تازہ تر ین

نواز شریف ثابت نہیں کر سکے کہ انکا علاج صرف بیرون ملک ہی ممکن ہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پہلی دفعہ جب نوازشریف کو 6 ہفتے کی ضمانت ملی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ میاں نوازشریف اس خیال سے وہ باہر جانا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے یہاں نہ انجیو گرافی کرائی نہ کوئی سنجیدگی سے اپنا کوئعلاج کرایا اور وہ انتظار کرتے رہے اس بات کا کہ انہیں باہر جانے کی اجازت مل جائے اب وہی بات ان کے خلاف گئی چنانچہ آج ہائی کورٹ نے کہا کہ جب انہیں 6 ہفتے کی ضمانت ملی اور موقع دیا گیا تو انہوں نے اپنے علاج کے سلسلے میں کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ اقدام کہ انجیو گرافی تک نہیں کرائی تھی انتظار کرتے رہے کہ باہر جانے کا موقع مل جائے۔ یہ چیز ان کے خلاف گئی اور کل ہائی کورٹ نے اس کی بنیاد پر درخواست مسترد کر دی۔ افسوسناک ہے لیکن بہرحال یہ ان کی حکمت عملی غلط تھی جو آج سامنے آ گئی، نوازشریف کو ثابت کرنا پڑے گا کہ کس وجہ سے ان کا پاکستان میںعلاج نہیں ہو سکتا۔ اور کس وجہ سے ان کی حالت اتنی خرراب ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کو اپنے معاملے میں اب کافی کیس ان کا مشکل ہے لگتا نہیں ہے کہ کسی معقول وجہ کے بغیر جس کو ثابت کرنا مشکل ہو گا کہ ان کو واقعی کوئی ایسی دل کی تکلیف ہے جس کا علاج پورے پاکستان میں نہیں ہو سکتا۔ دیکھئے پاکستان کی آبادی اتنی زیادہ ہے اور اتنے لوگ بہرحال پاکستان میں ہی علاج کرواتے ہیں۔ نوازشریف کے ذاتی ڈاکٹر عرفان کے حوالہ سے ٹویٹ سامنے آتے رہے ہیں کہ ان کو مستقل نگہداشت اور مستقل علاج کی ضروررت ہے جو بیرون ملک ہی ہو سکتا ہے اس پر ضیا شاہد نے کہا کہ ان کا نقطہ نظر ہے لیکن بہت سے دوسرے ڈاکروں کا نقطہ نظر اس سے برعکس ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اتفاق کس بات پر ہے۔ ابھی تک تو یہ ہے کہ پاکستان میں ان کا علاج ہو سکتا ہے اچھے سے اچھے ڈاکٹر موجود ہیں اچھے ہسپتال موجود ہیں، آرمی کا میڈیکل شعبہ ہے دل کے امراض سے متعلق اس کی بہت اچھی شہرت ہے جناب نوازشریف، ان کی صاحبزادی، ان کے گھر والوں کو خوامخوا ضد سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ فوراً ان کا علاج شروع کر دینا چاہئے۔ سیاسی طور پر اپنی بیماریوں کو بڑھا چڑھا کر بہانا کرنا عام طور پر سیاستدانوں میں پایا جاتا ہے مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ جونہی کوئی لیڈر گرفتار ہوتا تھا وہ فوری طور پر اگلے دن ہی اس کی طبیعت خراب ہوتی تھی اور اگلے ہی دن وہ ہسپتال پہنچ جاتے تھے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ قومی اسمبلی میں جو ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے وہ مکمل طور پر اپوزیشن نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ عمران خان کو اور حکومتی پارٹی کو گفتگوکرنے کا موقع نہیں دیں گے اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ پھر اپنے ارکان سے کہا کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں اور پھر انہوں نے بھی ایک دن شہباز شریف کو ایک دن تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا۔ اگلے روز دونوں طرف سے ایک رویہ جنم لیا ہے اور پھر انہوں نے عام طور پر جو اسمبلی سے باہر حو فیصلہ ہوتا ہے سپیکر کے کمرے میں عام طور پر اس قسم کے معاہدے ہوتے ہیں پھر غیر رسمی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ نہ ہم اپوزیشن کو منع کریں گے اور اپوزیشن ہمیں منع کرے گی چنانچہ اب دونوں طرف سے یہ اچھی بات ہے کہ آپ اپنی بات بھی کریں اور اپوزیشن کی بات بھی سنیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک نیا ٹرینڈ شروع ہوا ہے البتہ چونکہ پرنالہ اسی پر ہے کہ بجٹ پاس نہیں ہونا اس لئے بجٹ نہ ہونے دینے کے بارے میں شہباز شریف نے بھی کہا ہے کہ ہم یہ بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے میرے خیال میں بجٹ پر تنقید ہونی چاہئے بجٹ میں کٹوتی ہونی چاہئیں ترامیم ہونی چاہئیں لیکن کسی بھی ملک کے بارے میں اپوزیشن کا ہ فیصلہ کر لینا کہ بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے اور حکومت گرا دیں گے یہ ایک غیر جمہوری عمل ہے۔ آصف زرداری کا یہ کہنا کہ مجھے اگر کچھ ہو بھی جاتا ہے اس سے پیپلزپارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا سندھ کارڈ استعمال کیا گیا۔ ضیا شاہد نے کہا ہمارے اخبار اور اس پروگرام میں قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے جو اعداد و شمار دیئے ہیں اس میں بتایا گیا ہےکہ کس پارٹی کے کتنے ارکان ہیں اسش میں اختر مینگل کے 4 لوگ وہ اگر اپوزیشن کے ساتھ مل جائیں تو بھی 21 ارکان پی ٹی آئی کے زیادہ ہیں۔ 21 میں سے کتنے ارکان توڑیں گے اپوزیشن والے نظر تو نہیں آتا۔ اگر یہ اعداد و شمار غلط ہوتے اور ہر پارٹی کے آگے لکھی ہوئی تعداد غلط ہے تو اب تک اس کی تردید ہو چکی ہوتی۔ اور کہا جا چکا ہوتا کہ یہ اخبار نے غلط چھاپا ہے تو کس نے اس کی تردید نہیں کی اور یہ اعداد و شمار سرکاری ہیں اور اس اعداد و شمار کے مطابق اختر مینگل کو اپوزیشن کی صفوں میں شامل کر کے بھی اس کے باوجود اپوزیشن کی تعداد 162 بنتی ہے اور حکومتی ارکان کی تعداد 181 بنتی ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ21 ارکان زیادہ ہیں یہ تو کل ہو سکتا ہے کہ پاکستان جسے ملک میں شاید ایک دو چار ممبر اور حکومت اپنی طرف شامل کر لے لیکن نہیں ہوتا کہ حکومتی ارکان کم ہوتے چلے جائیں۔
اسد عمر نے پارلیمنٹ میں عوام کے مفاد میں بات کی، کسی بھی ممبر کو خواہ وہ حکومتی جماعت سے ہو یا اپوزیشن سے پارلیمنٹ میں بات کرنے کا حق حاصل ہے اس کا فرض ہے کہ عوام کے مفاد میں بات کرے۔ آصف زرداری نے پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران پاکستان کھپے کا ذکر کیا اور کہ کہ عوام ان سے ہونے والی زیادتی کو محسوس کر رہے ہیں۔ زرداری سمجھتے تھے کہ ان کی گرفتاری اور فریال کی نظر بندی پر سندھ میں بڑا ردعمل آئے گاا لوگ سڑکوں پر نکلیں گے تاہم کچھ بھی نہ ہوا۔ پیپلزپارٹی کے بہت سے لوگ نجی محفلوں میں کہتے نظر آتے ہیں کہ زرداری گروپ نے بھی لوٹ مار کم نہیں کی۔ پاکستان بھر سے کہیں بھی پیپلزپارٹی نے کسی سطح پر بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ زرداری پر لگائے الزامات غلط ہیں یا منی لانڈرنگ کی تو اچھا کیا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



آج کی خبریں



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv