اسلام آباد(ویب ڈیسک)قومی احتساب بیورو(نیب) کے قانون قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے ترمیمی بل کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کے لیے تیار ہے جس میں نجی شہریوں کو احتساب کے دائرہ کار سے خارج کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔نیب کے قانون میں پیش کی گئی تیسری ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ’ نیب قوانین کا اطلاق نجی شخص یا ادارے تک توسیع نہیں دی جاسکتا جس کا براہ راست یا بالوواسطہ سرکاری عہدے کے حامل شخص سے کوئی تعلق نہ ہو’۔وفاقی وزیر برائے قانون اور انصاف ڈاکٹر فروغ نسیم نے 22 اگست کو ایک پریس کانفرنس میں نجی شہریوں کی تحقیقات سے متعلق ا نیب کے اختیارات ختم کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔اس حوالے سے ذرائع کو موصول نیب قانون کے ترمیمی مسودے کی کاپی میں دیگر 10 تجاویز بھی شامل ہیں۔ترمیمی بل میں تجویز دی گئی ہے کہ ٹرائل اور احتساب عدالتوں کو قبل از گرفتاری اور بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواستوں کا فیصلہ کرنے کے اختیارات حاصل ہوسکیں گے۔قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے تحت نیب کے ملزم کو ضمانت دینے کی کوئی شق شامل نہیں ہے جس کے نتیجے میں ملزم کو ضمانت کے لیے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنی پڑتی ہے۔خیال رہے کہ جب قانون کے تحت کوئی حل موجود نہ ہو تو ایک شہری آرٹیکل 199 کے تحت متعلق ہائی کورٹ میں بنیادی حقوق کے لیے درخواست دائر کرسکتا ہے۔مسودے میں غبن کی رقم کی رضاکارانہ واپسی اور پلی بارگین کے تحت ملزم کی رہائی سے متعلق ترمیم بھی پیش کی گئی ہیں، اس میں تجویز دی گئی ہے کہ :
پلی بارگین کے ملزم کی درخواست کی منظوری وزیر اعظم کی قائم کردہ کمیٹی دے سکے گی۔
چوری شدہ رقم کی رضاکارانہ واپسی اور پل بارگین کے لیے ہدایات جاری کی جائیں گی
پلی بارگین اور غبن کی رقم رضاکارانہ طور پر واپس کرنے ولاا ملزم 10 سال یا اس سے زائد عرصے تک سرکاری عہدے یا ملازمت کے لیے نااہل ہوسکتا ہے۔
ترمیمی بل کے مسودے میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ 50 کروڑ کی کرپشن پر بھی کارروائی کرنے کی اجازت متعارف کروائی جاسکتی ہے۔علاوہ ازیں ترمیمی قانون کے تحت غیر منقولہ جائیدادوں کے تخمینہ کا حساب ضلعی کلکٹر ریٹ یا وفاقی بورڈ برائے ریونیو (ایف بی آر) کے ریٹ میں سے جوزیادہ ہوگا اس سے کیا جائے گا۔نیب کے نئے قانون میں یہ عمل بھی زیرِغور آئے گا کہ عہدیداران کی کونسی کوتاہیاں جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔تجویز کردہ ترمیم میں کہا گیا کہ نیب کسی کام میں کوتاہی کو اس وقت تک جرم نہیں مانے گا جب تک اس حوالے سے شواہد موجود نہ ہو کہ عہدیدار نے اس کوتاہی یا فیصلے سے کسی کو مادی فائدہ پہنچایا ہے۔