ملکوال(ویب ڈیسک) ملکوال وہ شہر ہے، جہاں اللہ والوں کے بسیرے ہیں، لیکن ان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سارے جعلی پیروں نے بھی یہاں ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ان جعلی پیروں کے مذموم مقاصد میں شریف اور سادہ لوح لوگوں کی کثیر تعداد پھنستی بھی ہے، اجڑتی بھی ہے اور مرتی بھی ہے، جس کی واضح مثالیں موجود ہیں کہ کبھی کوئی ڈبل شاہ بن کر سونا اور پیسہ دوگنا کرنے کا جھانسہ دے کر سادہ لوح افراد کو لوٹ رہا ہے، کبھی کوئی نوسرباز پیر لوگوں کے گھروں کے نیچے خزانے چھپے بتا کر انہیں گرا کر میٹریل ہڑپ کر رہا ہے تو کوئی جعلی پیر بن کر حوا کی بیٹیوں کی عزتیں نیلام کرکے تیزاب گردی کا نشانہ بنا رہا ہے، لیکن جعلی پیروں کے خلاف کارروائی کا مربوط سسٹم نہ ہونے سے یہ لوگ باز پرس سے مبرا دندناتے ہی پھرتے نظر آتے ہیں۔ایسے ہی ایک پیر کی بھینٹ ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں سے تعلق رکھنے والا حساس ادارے کا ملازم محمد رمضان اس وقت چڑھا، جب کسی آس، امید اور چڑھاوے کی تکمیل کی خاطر رمضان نے اپنی 14 سالہ بیٹی آج سے 9 سال قبل میں ملکوال کے مغربی علاقہ ضلع سرگودہا کے گاو¿ں چک سیدہ اسٹیشن کے قریب موجود پیر عزیر شاہ کے حوالے اس نظریے پر کی کہ یہ پیر اس کی بیٹی کو اپنی اولاد نہ ہونے پر نہ صرف بیٹی بنا کر رکھے گا بلکہ اس کی تعلیم، صحت اور تربیت کا بھی عمدہ طریقہ سے خیال رکھے گا۔2010ءمیں محمد رمضان سکنہ بھلیسراں والہ اپنی معصوم بیٹی کو ملکوال کے نواحی علاقہ چک سیدہ اسٹیشن سے ملحقہ پیر کے ٹھکانے پر چھوڑ کر چلا گیا، لیکن جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ماریہ کو جعلی پیر نے اپنی خادمہ بنا لیا، لیکن ماریہ تنگی سختی اور بے جا پابندیوں کے باعث کسی حد تک مبینہ طور پر باغی سی ہونے لگی تھی۔ اس دوران اس کا کسی طریقہ سے قریبی گاﺅں بولابالا کے ایک نوجوان سے موبائل فون پر رابطہ ہوا تو ان دونوں کی آپس میں دوستی ہو گئی، جو آہستہ آہستہ محبت میں بدل گئی۔ماریہ نے تو اس نوجوان اصغر سے شادی کر کے اس کی دلہن بننے اور پیر کے ٹھکانے سے نکل کر اپنا گھر آباد کرنے کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے تھے، تاہم اس صورت حال کا جب پیر عزیرشاہ کو پتہ چلا تو وہ سیخ پا ہوگیا اور اس نے ماریہ کو تیزاب سے نہلا دیا۔تیزاب کا جسم پر پڑنا تھا کہ جواں سال ماریہ کا پورا جسم جل گیا۔ ماریہ اس واقعہ کے بعد بھی کئی ماہ پیر کے عقوبت خانے میں چیختی چلاتی اور تڑپتی رہی لیکن پیر عزیر شاہ علاج معالجے کے بجائے بند کمرے میں اس کی موت کا انتظار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ پیر کی طرف سے ماریہ کے گھروالوں سے ان کی بیٹی کا کوئی رابطہ بھی نہیں کروایا جاتا تھا۔وقت یوں ہی گزرتا گیا کہ اپریل 2019ءآن پہنچا، اس ماہ میں پیر عزیر شاہ کے گھر کسی کی شادی کا فنکشن ہونا تھا، جس کے لئے مہمان آنا شروع ہوئے تو جس کمرے میں ماریہ کو بند رکھا گیا تھا، وہ کسی کو مہمان مشکوک لگا کیوں کہ اس کمرے کو دن میں ایک بار کھولا جاتا اور یہاں کسی کو جانے کی اجازت بھی نہیں تھی، جس پر اس مہمان نے چھپ کر ایک روز اس کمرے کا مشاہدہ کیا تو اندر سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا جواں سال ماریہ کے کراہنے آئیں تو اس نے مقامی پولیس تھانہ میانی کو اطلاع کر دی، جس پر ایس ایچ او تھانہ میانی رانا امین نے پیر کے ڈیرے پر چھاپہ مار کر ماریہ کو دردناک حالت میں برآمد تو کرلیا لیکن ایس ایچ او کی بے ضمیری نے بھی پیرعزیر شاہ جیسا ہی کردار ادا کیا۔ایس ایچ او نے مبینہ طور پر عزیر شاہ سے بھاری رشوت لے کر مضروبہ ماریہ کے ساتھ ہوئے ظلم کے خلاف نہ صرف مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا بلکہ عزیر شاہ کی مرضی کے بیانات لے کر ماریہ شاہین کی طرف سے اپنے اوپر خود تیزاب پھینکنے کی کہانی کو پروان چڑھایا اور مختلف اشٹامپ پیپرز اور کاغذات پر ماریہ کے دستخط اور انگوٹھے لگوا لئے، مزید ایس ایچ او تھانہ میانی (ضلع سرگودھا) نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ماریا کو اس کے والدین کے حوالہ کر دیا اور لڑکی کے والد محمد رمضان سے بھی کاغذات پر سائن کروا کر انگوٹھے لگوا لئے کہ وہ کسی قسم کی کاروائی نہیں کرنا چاہتے۔زندہ نعش بن کر ماریہ جب اپنے والد کے گھر پہنچی تو پھر اپنی بیٹی کے حالات زندگی سے 9 سال سے بے خبر والد کو بھی ہوش آیا اور اس نے اپنے رشتہ داروں اور بیٹے کے کہنے پر ماریہ کو ساتھ بٹھا کر اس کی حالت کے حوالہ سے ویڈیو بنوا کر وائرل کی، جس پر اعلی حکام نے فوری نوٹس لیا، وزیر اعلی پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل نے ماریہ کے گھر بھلیسراں والی کا دورہ کیا اور مضروبہ سمیت اس کے والد، بھائی اور والدہ کے پیر عمیر شاہ کے خلاف بیانات ریکارڈ کروائے اور فوری طور پر آرپی او سرگودہا سید خرم علی کو جعلی پیر اور اس کے چیلے مرتضی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے احکامات دیئے جبکہ ماریہ شاہین کو حکومت کی طرف سے مفت علاج کی سہولت دیتے ہوئے لاہور منتقل کروا دیا۔اب ماریہ شاہین لاہور کے ہسپتال میں منتقل ہے جبکہ پیر عزیر شاہ اور اس کا ایک چیلہ مرتضی ریمانڈ پر پولیس کی زیرتفتیش ہیں،تفتیشی افسر انسپکٹر خالد محمود کا کہنا ہے کہ ملزمان کے خلاف پوری طرح میرٹ پر تفتیش کر کے کیس کو آگے بڑھایا جائے گا۔ اس پورے واقعہ کے تناظر میں بائیس سالہ لڑکی کے ساتھ ہونے والے ظلم کے ذمہ داروں کا اگر تعین کیا جائے تو بلاشبہ قانون پیر عزیر شاہ کی طرف ہی اپنی لاٹھی گھمائے گا کیونکہ وہی اس واقعہ کا مرکزی ملزم ہے ،لیکن کچھ چیزیں ،باتیں اور محرکات ہمیں یہ سوچنے پر ضرور مجبور کریں گے کہ والدین کو کیا ضرورت پڑجاتی ہے کہ وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی اپنی بیٹیوں کو پیروں، فقیروں اور مرشدوں کے ڈیروں پر چھوڑ دیتے ہیں؟