تازہ تر ین

انڈیا نے آسام میں بسنے والے 19 لاکھ افراد کو غیر ملکی قرار دے دیا

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں 19 لاکھ سے زائد افراد کے انڈین شہری ہونے کے دعوو¿ں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔حکام نے انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں بسنے والے 19 لاکھ سے زائد افراد کی شہریت کو ختم کرتے ہوئے انھیں ’غیر قانونی غیر ملکی‘ قرار دے دیا ہے۔یہ 19 لاکھ افراد ان 40 لاکھ سے زائد باشندوں میں سے تھے جن کے بارے میں انڈین حکومت نے سنیچر (آج) فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ 31 اگست کے بعد انڈیا کے شہری شمار کیے جائیں گے یا نہیں۔آج انڈیا کی حکومت نے آسام میں اس حوالے سے حتمی فہرست جاری کی ہے۔گذشتہ برس ریاست کے شہریوں کی ایک عبوری فہرست جاری کی گئی تھی جس میں 40 لاکھ سے زیادہ باشندوں کو بطور انڈین شہری قبول نہیں کیا گیا تھا جس کے بعد ان باشندوں نے اپنی شہریت کے ثبوت کے طور پر اضافی دستاویزات جمع کروائی تھیں۔اس متنارع اقدام کی وجہ کیا ہے اور اس کے بعد کیا ہو سکتا ہے۔

آسام میں شہریت کی فہرست کیوں؟
آسام بنگلہ دیش سے ملحقہ ریاست ہے۔ ریاست کی مجموعی آبادی تین کروڑ 29 لاکھ ہے۔ آبادی میں 34 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں اور ان میں سے تقریباً 70 لاکھ بنگالی نڑاد ہیں۔ مسلمانوں میں بیشتر غریب، ناخواندہ اورچھوٹے کسان ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 50 لاکھ بنگالی ہندو بھی ریاست میں رہتے ہیں۔نامہ نگار کے مطابق یہاں بنگلہ دیش سے غیر قانونی نقل امکانی کے خدشات طویل عرصے سے موجود ہیں۔ بی جے پی اور بعض مقامی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ریاست میں لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی بنگلہ دیشی آ کر آباد ہو گئے ہیں۔ریاست کے شہریوں کی پہلی فہرست جسے باضابطہ طور پر نیشنل رجسٹر آف سٹیزن یا این آر سی کے نام سے جانا جاتا ہے تقسیم ہند کے محض چار سال بعد سنہ 1951 میں اس وقت شائع کی گئی تھی جب لاکھوں افراد مشرقی بنگال کے پاکستان کا حصہ بننے کے بعد انڈیا میں داخل ہوئے تھے۔اس فہرست کو آسام میں قوم پرست گروہوں کے مطالبات کے بعد تیار کیا گیا تھا جو ریاست میں مسلمان تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے ہندو اکثریت کے اقلیت میں تبدیل ہونے کے امکان سے خوفزدہ تھے۔لیکن یہ مسئلہ سنہ 1970 کی دہائی میں دوبارہ اس وقت سامنے آیا جب بنگلہ دیش نے اپنا آزادی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ایک تلخ جنگ چھڑی اور پھر لاکھوں افراد پڑوسی ملک انڈیا نقل مکانی کر گئے جن میں سے متعدد پناہ گزین آسام میں جا کر آباد ہو گئے۔سنہ 1979 میں آل آسام سٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) کی زیرِ قیادت غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف تحریک چلائی گئی۔ سنہ 1983 میں یہ احتجاجی تحریک اس وقت پرتشدد ہو گئی جب مختلف مقامات پر ہجوم نے دو ہزار سے زیادہ مشتبہ تارکینِ وطن کو ہلاک کر دیا جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔اے اے ایس یو اور کچھ دیگر علاقائی گروپوں نے بالاخر سنہ 1985 میں اس وقت کے انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی کی سربراہی میں وفاقی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے۔اس معاہدے میں کہا گیا تھا کہ جو بھی شخص 24 مارچ سنہ 1971 تک یہ ثابت نہیں کر سکا کہ وہ آسام میں رہ رہا تھا اسے انتخابی فہرستوں سے نکال دیا جائے گا اور غیر قانونی تارک وطن سمجھا جائے گا۔لیکن اس معاہدے پر کبھی عمل نہیں ہوا۔

اس فہرست کو اتنے عرصے بعد اپ ڈیٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟
سنہ 2009 میں ابھیجیت شرما نامی شخص نے انڈین سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔عدالت نے سنہ 2014 میں وفاقی حکومت کو 31 جنوری سنہ 2016 تک ایسا کرنے کی ہدایت کی۔تاہم اس مشق کی وسعت کو دیکھتے ہوئے جس میں 32 ملین سے زیادہ افراد سے متعلق دستاویزات کی تصدیق شامل تھی، این آر سی کا پہلا مسودہ دسمبر سنہ 2017 میں شائع ہوا۔اس کا دوسرا مسودہ 30 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔
اس فہرست میں کون شامل ہے؟
این آر سی کی فہرست میں ان لوگوں کے نام شامل ہیں جو یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ وہ 24 مارچ 1971 کو یا اس سے پہلے آسام پہنچے تھے۔ریاست کے ہر فرد کو شہریت سے متعلق اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے دستاویزات پیش کرنا پڑتی تھیں جن میں زمین اور کرایہ داری ریکارڈ ، ووٹر کی شناخت یا پاسپورٹ شامل ہیں۔سنہ 1971 کے بعد پیدا ہونے والے افراد سے دستاویزات پیش کرنے کو کہا گیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے والدین یا دادا دادی تاریخ سے پہلے ہی انڈیا میں آباد ہوگئے تھے۔فہرست کے ابتدائی مسودے میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ریاست کے تین کروڑ 29 لاکھ شہریوں میں سے دو کروڑ 89 لاکھ ‘مصدقہ شہری’ ہیں۔تقریباً 40 لاکھ افراد اس فہرست میں جگہ نہیں بنا پائے۔ہٰذا ان کے نام انتخابی فہرستوں سے حذف ہو سکتے ہیں اور اب وہ قانونی شہری نہیں مانے جاتے ہیں۔ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی شہریت کے دعوے کے حق میں اضافی شواہد پیش کریں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے تقریباً 36 لاکھ 20 ہزار افراد نے مزید دستاویزات جمع کروائی ہیں۔حکام نے روا برس 26 جون کو اعلان کیا کہ آسام کے دیگر ایک لاکھ باشندوں کو جنھیں گذشتہ سال این آر سی میں شامل کیا گیا تھا، اب رجسٹر سے خارج کر دیا گیا ہے اور انھیں دوبارہ اپنی شہریت ثابت کرنی ہو گی۔یہ بھی الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ این آر سی اتھارٹی مختصر نوٹس جاری کر کے ابتدائی فہرست سے خارج شدہ متعدد افراد کو خوفزدہ کر رہی ہے اور انھیں تصدیق کے لیے دور دراز علاقوں میں واقع دفاتر میں حاضر ہونے کا حکم دے رہی ہے۔انڈین سپریم کورٹ کی زیرِ نگرانی اس فہرست کو اپ ڈیٹ کرنے کا عمل اب ختم ہونے کو ہے کیونکہ این آر سی کی حتمی فہرست 31 اگست کو شائع ہونی ہے۔

ردِعمل کیا رہا ہے؟
اس سلسلے میں ردِ عمل ملا جلا رہا ہے۔ ملک بھر میں ہندوو¿ں کی بڑی تعداد نے اسے ایک جرات مندانہ اقدام قرار دیا ہے اور حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک ایسے کام کے لیے تعریف کی ہے بقول ان کے جسے کرنے کی دوسری ریاستی حکومتوں میں ’ہمت‘ نہیں تھی۔لیکن انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم نریندر مودی کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خاندانوں کو الگ کر رہے ہیں اور لاکھوں لوگوں کو راتوں رات درحقیقت بےریاست بنا رہے ہیں۔انڈیا کے اپوزیشن رہنما اور کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی نے کہا ہے کہ اس فہرست نے لوگوں میں ’بڑہے پیمانے پر عدم تحفظ‘ پیدا کر دیا ہے۔آسام کی ہمسایہ ریاست مغربی بنگال کی وزیراعلی ممتا بنرجی اس کی سب سے زیادہ نقاد رہی ہیں۔ انھوں نے ’خون خرابے‘ کی پیش گوئی کی اور کہا کہ اس عمل سے جمہوریت کا مذاق اڑ رہا ہے۔لیکن حکام اس بات پر مصر ہیں کہ یہ عمل ’مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنانے کے لیے نہیں۔‘ این آر سی کے سربراہ پرتیک ہجیلا نے نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس فہرست سے نکالے جانے والے افراد ’مختلف مذاہب اور مختلف گروہوں‘ کے لوگ تھے۔جہاں تک مقامی لوگوں کا تعلق ہے آسام میں این آر سی اپ ڈیٹ کرنے کے عمل کو ریاست کی اکثریت دیسی آسامی آبادی کی حمایت حاصل ہے۔اگرچہ آسامی زبان اس آبادی کی شاید سب سے عام زبان ہے لیکن وہاں کوئی مشترکہ مذہبی شناخت نہیں ہے۔ مقامی لوگوں میں بنیادی طور پر اکثریتی ہندو اور مسلمان شامل ہیں۔مقامی ہندو بہت زیادہ حد تک این آر سی کے عمل کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں لیکن ریاست کی مقامی مسلمان آبادی عام طور پر بہت زیادہ محتاط نظر آتی ہے اس خوف سے کہ وہ اپنے مذہب کی وجہ سے انھیں بنگلہ دیشی غیر ملکی قرار دیا جا سکتا ہے۔ان کا خوف سخت گیر ہندو قوم پرست حکومت کی بیان بازی کی وجہ سے ہے جس کے رہنما نے مسلم ہندو تارکین وطن کے لیے اپنی ترجیحات پوشیدہ نہیں رکھی ہیں۔

اب تک فہرست کی تیاری کا عمل کیسا رہا ہے؟
این آر سی نے پہلے ہی کچھ حیرت انگیز نتائج پیش کیے ہیں۔ سابق فوجی ملازمین، موجودہ سیاسی رہنماو¿ں یہاں تک کہ کچھ سرکاری ملازمین جن میں سے ایک کو این آر سی کو مرتب کرنے کی ذمہ داری دی گئی، انھیں بھی اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ہجے کی معمولی غلطیاں دستاویزات کو مسترد کرنے کا باعث بنی ہیں اور کچھ خاندانوں میں ایک بھائی اس فہرست میں شامل ہے تو دوسرا جگہ نہیں بنا سکا۔آسام میں سیلاب کی بھی تاریخ ہے جس کا مطلب ہے کہ بہت سے خاندانوں نے اکثر دیگر سامان کے ساتھ سرکاری دستاویزات کھوئے ہیں جبکہ کچھ خاندان ناقص ریکارڈ رکھنے، ناخواندگی یا قانونی دعوے دائر کرنے کے لیے رقم کی کمی کی وجہ سے دستاویزات پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ان میں سے کچھ افراد کے رشتے داروں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ غیر یقینی صورتحال کے تناو¿ کو برداشت نہیں کر سکے اور اس لیے انھوں نے اپنی جان بھی لی ہے۔سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی تنظیم کے زمسار علی نے آسام میں اس طرح کی 51 خود کشیوں کی فہرست فراہم کی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعات شہریت کے متوقع نقصان پر ’صدمے اور تناو¿‘ سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ زیادہ تر خودکشیوں کے واقعات جنوری سنہ 2018 کے بعد ہوئے جب اپ ڈیٹ کیے گئے شہریت رجسٹر کا پہلا مسودہ منظرِ عام پر آیا۔

کیا بڑے پیمانے پر ملک بدری ہو گی؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے لیکن اس وقت اس کا امکان بھی نہیں ہے۔این آر سی سے خارج ہونے والے افراد خود بخود شہریت سے محروم نہیں ہوں گے بلکہ انھیں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے 120 دن ملیں گے۔مودی حکومت کا کہنا ہے کہ غیر ملکی قرار دیے جانے والے تمام ہندو بودھ اور دیگر مزاہب کے لوگوں کو تو شہریت دی جائے گی لیکن غیر ملکی قرار پانے والے مسلمانوں کو وہ شہریت نہیں دے گی۔بی بی سی کے نامہ نگار سوتک بسواس کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش ’یقینی طور پر اس طرح کی درخواست قبول نہیں کرے گا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ انڈیا ’میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے ریاست لوگوں کا نیا گروہ پیدا کرے گا۔‘حقوق انسانی کے کارکنوں اور اقوام متحدہ شہریت کے اس عمل پر تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاکھوں لوگوں کو شہریت اور قومیت سے بے دخل کرنے سے آسام ایک سنگین انسانی المیے کی طرف بڑھ رہا ہے۔این آر سی یا سرحد پار غیر قانونی امیگریشن کے سلسلے میں انڈیا کا بنگلہ دیش سے کوئی سرکاری معاہدہ نہیں ہے۔علاقائی سلامتی کے ماہر شیشادری چاری کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش نے ہمیشہ کہا ہے کہ این آر سی ایک ’اندرونی معاملہ ہے نہ کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی مسئلہ‘۔انھوں نے مزید کہا ’یہ بنگلہ دیش کے ان غیر قانونی تارکین وطن کو بھی قبول نہیں کرنے کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے جنھیں انڈیا جلاوطن کرنا چاہتا ہے۔ان لوگوں کے تحفظ کے بارے میں بھی تشویش پائی جاتی ہے جن کے نام فہرست میں شامل نہیں۔ اگرچہ حکومت نے ان کی مذہبی شناخت کے بارے میں کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے لیکن ان میں اکثریت کو بنگالی بولنے والا مسلمان سمجھا جاتا ہے۔31 اگست کے بعد ایسے افراد کا تحفظ ایک مسئلہ بن سکتا ہے اور مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق انڈین حکومت سے اس سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔حکومت نے حراستی مرکز اور اپیلیں سننے کے لیے سینکڑوں ٹرائبیونلز قائم کر رہی ہے جبکہ ایک ایسا مرکزی ڈیٹابیس بھی تیار کیا جا رہا ہے جس میں غیرملکی قرار دیے جانے والے افراد کی معلومات رکھی جائیں گی۔آسام سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر صحافی راجیو بھٹاچاریہ کے مطابق این آر سی کی حتمی فہرست کے سامنے آنے کے بعد آسام میں ’دور رس نتائج کے حامل اقدامات کی ضرورت ہو گی۔‘ ان کے مطابق حکومت کے پاس غیرملکی قرار دیے جانے والے افراد کے لیے کوئی منصوبہ نہیں کیونکہ انھیں بنگلہ دیش بھیجنے کے امکانات بہت موہوم ہیں۔

جب حتمی فہرست آئے گی تو کیا ہوگا؟
بی بی سی کے نتن شریواستو کے مطابق حتمی فہرست تمام اپیلیوں کی سماعت کے بعد شائع کی جائے گی اور 31 اگست کے بعد فہرست کے کوائف چیلنج کرنے پر پرتشدد واقعات کا خدشہ موجود ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی زمین، ووٹ ڈالنے کا حق اور آزادی تک چھن جانے کے خطرات سے دوچار ہوں گے۔انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں 19 لاکھ سے زائد افراد کے انڈین شہری ہونے کے دعوو¿ں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
حکام نے انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں بسنے والے 19 لاکھ سے زائد افراد کی شہریت کو ختم کرتے ہوئے انھیں ’غیر قانونی غیر ملکی‘ قرار دے دیا ہے۔یہ 19 لاکھ افراد ان 40 لاکھ سے زائد باشندوں میں سے تھے جن کے بارے میں انڈین حکومت نے سنیچر (آج) فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ 31 اگست کے بعد انڈیا کے شہری شمار کیے جائیں گے یا نہیں۔آج انڈیا کی حکومت نے آسام میں اس حوالے سے حتمی فہرست جاری کی ہے۔

گذشتہ برس ریاست کے شہریوں کی ایک عبوری فہرست جاری کی گئی تھی جس میں 40 لاکھ سے زیادہ باشندوں کو بطور انڈین شہری قبول نہیں کیا گیا تھا جس کے بعد ان باشندوں نے اپنی شہریت کے ثبوت کے طور پر اضافی دستاویزات جمع کروائی تھیں۔اس متنارع اقدام کی وجہ کیا ہے اور اس کے بعد کیا ہو سکتا ہے۔

آسام میں شہریت کی فہرست کیوں؟
آسام بنگلہ دیش سے ملحقہ ریاست ہے۔ ریاست کی مجموعی آبادی تین کروڑ 29 لاکھ ہے۔ آبادی میں 34 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں اور ان میں سے تقریباً 70 لاکھ بنگالی نڑاد ہیں۔ مسلمانوں میں بیشتر غریب، ناخواندہ اورچھوٹے کسان ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 50 لاکھ بنگالی ہندو بھی ریاست میں رہتے ہیں۔نامہ نگار کے مطابق یہاں بنگلہ دیش سے غیر قانونی نقل امکانی کے خدشات طویل عرصے سے موجود ہیں۔ بی جے پی اور بعض مقامی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ریاست میں لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی بنگلہ دیشی آ کر آباد ہو گئے ہیں۔ریاست کے شہریوں کی پہلی فہرست جسے باضابطہ طور پر نیشنل رجسٹر آف سٹیزن یا این آر سی کے نام سے جانا جاتا ہے تقسیم ہند کے محض چار سال بعد سنہ 1951 میں اس وقت شائع کی گئی تھی جب لاکھوں افراد مشرقی بنگال کے پاکستان کا حصہ بننے کے بعد انڈیا میں داخل ہوئے تھے۔اس فہرست کو آسام میں قوم پرست گروہوں کے مطالبات کے بعد تیار کیا گیا تھا جو ریاست میں مسلمان تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے ہندو اکثریت کے اقلیت میں تبدیل ہونے کے امکان سے خوفزدہ تھے۔لیکن یہ مسئلہ سنہ 1970 کی دہائی میں دوبارہ اس وقت سامنے آیا جب بنگلہ دیش نے اپنا آزادی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ایک تلخ جنگ چھڑی اور پھر لاکھوں افراد پڑوسی ملک انڈیا نقل مکانی کر گئے جن میں سے متعدد پناہ گزین آسام میں جا کر آباد ہو گئے۔سنہ 1979 میں آل آسام سٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) کی زیرِ قیادت غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف تحریک چلائی گئی۔ سنہ 1983 میں یہ احتجاجی تحریک اس وقت پرتشدد ہو گئی جب مختلف مقامات پر ہجوم نے دو ہزار سے زیادہ مشتبہ تارکینِ وطن کو ہلاک کر دیا جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔اے اے ایس یو اور کچھ دیگر علاقائی گروپوں نے بالاخر سنہ 1985 میں اس وقت کے انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی کی سربراہی میں وفاقی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے۔اس معاہدے میں کہا گیا تھا کہ جو بھی شخص 24 مارچ سنہ 1971 تک یہ ثابت نہیں کر سکا کہ وہ آسام میں رہ رہا تھا اسے انتخابی فہرستوں سے نکال دیا جائے گا اور غیر قانونی تارک وطن سمجھا جائے گا۔لیکن اس معاہدے پر کبھی عمل نہیں ہوا۔

اس فہرست کو اتنے عرصے بعد اپ ڈیٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟
سنہ 2009 میں ابھیجیت شرما نامی شخص نے انڈین سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔عدالت نے سنہ 2014 میں وفاقی حکومت کو 31 جنوری سنہ 2016 تک ایسا کرنے کی ہدایت کی۔تاہم اس مشق کی وسعت کو دیکھتے ہوئے جس میں 32 ملین سے زیادہ افراد سے متعلق دستاویزات کی تصدیق شامل تھی، این آر سی کا پہلا مسودہ دسمبر سنہ 2017 میں شائع ہوا۔اس کا دوسرا مسودہ 30 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

اس فہرست میں کون شامل ہے؟
این آر سی کی فہرست میں ان لوگوں کے نام شامل ہیں جو یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ وہ 24 مارچ 1971 کو یا اس سے پہلے آسام پہنچے تھے۔ریاست کے ہر فرد کو شہریت سے متعلق اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے دستاویزات پیش کرنا پڑتی تھیں جن میں زمین اور کرایہ داری ریکارڈ ، ووٹر کی شناخت یا پاسپورٹ شامل ہیں۔سنہ 1971 کے بعد پیدا ہونے والے افراد سے دستاویزات پیش کرنے کو کہا گیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے والدین یا دادا دادی تاریخ سے پہلے ہی انڈیا میں آباد ہوگئے تھے۔فہرست کے ابتدائی مسودے میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ریاست کے تین کروڑ 29 لاکھ شہریوں میں سے دو کروڑ 89 لاکھ ‘مصدقہ شہری’ ہیں۔تقریباً 40 لاکھ افراد اس فہرست میں جگہ نہیں بنا پائے۔لہٰذا ان کے نام انتخابی فہرستوں سے حذف ہو سکتے ہیں اور اب وہ قانونی شہری نہیں مانے جاتے ہیں۔ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی شہریت کے دعوے کے حق میں اضافی شواہد پیش کریں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے تقریباً 36 لاکھ 20 ہزار افراد نے مزید دستاویزات جمع کروائی ہیں۔حکام نے رواں برس 26 جون کو اعلان کیا کہ آسام کے دیگر ایک لاکھ باشندوں کو جنھیں گذشتہ سال این آر سی میں شامل کیا گیا تھا، اب رجسٹر سے خارج کر دیا گیا ہے اور انھیں دوبارہ اپنی شہریت ثابت کرنی ہو گی۔یہ بھی الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ این آر سی اتھارٹی مختصر نوٹس جاری کر کے ابتدائی فہرست سے خارج شدہ متعدد افراد کو خوفزدہ کر رہی ہے اور انھیں تصدیق کے لیے دور دراز علاقوں میں واقع دفاتر میں حاضر ہونے کا حکم دے رہی ہے۔انڈین سپریم کورٹ کی زیرِ نگرانی اس فہرست کو اپ ڈیٹ کرنے کا عمل اب ختم ہونے کو ہے کیونکہ این آر سی کی حتمی فہرست 31 اگست کو شائع ہونی ہے۔

ردِعمل کیا رہا ہے؟
اس سلسلے میں ردِ عمل ملا جلا رہا ہے۔ ملک بھر میں ہندوو¿ں کی بڑی تعداد نے اسے ایک جرات مندانہ اقدام قرار دیا ہے اور حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک ایسے کام کے لیے تعریف کی ہے بقول ان کے جسے کرنے کی دوسری ریاستی حکومتوں میں ’ہمت‘ نہیں تھی۔لیکن انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم نریندر مودی کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خاندانوں کو الگ کر رہے ہیں اور لاکھوں لوگوں کو راتوں رات درحقیقت بےریاست بنا رہے ہیں۔انڈیا کے اپوزیشن رہنما اور کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی نے کہا ہے کہ اس فہرست نے لوگوں میں ’بڑہے پیمانے پر عدم تحفظ‘ پیدا کر دیا ہے۔آسام کی ہمسایہ ریاست مغربی بنگال کی وزیراعلی ممتا بنرجی اس کی سب سے زیادہ نقاد رہی ہیں۔ انھوں نے ’خون خرابے‘ کی پیش گوئی کی اور کہا کہ اس عمل سے جمہوریت کا مذاق اڑ رہا ہے۔لیکن حکام اس بات پر مصر ہیں کہ یہ عمل ’مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنانے کے لیے نہیں۔‘ این آر سی کے سربراہ پرتیک ہجیلا نے نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس فہرست سے نکالے جانے والے افراد ’مختلف مذاہب اور مختلف گروہوں‘ کے لوگ تھے۔جہاں تک مقامی لوگوں کا تعلق ہے آسام میں این آر سی اپ ڈیٹ کرنے کے عمل کو ریاست کی اکثریت دیسی آسامی آبادی کی حمایت حاصل ہے۔اگرچہ آسامی زبان اس آبادی کی شاید سب سے عام زبان ہے لیکن وہاں کوئی مشترکہ مذہبی شناخت نہیں ہے۔ مقامی لوگوں میں بنیادی طور پر اکثریتی ہندو اور مسلمان شامل ہیں۔مقامی ہندو بہت زیادہ حد تک این آر سی کے عمل کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں لیکن ریاست کی مقامی مسلمان آبادی عام طور پر بہت زیادہ محتاط نظر آتی ہے اس خوف سے کہ وہ اپنے مذہب کی وجہ سے انھیں بنگلہ دیشی غیر ملکی قرار دیا جا سکتا ہے۔ان کا خوف سخت گیر ہندو قوم پرست حکومت کی بیان بازی کی وجہ سے ہے جس کے رہنما نے مسلم ہندو تارکین وطن کے لیے اپنی ترجیحات پوشیدہ نہیں رکھی ہیں۔

اب تک فہرست کی تیاری کا عمل کیسا رہا ہے؟
این آر سی نے پہلے ہی کچھ حیرت انگیز نتائج پیش کیے ہیں۔ سابق فوجی ملازمین، موجودہ سیاسی رہنماو¿ں یہاں تک کہ کچھ سرکاری ملازمین جن میں سے ایک کو این آر سی کو مرتب کرنے کی ذمہ داری دی گئی، انھیں بھی اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ہجے کی معمولی غلطیاں دستاویزات کو مسترد کرنے کا باعث بنی ہیں اور کچھ خاندانوں میں ایک بھائی اس فہرست میں شامل ہے تو دوسرا جگہ نہیں بنا سکا۔آسام میں سیلاب کی بھی تاریخ ہے جس کا مطلب ہے کہ بہت سے خاندانوں نے اکثر دیگر سامان کے ساتھ سرکاری دستاویزات کھوئے ہیں جبکہ کچھ خاندان ناقص ریکارڈ رکھنے، ناخواندگی یا قانونی دعوے دائر کرنے کے لیے رقم کی کمی کی وجہ سے دستاویزات پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ان میں سے کچھ افراد کے رشتے داروں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ غیر یقینی صورتحال کے تناو¿ کو برداشت نہیں کر سکے اور اس لیے انھوں نے اپنی جان بھی لی ہے۔سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی تنظیم کے زمسار علی نے آسام میں اس طرح کی 51 خود کشیوں کی فہرست فراہم کی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعات شہریت کے متوقع نقصان پر ’صدمے اور تناو¿‘ سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ زیادہ تر خودکشیوں کے واقعات جنوری سنہ 2018 کے بعد ہوئے جب اپ ڈیٹ کیے گئے شہریت رجسٹر کا پہلا مسودہ منظرِ عام پر آیا۔

کیا بڑے پیمانے پر ملک بدری ہو گی؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے لیکن اس وقت اس کا امکان بھی نہیں ہے۔این آر سی سے خارج ہونے والے افراد خود بخود شہریت سے محروم نہیں ہوں گے بلکہ انھیں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے 120 دن ملیں گے۔مودی حکومت کا کہنا ہے کہ غیر ملکی قرار دیے جانے والے تمام ہندو بودھ اور دیگر مزاہب کے لوگوں کو تو شہریت دی جائے گی لیکن غیر ملکی قرار پانے والے مسلمانوں کو وہ شہریت نہیں دے گی۔بی بی سی کے نامہ نگار سوتک بسواس کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش ’یقینی طور پر اس طرح کی درخواست قبول نہیں کرے گا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ انڈیا ’میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے ریاست لوگوں کا نیا گروہ پیدا کرے گا۔حقوق انسانی کے کارکنوں اور اقوام متحدہ شہریت کے اس عمل پر تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاکھوں لوگوں کو شہریت اور قومیت سے بے دخل کرنے سے آسام ایک سنگین انسانی المیے کی طرف بڑھ رہا ہے۔این آر سی یا سرحد پار غیر قانونی امیگریشن کے سلسلے میں انڈیا کا بنگلہ دیش سے کوئی سرکاری معاہدہ نہیں ہے۔علاقائی سلامتی کے ماہر شیشادری چاری کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش نے ہمیشہ کہا ہے کہ این آر سی ایک ’اندرونی معاملہ ہے نہ کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی مسئلہ۔انھوں نے مزید کہا ’یہ بنگلہ دیش کے ان غیر قانونی تارکین وطن کو بھی قبول نہیں کرنے کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے جنھیں انڈیا جلاوطن کرنا چاہتا ہے۔ان لوگوں کے تحفظ کے بارے میں بھی تشویش پائی جاتی ہے جن کے نام فہرست میں شامل نہیں۔ اگرچہ حکومت نے ان کی مذہبی شناخت کے بارے میں کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے لیکن ان میں اکثریت کو بنگالی بولنے والا مسلمان سمجھا جاتا ہے۔31 اگست کے بعد ایسے افراد کا تحفظ ایک مسئلہ بن سکتا ہے اور مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق انڈین حکومت سے اس سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔حکومت نے حراستی مرکز اور اپیلیں سننے کے لیے سینکڑوں ٹرائبیونلز قائم کر رہی ہے جبکہ ایک ایسا مرکزی ڈیٹابیس بھی تیار کیا جا رہا ہے جس میں غیرملکی قرار دیے جانے والے افراد کی معلومات رکھی جائیں گی۔آسام سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر صحافی راجیو بھٹاچاریہ کے مطابق این آر سی کی حتمی فہرست کے سامنے آنے کے بعد آسام میں ’دور رس نتائج کے حامل اقدامات کی ضرورت ہو گی۔‘ ان کے مطابق حکومت کے پاس غیرملکی قرار دیے جانے والے افراد کے لیے کوئی منصوبہ نہیں کیونکہ انھیں بنگلہ دیش بھیجنے کے امکانات بہت موہوم ہیں۔
جب حتمی فہرست آئے گی تو کیا ہوگا؟
بی بی سی کے نتن شریواستو کے مطابق حتمی فہرست تمام اپیلیوں کی سماعت کے بعد شائع کی جائے گی اور 31 اگست کے بعد فہرست کے کوائف چیلنج کرنے پر پرتشدد واقعات کا خدشہ موجود ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی زمین، ووٹ ڈالنے کا حق اور آزادی تک چھن جانے کے خطرات سے دوچار ہوں گے۔



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv