لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) لیگل ایڈوائزرآغا باقر نے کہا ہے کہ لودھراں میں پولیس نے ماموں ممتاز اور اعجاز کے ساتھ صلح نہ کرنے والے غریب رکشہ ڈرائیور شفیق کو نقص امن کے کیس میں جیل بھیج دیا شفیق کے معصوم بچے جو پہلے ہی ماں سے محروم ہیں پولیس کو بالکل ترس نہ آیا اس نے پولیس میں درخواست دے رکھی تھی کہ ماموں چاہتے تھے میں اپنی بیوی کو طلاق دے دو ں نہ دینے پر میری بیوی کو زہریلا دودھ پلا کر مار دیا صلح نہ کرنے پر پولیس نے الٹا شفیق کو ہی پکڑ لیا ماموں ممتاز کی ضمانت ہو گئی شفیق کے پاس وکیل کے پیسے نہ تھے لہذا وہ جیل چلا گیا۔چینل فائیو کے پروگرام ہیومین رائٹس واچ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولیس کا فرض تھا شفیق کے ماموں کو گرفتار کرتی لیکن ایسا نہیں کیا۔جس میں پولیس کی بدنیتی صاف ظاہر ہے حالانکہ ادارے پابند ہیں عوام کو ان کا حق دلائیں۔شفیق کے پاس وکیل کرنے کی استطاعت نہیں تھی تو حکومت وکیل مہیا کرتی تھانے میں درخواست پر پولیس کا فرض تھا کارروائی کرتی ستم یہ ہے ممتاز اور اعجاز کی ضمانت ہو گئی لیکن شفیق بے چارہ جیل چلا گیا کسی کو بغیر سنے سزا نہیں دی جا سکتی ہر ایک کو مرضی کا وکیل کرنے کا حق ہے پولیس بھی اگر شفیق کو چاہتی تو اس کی ضمانت ہو سکتی تھی شفیق بے چارے کو تو وکیل ہی نہیں ملا۔شفیق کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ازل سے انسان میں لالچ بھی ہے ایسے واقعات ختم تو نہیں ہو سکتے لیکن اگر ادارے کام کریں توکم ضرور ہو سکتے ہیں۔ لائیو الر کی کال پر انہوں نے بتایا کہ کوئی غیر قانونی طور پر اگر کسی کی جائیداد پر قبضہ کر لے تو ایس ایچ او واگزار کرانے کا ذمہ دارہے۔جس کی جائیداد پر قبضہ ہو وہ پوری تفصیل بتایا کرے۔بہرحال ہمارا پینل مظلوموں کی مدد کے لئے تیار ہے۔فری وکیل مہیا کرنے والی تنظیمیں موجود ہیں لیکن جیسے عوام کے لئے کام کرنا چاہئے نہیں کرتے۔۔لوگوں کی آواز سنی جائے تو مسائل حل ہوں گے۔ حل نہ ہو تولوگ مایوس ہو کر خود کشی کر لیتے ہیں۔کھلی کچہری میں بھی یکطرفہ دستخط ہوتے تھے۔درمیان کا سسٹم فیل ہونے سے درخواست وزیراعظم کو چلی جائے تو دستخط ہونے کی صورت میں یکطرفہ کارروائی ہو جاتی ہے۔حالانکہ کہ ادارے مضبوط ہوں تو نوٹس لینے کی ضرورت ہی نہیں۔پولیس پر لوگوں کا اعتماد نہیں۔ ہیومین رائٹس واچ میں آنے والے کیسز پر کام ہوا اور بڑے اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔سوئے ہوئے اداروں نے اپنا کام کیا۔سینئر صحافی ضیائ شاہد نے کہا ہے کہ ایک زمانے میں پنچایت سسٹم بڑا موثر ہوتا تھا دیہات میں تو نوے فیصد فیصلے پنچایت ہی کرتی تھی۔عزیز قریبی رشتے دار مل بیٹھ کر معاملات حل کر لیتے تھے۔شفیق کے کیس میں ماموں بھانجے کی لڑائی ہوئی تو پولیس نے دونوں کو اندر کر دیا۔ایسے مسائل کے حل کے لئے بلدیاتی اداروں کو فعال کرنا چاہئے یہ بہت سے چھوٹے کیسز نمٹا لیتے تھے۔یہ دعوی تو کیا جاتا ہے پاکستان میں جمہوریت آئی ہے لیکن پاکستان میں جمہوریت نہیں آئی بیوروکریسی کی حکومت ہے،ڈی سی اوز اور ڈی پی اوز نے ہی سارے اختیارات استعمال کرنے ہیں تو پھرمنتخب لوگوں کا کیا فائدہ۔فی الحال کوئی امید بھی نہیں کیونکہ حکومت کہہ چکی اگلے بلدیاتی الیکشن کرانے کی پوزیشن میں نہیں۔بلدیاتی ادارے جب تک نہیں بنیں گے تب تک چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل نہیں نکلے گا۔ہمارے نمائندے تحقیق کر کے بتایا کریں کس الزام میں پولیس نے پکڑا۔شہری کا حق ہے پولیس سے پوچھے گرفتاری کیوں کی گئی۔ یہ درست ہے کہ کچھ لوگ مالی طور پر اس قابل نہیں ہوتے کہ وکلائ کی خدمات حاصل کر سکیں۔ہماری بار کونسلز ہماری ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز اور ہمارے ہائیکورٹ باراور سپریم کورٹ بار ان اداروں نے جو انسانی حقوق کی تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں اور ایسے لوگ جن کے پاس وکیل نہیں ہوتا انہیں بغیر فیس وکیل مہیا کرتے ہیں میرے خیال میں اس پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔سب کی ذمہ داری ہے مسائل اجاگر کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ میری بیوی بھاگ گئی ہے وزیر خارجہ سے سفارش کرائیں میری بیوی واپس مل جائے۔لوگ سمجھتے ہیں بڑے عہدے والے کو پکڑ و اور کام کرا?۔کبھی کہتے ہیں گورنر سے کام کرا دو ایسی ایسی مثالیں موجود ہیں۔نواز شریف دور میں کہا گیا کہ جس کو شکایت ہے درخواست دے میں نے اس بارے اپنی کتاب میں بھی لکھا تھا میں نے اس کی مخالفت بھی کی تھی۔ایسی درخواستوں پر بغیر دوسرے شخص کا موقف سنے فیصلہ کر دیا جاتا ہے یکطرفہ کارروائی نہیں ہونی چاہئے۔کوئی چیز اپنی جگہ پر نہیں بجائے اپنی جگہ ہونے کے کہیں اور ہے۔رکشتہ ڈرائیور شفیق نے بتایا اس کی شادی شمیم نامی خاتون سے ہوئی تھی میرے ماموں ممتاز اور اعجاز چاہتے تھے میں اپنی بیوی کو طلاق دوں میں نے کہا میرے بچے ہیں میں طلاق نہیں دوں گا جس پر میرے دو بچوں کو اغواکر کے انہوں نے کمرے میں بند کر دیا پولیس نے بچوں کو برآمد کئے تاہم ملزمان کو نہیں پکڑا ڈی پی او اور ایس ایچ او کو درخواست دی لیکن کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔ماموں ممتاز نے دودھ میں پارا ملا کر بیوی اور بچے کو پلا دیا بیوی چند روز زیر علاج رہنے کے بعد ہلاک ہو گئی۔پولیس کو کارروائی کے لئے درخواست دی لیکن کوئی کارروائی نہ کی الٹا پولیس نے کارروائی نہ کی۔ لائیو کالر نوید نے ساہیوال سے بتایا کہ رشتے داروں نے ہماری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے ہماری مدد کی جائے۔عامر نے فیصل آباد سے کہا چینل فائیو کا پروگرام بہت اچھا ہے یہ کریڈٹ خبریں اور ضیائ شاہد کو جاتا ہے کہ عوامی مسائل اجاگر کرتے ہیں۔چنیوٹ سے سجاد نے کہا ہماری زمین پر قبضہ ہو گیا ہے چھڑوایا جائے۔