تازہ تر ین

احساس پروگرام 20 فیصد بھی کامیاب ہو جائے تو بیروزگاری میں کمی آئیگی : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ احساس پروگرام کے تحت حکومت جو کچھ کرنے جا رہی ہے اگر اس میں10 فیصد، 20 بھی کامیابی ہو جائے تو بہت بڑی تبدیلی ہو گی اس لئے کہ آج سے پہلے جو حکومتیں آتی ہیں زیادہ زور دیا جاتا تھا بڑے قرضوں کی فراہمی پر یعنی بڑے بڑے میگا وینچر بنائے جائیں تا کہ ایک بندے کو منتخب کیا جائے یا ایک ادارے کو منتخب کیا جائے اور ایک دم سے دو سو کروڑ اس کو دے دیئے جائیں۔ تا کہ بہت زیادہ واپسی کے لئے بھاگ دوڑ کی محنت نہ رہے اور ون ٹو ون معاملہ چلتا رہے اس کی وجہ سے پھر مناپلی بھی چلتی تھی اور بہت ساری اجارہ داری پیدا ہو گئی اور جو عام چھوٹے بیروزگار نوجوان کے لئے کوئی چانس نہیں تھا میں یہ احساس پروگرام کے تحت ایک سہولت رکھی ہے کہ وہ اپنے چھوٹے درجے پر حکومت سے آسان شرائط پر لون لے سکے اور پھر اس کو اپنے کاروبار میں لگا کر چار پیسے خود کمائے اور جو اصل منافع بھی ادا کر سکے۔ یہ ایک بہتر سکیم ہے۔ ہمارے ہاں ماضی میں بھی اس قسم کی سکیمیں رہی ہیں ان کی نوعیت رہی ہے بے نظیر انکم سپورٹ کی طرح سے یعنی لوگوں کو بغیر کسی معاوضہ کے یا طلب کے ان میں پیسہ تقسیم کر دینا ضرورت مندوں کو یہ اچھی بات ہے اس سے میرا خیال ہے کہ زیادہ ضروری ہے کہ ایسے پیسے دیئے جائیں جو اپنے ساتھ اور آپ پیسے بھی لے کر آ سکیں وہ روزگار پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد دے نہ کہ وہ گھر بیٹھے ہوئے بھکاری بن جائیں۔ جمہوری نظام میں ایک جماعت حکومت میں ہوتی ہے ایک یا زیادہ جماعتیں اپوزیشن میں ہوتی ہیں اور ظاہر اپوزیشن کا کام حکومت پر تنقید کرنا ہوتا ہے اور حکومت کا کام اپوزیشن کو زیادہ سے زیادہ مطعون قرار دینا ہوتا ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ جو بیان بازی دونوں طرف سے ہوتی ہے اس کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے۔ اپوزیشن کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہے مثلاً شہباز شریف ذہین آدمی ہیں۔ وہ اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ رہے اور بہت سے کام بھی کئے ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کام ہی نہیں جانتے لیکن اس میں اب دیکھیں کہ کوئی کنٹری بیوشن ہے بطور لیڈر آف اپوزیشن کہ انہوں نے بجٹ میں ایسی تجاویز دی ہوں کوئی تبدیلیاں کروائی ہوں جس سے مسائل میں کمی پیدا ہو گئی ہو ان کا کوئی حصہ نظر آتی ہے۔ بطور اپوزیشن لیڈر کے یقینا نہیں ہے۔ اصل کام یہی ہے جس کی طرف بات ہو رہی ہے۔ اس میں کہاں تک کامیابی ہو گی مجھے نہیں معلوم ٹارگٹ بہت اچھا، سمت بھی بالکل صحیح ہے۔ضیا شاہد نے مصطفی کمال سے سوال کیا کہ پچھلے چند مہینوں سے سندھ میں جو صورتحال ہے آپ اکثر اپنی تقریروں میں اس طرف توجہ بھی دلاتے رہے ہیں لیکن تقریباً بالکل ایکسپوز ہو گئی ہے سندھ کی حکومت اور خاص طور پر اس کے جو اہم افراد جو تھے کہ ان کے خلاف مختلف قسم کی انکوائریاں ہو رہی ہیں منی لانڈرنگ اس میں سرفہرست ہے خود حکمران خاندان پیپلزپارٹی کا جو ہے وہ اس میں ملوث بتایا جاتا ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایک طرف کراچی پاکستان کا سب سے بیدار مغز اور سیاسی طور پر باشعور شہر ہے یہاں کے شہریوں کا جو آئی کیو لیول جو ہے اتنا زبردست ہے دوسری طرف سب سے زیادہ ظلم اور سب سے زیادہ ستم اور سب سے زیادہ لوٹ کھسوٹ اور سب سے زیادہ سرکاری املاک کا وسائل کا بے تحاشا طور پر ان کا اجاڑنا یہ چیز بھی کراچی میں ہی ہے آپ تو کراچی سے دونوں طرف رہے ہیں اپوزیشن میں رہے اور آپ نے مقامی حکومتوں کے سربراہ کے طور پر ساری چیزوں کو بہت قریب سے دیکھا یہ فرمایئے کہ پرابلم کہاں ہے۔ ضیا شاہد نے دوسرا سوال مصطفی کمال سے یہ کیا کہ سندھ کے معاملات میں خاص طور پر سندھ کی حکومت کے بارے میں جو اتنی شکایات سامنے آئی ہیں پھر جس طریقے سے اس پر دبا? بھی ہے اس کے نتیجے میں یہ بات بھی سنائی دیتی ہے کہ سندھ میں گورنر راج لگ رہا ہے اور بعض اوقات پیپلزپارٹی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس کی کوشش ہو رہی ہے کیا گورنر راج مسائل کا حل ہے کیا موجودہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر گورنر راج کی کوئی ضرورت ہے یا یہ ایک اور مصیبت کھڑی کرنے والی بات ہے۔ جہاں تک بلاول بھٹو زرداری کی تقاریر کا تعلق ہے اس وقت ان کی ٹریننگ ہو رہی ہے اور ایک نئے چیئرمین کے طور پر، ابھی تو وہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین تھے جب کہ اصل پاور پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین کے پاس ہے جس کے سربراہ آصف زرداری ہیں۔ یہ ان کا ٹریننگ پریڈ ہے دیکھتے ہیں نوجوان ہیں باصلاحیت آدمی ہیں دیکھنا ہے وہ جس حد تک لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں ابھی تک تو وہ بالکل غیر جانبدار طریقے سے دیکھا جائے تو کوئی بہت زیادہ ڈینٹ نہیں ڈال سکے وہ پاکستان کی سیاست ہیں۔ اگر یہ مریم نواز اور شاہد خاقان سے سرکاری گاڑیاں برآمد ہونے کے سوال پر ضیا شاہد نے کہا اگر ان کو سرکاری گاڑیاں استعمال کرنے کی گنجائش موجود بھی ہو تو بھی چلیں شاہد خاقان عباسی کو تو گاڑی مل گئی۔ لیکن وہ گاڑی اس وقت تک کے لئے ملنی چاہئے جس وقت وہ وزیراعظم تھے سوال یہ ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ ختم ہوئے ان کا اتنا وقت گزر گیا اب کس بنیاد پر ایک پلٹ پروف گاڑی رکھی ہوئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی سے بھی پہلے نوازشریف وزیراعظم پاکستان تھے ان کو گاڑیاں ملی تھیں۔ خود شاہد خاقان عباسی نے خود ہمارے پروگرام میں کیا یہ وزیراعظم کا استحقاق ہے کہ ان کو اور ان کے بچوں کو سرکاری گاڑیاں دی جائیں سوال یہ ہے کہ ان کا وزیراعظم ہونا کب سے ختم ہو چکا ان کو سزا ہو گئی جیل چلے گئے لیکن گاڑی ان کی صاحبزادی کے پاس ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت کچھ دیا ہے ہم تو غریب لوگ ہیں ہم تو یہی دعا کر سکتے ہیں کہ اچھا جی اللہ ان کو اور دے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مریم نواز کو ضرورت ہے کہ سرکاری گاڑی اس بنیاد پررکھیں کہ باپ کو ملی تھی کچھ خدا کا خوف اس ملک میں ہے۔ مجھے یہ پروگرام کرتے 9,8 برس گزر گئے میں نے مسلسل یہ بات کہی ہے کہ پاکستان میں جو سرکاری ڈھانچہ ہے وہ گل سڑ چکا ہے تباہ ہو چکا ہے کوئی توقع کی جا سکتی ہے کہ کسی بینک منیجر کی ملی بھگت کے بغیر اس کی مرضی کے بغیر کوئی جعلی اکا?نٹ بن سکتا ہے۔ نہیں بن سکتا۔ جعلی اکا?نٹ بھی ہے۔ ایک مالی کے پاس 162 گاڑیاں ہیں جو کہتا ہے میرے پاس تو سائیکل بھی نہیں ہے اس کے پاس سے 162 گاڑیاں برآمد ہو گئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس ملک کا سرکاری ڈھانچہ جو ہے۔ افسر شاہی اور اہلکار جو ہیں وہ بالکل ادھار کھائے بیٹھے ہیں اس کو لوٹ کر بیچ کر آخری تنکے تک لوٹ لیا ہے معلوم یہ ہوتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز اس ملک میں موجود ہی نہیں تھی۔ کتنی ڈھٹائی سے بتایا جا رہا ہے کہ 162 گاڑیاں مالی کے پاس سے نکل آئی ہیں۔ضیا شاہد نے کہا کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف کوئی بڑی تحریک نہیں چلا سکتی ہے فی الحال اپوزیشن کو اپنی صفیں مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اب تک معلوم ہے کہ ہر کوئی اپنے کو بچانے میں لگا ہوا ہے۔ یعنی میں اپنے آپ کو بچا رہا ہوں تم بھی اپنے آپ کو بچا?۔ضیا شاہد نے مسلم لیگ ن کے رہنما راجہ ظفر الحق سے سوال کیا کہ آج کچھ نئی متحدہ اپوزیشن کے سلسلے میں سرگرمیاں نظر آتی ہیں۔ آپ ان سارے دوستوں میں انتہائی سینئر ہیں اور قابل احترام ہیں ان دوستوں میں سے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ آج کی اپوزیشن اگر اتنے خراب حالات میں کوئی اور حکومت کسی اور اپوزیشن کو ملتی وہ اب تک بہت طوفان کھڑا کر سکتی تھی لیکن یہ ہوتا ہے کہ اپنے ذاتی مسائل سے نکلنے کی کوشش کے بغیر کوئی مشترکہ کوشش عوام کے مسائل کو لے کر بحث کے حوالہ سے لوگوں تک نہیں پہنچ سکے۔ زیادہ سے زیادہ یہ نظر آیا کہ فلاں تاریخ کو فلاں لیڈر کی گرفتاری کے خلاف احتجاج ہو گا۔ ہماری آج کی اپوزیشن جو عددی اعتبار سے اچھی تگڑی ہے وہ کیوں آ?ٹ پٹ نہیں دے سکی۔اپوزیشن نے چیئرمین سینٹ کو تبدیل کرنا اپنی ترجیح بنا رکھا ہے حالانکہ ایک اخبار نویس کی حیثیت سے سمجھتا ہوں کہ موجودہ صورتحال میں بات تو مہنگائی کی کرنی چاہئے، تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، ڈالر کہاں جا کر رکے گا یہ بنیادی سوال ہیں جو عام آدمی کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں لیکن اپوزیشن کے کسی رہنما یا ان کی میٹنگز میں ایسی کوئی بات سننے میں نہیں آئی۔ اے این ایف پر بڑے حملے کئے جا رہے ہیں اس ادارے کا ریکارڈ بڑا اچھا ہے اب تک اس نے جتنے بھی کیسز پکڑے ہیں خواہ وہ کسی فلم ایکٹر سیاستدان یا کسی بھی شعبہ زندگی سے متعلق خود کا تھا عام طور پر درست ہی پایا گیا تھوڑا انتظار کرنا چاہئے حقائق سامنے آ جائیں گے اے این ایف کے ثبوت سامنے آئیں گے رانا ثنا کے پاس بھی صفائی کے لئے پورا موقع موجود ہے۔ دعا گو ہوں کہ سابق وزیر قانون کے بارے میں الزامات غلط ہوں تاہم اگر ان پر لگے الزامات صحیح ہیں تو ان کا بچنا مشکل نظر آتا ہے۔ رانا ثنائ کے قریبی لوگوں کے بارے میں کافی چیزیں سامنے آ رہی ہیں۔ سابق و موجودہ پولیس افسران کو پکڑا جا رہا ہے ایک ہفتے میں کافی حقائق سامنے آ جائیں گے سی پیک منصوبہ کا حکومتوں سے تعلق نہیں۔ یہ تو صدیوں پرانا خواب تھا کہ روس اور چین سے سامان تجارت خشکی کے راستے بحر ہند تک لے جایا جائے اب یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے۔ اس منصوبہ کا تعلق پاکستان یا چین کی کسی ایک خاص پارٹی سے نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان موجود اٹوٹ اور مستقل تعلق سے ہے۔ اس سفر میں تھوڑی بہت مشکلات تو آئیں گی تاہم یہ جاری رہے گا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv