نے فرمایا کہ ”مجھے تو معلم ہی بنا کربھیجا گیا ہے“تو میں نے اپنی ساری زندگی تعلیم میں کھپائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس شعبے کے اندر بہت عزت دی ہے اور بات درست نہیں کہ اس دور میں استاد کا احترام کم ہورہا ہے۔شعبہ تعلیم مجھے اتناراس آیا کہ میں نے دعا مانگی کے میرا بیٹا بھی اس شعبے میں آئے اور وہ بھی اب اس شعبے میں آیاہے۔پروفیسرڈاکٹر مختار عزمی کا کہنا تھا کہ میں نے ساری زندگی بقول شاعر”کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام؟“مجھے تو تعلیم کے علاوہ اور کوئی کام بھی نہیں آتا ، تعلیم میرا عشق اورجنون ہے اور اسی کے صدقے اللہ پاک نے مجھے اتنا نوازا ہے کہ میرے پاس بیان کرنے کیلئے الفاظ نہیں ہے۔ عملی زندگی میں حاصل کئے گئے اعزازات اور ایوارڈ سے متعلق انہوں نے بتایا کہ پبلک سروس کمیشن میں ٹاپ کرنا بھی ایک اعزاز تھا ، اس کے علاوہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا ،آج سے اٹھائیس برس پہلے میں نے پی ایچ ڈی کرلی تھی۔اب سوچتا ہوں کہ وہ خواب تو نہیں تھا ، ڈاکٹر جمیل جالبی اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو روشن کرے ،وہ ہمارے استاد تھے ، اوریا مقبول جان اور پروین شاکر ہمارے بیج میں تھیں۔زمانہ طالب علمی میں یونیورسٹی کے مقابلے میں صدر پاکستان چودھری فضل الہٰی سے گولڈ میڈل حاصل کیا،مضمون نگاری میں گورنر پنجاب سے انعام لیا ، دانش سکول کے آئیڈیا کو پروموٹ کیا جس پر وزیر اعلیٰ نے انعام دیا، کچھ عرصہ پہلے پاکستان بھر میں سلوگن کا مقابلہ ہوا تھا جس میں ”بچے دو ہی اچھے “ کی جگہ میں نے سلوگن دیا تھا کہ” کنبے کا اعتدال،معاشرہ ہوخوشحال“میرا دیا گیایہ سلوگن پاکستان بھر میں اول آیا جس پر وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے مجھے گولڈ میڈل ، ٹرافی اور نقد انعام ملا ، اس طرح بہت سے نعامات ہیں جو زندگی میں حاصل کئے۔قومی زبان اردو کے اب تک سرکاری سطح پررائنج ہونے سے متعلق سوال پر پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد عزمی کا کہناتھا کہ”اس بند گھر میں کیا کہوں کیسے طلسم ہیں؟ کھولے تھے جتنے قفل وہ ہونٹوں پہ پڑ گئے“ہمارے ہونٹ سل جاتے ہیں ، کیا کہیں کس سے گلہ کریں ؟لیکن اس کے باوجود ہم رجائیت کے حوالے سے سوچیں توبہت سارا سفر طے کر آئے ہیں۔پاکستان بننے کے بعد قومی زبان اردو کے سرکاری زبان بننے میں بیورو کریسی رکاوٹ رہی ہے۔یہ رکاوٹ بھی اللہ کے فضل سے دور ہوجائیگی جب بانی پاکستان نے فرما دیا ، سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے اور سارے وسائل بھی موجود ہیں ، آئین پاکستان میں بھی لکھا ہواہے کہ سرکار ی زبان اردو ہوگی تو کب تک بیورو کریسی اردو کے اس کے حق سے محروم کرے گی ، آخر ان کو اردو کاحق دینا پڑے گا اور جب اردو کوحق ملے گا تو پھر جرمنی ،چین، جاپان اور اٹلی کی طرح نیا پاکستان نکلے گا۔وہ تمام ملک جنہوں نے اپنی قومی زبان میں ترقی کی اور اس وقت دنیا میں صف اول میں ہیں ، اس طرح پاکستان بھی اردو کو بطور سرکار ی زبان اپنا کردنیا میں صف اول میں آئے گا اوراردوکا اس کاجائز مقام ملے گا۔ یونیورسٹیوں میں منشیات کااستعمال عام ہونے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر اس رجحان میںا ضافہ ہواہے لیکن اس میں ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگ منشیات استعمال نہیں کرناچاہتے لیکن جو لوگ منشیات پھیلانا چاہتے ہیں ، وہ طلبہ کو زبردستی عادی بناتے ہیں تو ان لوگوں کوپکڑا جاناچاہئے جو بڑے مگر مچھ ہیں اور منشیات کو پھیلا رہے ہیں۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے ایسے لوگوں کوگولی ماردی جائے ، اس کے اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ”ذرانم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“ہماری قوم میں بڑا پوٹینشل ہے ، اس قوم سے کرکٹ اور ہاکی ٹیمیں نکلتی ہیں ، ابھی ہمارے منہاج یونیورسٹی کے طلبہ نے کھیلوں میں عالمی ریکارڈ قائم کیاہے۔ڈاکٹر مختار عزمی نے تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں کے حوالے سے کہا کہ میں براہ راست موجودہ حکومت کے حوالے سے کچھ نہیں کہنا سکتا کیونکہ یہ میرا منصب نہیں ہے ، ویسے میں سمجھتا ہوں کہ اساتذہ کوسیاست کی سد بد ہونی چاہئے ، دلچسپی لینی چاہئے ، یورپ اور امریکہ کا سٹائل یہ ہے کہ وہاں یونیورسٹیاں پالیسی بناتی ہے اورحکومتیں عمل در آمد کرتی ہیں،حکومت پالیسی نہیں بناتی ، یہ پالیسی تحقیق کے بعد یونیوسٹیاں بناتی ہیں لیکن ہمارے ہاں یونیورسٹیوں کواہمیت نہیں دی جاتی کہ ان سے کہا جائے کہ پالیسی بنا?، پالیسیاں بنانے کیلئے یونیورسٹیوں کو بڑی ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے منہاج یونیورسٹی میں ایک یورپین اور ویسٹرن سٹائل متعارف کروایاہے ،وہ ایک استاد ہیں ، لیکچر دیتے ہیں ،قر آن کی تفسیر لکھتے ہیں، سیرة النبی? لکھتے ہیں اور ابھی قر آنی انسائیکلوپیڈیا لکھا ہے لیکن ان کو کتنی محنت کرنی پڑتی ہوگی کہ اپنی اتنی مصروفیت سے وقت نکال کر وہ حکومتی پالیسیوں پر بھی تنقید کرتے ہیں اور ان پالیسیوں کو ایک رخ دیتے ہیں اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ طاہر القادری کی چار سال پہلے کی گئی باتیں آج سچ ثابت ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے حوالے سے کچھ اڑتی اڑتی خبریں سنی ہیں کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی الا?نسز کم کئے جارہے ہیں لیکن ابھی ہوا نہیں ، یہ افواہیں ہی تھیں، ہم حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ تعلیم کیلئے بجٹ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیاجائے۔ حکومت کی بہت سے اچھی چیزیں بھی سامنے آرہی ہیں جو تعلیم کے حوالے سے ہیں ، ہم ان کی تعریف کریں گے اور امید ہے کہ آنے والے وقت میں یہ معاملات مزید ٹھیک ہوجائیں گے۔ زیر تعلیم طلبہ کے نام اپنے پیغام میں ڈاکٹر مختار احمد عزمی کا کہنا تھا کہ میری زندگی طلبہ کیلئے ایک روشن مثال ہے کہ ناگفتہ بہ حالات کے باوجودکبھی ہمت نہیں ہاری اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ نے اس محنت کے صدقے میں بہت نواز ا ہے۔ میں نوجوانوں سے بھی یہی کہوں گا کہ محنت کریں ، ہمت نہ ہاریں ، مایوسی کاشکار نہ ہوںاور زرق حلال کی تمنا کریں ، مسلسل کام کرتے رہیں گے تو اللہ پاک نوجوانوں کو بہت نوازے گا ، اللہ پاک کی اس سے بڑی کیا نعت ہوگی کہ ہم کو آزادی عطا فرما دی تو نوجوانوں نے آگے بڑھناہے ، اپنی قوم کی رہنمائی کرنی ہے اور دنیا کو امن و آشتی کا پیغام دینا ہے۔”روزنامہ پاکستان “کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمان شامی اورایڈیٹر عمر مجیب شامی سے اظہار عقیدت کرتے ہوئے ڈاکٹر مختار عزمی کا کہنا تھا کہ میرا اور روزنامہ پاکستان کاجنم جنم کا ساتھ ہے ، جب یہ اخبار شروع ہواتو میں نے اس کاپہلا پرچہ خریدا تھا اوراب تک روزنامہ پاکستان کا مستقل قاری ہوں۔