تازہ تر ین

سوشل میڈیا پر زیادہ تر جھوٹی خبریں اور افواہیں ہوتی ہیں: نوجوانوں کی گفتگو ، چینل ۵ اور خبریں میں ضیا شاہد کا اہم کردار ہے، وہ ایک ایک لفظ کا جائزہ لیتے ہیں:چودھری خادم کی چینل ۵ کے پروگرام ” نیوز ایٹ 7 “ میں گفتگو

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام ”نیوز ایٹ سیون“میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحان اور نوجوان نسل کے سوشل میڈیا کے گھنٹوں استعمال کے مثبت اور منفی اثرات کے حوالے سے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے عوام ، نوجوانوں اور طالب علموں سے خصوصی گفتگو کی گئی۔اس حوالے سے آئی ٹی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر زیادہ تر جھوٹی خبریں اور افواہیں ہوتی ہیں، خود جانچنا پڑتا ہے کہ کونسی خبر سچ ہے۔ سب سے پہلے خبر کے ذرائع معلوم کیے جانے چاہئیں کہ کہا ں سے خبر لی گئی ہے ، عوام سوشل میڈیا کی خبروں پر بغیر تصدیق یقین نہ کریں۔ کچھ نوجوانوں کا کہنا تھاکہ سوشل میڈیا پر جتنا زیادہ وقت دیاجائے اتنا ہی اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس لیے ایک یا دو گھنٹے دوستوں سے بات چیت اور انکی روزمرہ پوسٹس دیکھنے کے لیے کافی ہیں۔ 18سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا کے استعمال سے روکنا چاہئے۔ سوشل میڈیا پر بچوں کے لیے سیکھنے کو کچھ نہیں ہے۔ بل گیٹس اپنے بچوں کو زیادہ دیر موبائل استعمال کرنے نہیں دیتے ہمیں بھی کمیونٹی میں آگاہی مہم چلانی چاہیئے اور سوشل میڈیا کا استعمال کم سے کم کرنا چاہیئے۔ سوشل میڈیا کمینٹس کے ذریعے لڑائی جھگڑوں کے ماحول سے دور رہنا چاہئیے اور صرف آگاہی مقصد ہونا چاہیئے۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں ایمن زاہد کا کہنا تھاکہ ففتھ جنریشن اور میڈیا وار فیئر کے دور میں اپنی چھوٹی سے چھوٹی بات کو ایوان بالا تک پہنچانے کے لےے سوشل میڈیا کا استعمال سستا ترین ذریعہ ہے۔پاکستانی سیاست میں ٹویٹرمیڈیا وار کا حصہ ہے۔ وزیراعظم ادھر ٹویٹ کرتے ہیں اور اس پر جوابی حملے اپوزیشن کی جانب سے شروع ہو جاتے ہیں تاہم ٹویٹر پرجسکے جتنے فالورز ہوں گے اسکا ٹویٹ اس قدر زیادہ دیکھا جائےگا۔انہوں نے کہاکہ پاکستانی یوتھ کا زیادہ تر وقت میڈیا پر گزر رہا ہے صبح اٹھتے ہی فیس بک اور انسٹا گرام پر پوسٹس لگائی جاتی ہیں۔ میڈیا وار میں ملکی سلامتی کیخلاف جنگ میں بطور پاکستانی ہمیں دانشمندی سے مثبت ردعمل دیتے ہوئے سازش کو ناکام بناناہے، اپنے یوتھ فارمز اور تھنک ٹینکس میں ملک مخالف پوسٹس کو لیجاتے ہوئے اپنے اداروں اور ملک کے احترام میں دنیا کو پیغام دینا چاہیئے کہ ہم محب وطن قوم ہیں۔شہروز نے کہا کہ بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے دوران ہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے بھارت کو ففتھ جنریشن وار میں شکست دی۔ سوشل میڈیا نے یوتھ کو شعور دینے میں مثبت کردار ادا کیا ہے تاہم پاکستان میں تعلیم کی کمی ہے تعلیم کے رجحان کو بڑھا کر سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ پاکستان سوشل میڈیا کے ذریعے کامیاب ہوسکے اس لیے ہمیں عوام کو شعور دینا ہوگا۔ سوشل میڈیا پرجنسی ہراسمنٹ اور بلیک میلنگ کے نتیجے میں پاکستان میں خودکشیوں کے بڑے کیسز سامنے آئے۔ اس حوالے سے آئی ٹی کے شعبے میں سائبر کرائم سیل کی رکن ہما نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سائبر کرائمز کا قانون بہت تاخیر سے آیا۔ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ایپس پر دوستیاں اورپھر رشتہ ٹوٹنے کے بعد بلیک میلنگ کی شکایات ایف آئی اے ڈیل کر رہی ہے۔جعلی اکا?نٹ بنانے اور کسی کی تصویر شیئر کرنے اور بلیک میلنگ پر 3سے 5سال قیدکی سزا کا قانون موجود ہے۔ہراسمنٹ کا شکار افراد شرمانے کی بجائے اس قانون سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی پریشانی کم کریں۔ کوئی بھی ایسا جرم ، تحریر یا عمل جو تکلیف دہ ہو اس کے خلاف قانون موجود ہے اور شکایت کی جاسکتی ہے۔ پولیس اور عدالتیں سائبر کرائم جرائم پر سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ طالب علموں کا کہنا تھا کہ ہر باشعور پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو ورغلانے والی سوچ کی خلاف عام لوگوں کو آگاہی دی جائے اور منفی پیغام کے پھیلا? کی روک تھام کی تربیت کی جائے۔ ملکی و غیر ملکی شخصیات کوسوشل میڈیا پر عزت دینی چاہیئے اور اگر وہ اچھا پیغام نہیں دے رہے تو انہیں مثبت پیغام دینا چاہیئے۔ پاکستانیوں کو پاکستان کرکٹ ٹیم کو بھی سپورٹ کرنا چاہیئے اور ایکدوسرے کو عزت دینی چاہیئے۔ سیاست میں سوشل میڈیا کے کردار پر چوہدری خادم علی مانڈا نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستانی سیاست میں سوشل میڈیا کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے کیونکہ ہر انسان پوری دنیا میں اپنا پیغام آسانی سے پہنچا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا سمیت تمام چیزوں کے درست اور غلط استعمال کا انحصار ہم پر منحصر ہے۔ سوشل میڈیا پر لڑکیاں لڑکے بن کر اور لڑکیاں لڑکے بن کر بات کرتے ہیں پھر سزا?ں اور شرمندگیوں کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔ معروف صحافی راشد حجازی نے کہاکہ سیاست ہمارے چلن میں بدچلنی بن گئی ہے جسکو سوشل میڈیا نے بڑھاوا دیا ہے۔ سیاست اصل میں زندگی جینے کا انداز ، اصول اور تہذیب سکھاتی ہے۔ سوشل میڈیا سیاست سے وابستہ ہوا تو تو یہ بے لگام گھوڑا بن گیا۔ سوشل میڈیا کا اپنے اصل مقاصد سے ہٹ کر غیر ضروری استعمال زیادہ ہے اور اس کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے۔ الیکٹرانک میڈیا یا پرنٹ میڈیا کو اپنے ایک ایک لفظ پر جواب دہ ہونا پڑتا ہے مگر سوشل میڈیا پر سیاستدان انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ الزامات اور ایکدوسرے کے لیے گالم گلوچ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چینل فائیو اور خبریںمیں ضیا شاہد کا ایک اہم کردار ہے ، ایک ایک لفظ شائع ہونے سے پہلے ضیا شاہد صاحب خود دیکھتے ہیں انکی 18گھنٹے ورکنگ کا میں شاہد ہوں۔ اگر ایک لفظ بھی غلط چھپ جائے تو اگلے دن ہی اس رپورٹر یا سب ایڈیٹر کو نوٹس چلا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر کوئی کسی کو نہیں پوچھتااور سائبر کرائم بھی لاقانونیت کا شکار ہے وہ خو د کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے پاس سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اختیارات نہیں ہیں۔ ایسے حالات میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میڈیا اور سیاسی پارٹیوں کے سوشل میڈیا سیلز پر چیک اینڈ بیلنس کا قانون ناگزیر ہے۔ سوشل میڈیا ایکسپرٹس کا پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کا مثبت پہلو آسانی سے دنیا میں پیغام رسانی ہے اور منفی پہلو جعلی خبروں کی بھرمار ہے جسکے لیے جعلی ایجنسیاں پھرپور کام کر رہی ہیں۔ پاکستان میں جھوٹی خبروں کے خلاف کاروائی کی بہت ضرورت ہے۔ خبر کا ذریعہ معلوم ہونے تک خبر شیئر کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی مہم کے ذریعے سوشل میڈیا پر عوام کو تعلیم اور شعور دیا جاسکتا ہے۔ سیاستدانوں کے سوشل میڈیا پر اکا?نٹس اور پیچز اچھی بات ہے عوام کو انکے الفاظ کے ذریعے انکی سوچ کا اندازہ ہورہا ہے۔ سیاستدان کمینٹ یا پوسٹ کر کے ڈیلیٹ نہیں کر سکتے ، لوگ سکرین شارٹ لے لیتے ہیں اور میڈیا کچھ چھپنے نہیں دیتا۔ سوشل میڈیاایک آرٹیفیشل زندگی ہے۔پاکستانی یوتھ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سوشل میڈیا پر ضائع کر رہی ہے۔ کوئی نوجوان ایک خاتون کو سوشل میڈیا پر جیسادیکھ رہا ہے اصل میں ملاقات ہونے پر اسے وہ خاتون بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ اس تناظر نے خاندانوں اور پچوں کے لیے مسائل میں اضافہ کر دیاہے۔ سوشل میڈیا یوتھ کے لیے نشہ بن چکا ہے ، صبح اٹھتے ہی ہر نوجوان پہلے فیس بک اور انسٹا گرام چیک کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے مگر اس ٹیکنالوجی کو کسی نئی ٹیکنالوجی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ بچوں کو سوشل میڈیا کے استعمال سے روکا نہیں جاسکتا مگر بچوں کی اخلاقی تعلیم ، اچھے اور برے کا شعور استعمال کو مثبت بنا سکتا ہے۔



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv