لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر صحافی ضیائ شاہد نے کہا کہ ننھی بچی فرشتہ کے ساتھ جو ہوا اس قسم کے واقعات ہو جاتے ہیں یہ کسی کے بس میں نہیں لیکن یہ تو بس میں ہے کہ جب واقعہ ہو جائے کم سے کم فوری ایف آئی درج کر کے تفتیش شروع کی جائے۔ چینل فائیو کے پروگرام ہیومین رائٹس واچ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک بچی گم ہوئی لیکن چار دن بعد ایف آئی آر درج کی گئی اس دوران بچی کے والد تھانے کے چکر لگاتے رہے لیکن پولیس ان سے تھانے کی صفائی کراتی رہی لیکن ایف آئی آر درج نہ کی گئی۔ایف آئی آر 19کو کاٹی گئی اگلے دن بچی قتل ہو جاتی ہے اور اس کی لاش جسے جانور بھنبھوڑتے رہے مل جاتی ہے یعنی جانور اس کی لاش کھاتے رہے اتنی سنگین خوفناک واردات ہوئی جس پر پورے ملک میں شور مچا۔وزیراعظم نے بھی کیس کی فائل منگوا لی ظاہر ہے ایسا واقعہ نوٹس لئے بغیر نہیں جا سکتا۔میں نے خود بھی اپنی ٹیم صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کے پاس بھجوائی تاکہ ان سے بات کی جا سکے۔البتہ واقعہ وفاقی سطح پر یعنی اسلام آباد میں ہوا تاہم اس کا نوٹس آئی جی اسلام آباد نے لیا وزیراعظم نے بھی بعد میں کیس کی فائل منگوا لی۔اگر بروقت ایف آئی درج ہو کر چھان بین شروع ہوتی تو بچی کی زندگی بچ سکتی تھی۔بہاولنگر میں جو دسویں کی سٹوڈنٹ شہر بانو سے ہوا یہ بچی گھر سے ناراض ہو کربس میں سوار ہوئی اور کنڈیکٹر نے اسے کہیں لے جا کرزیادتی کر ڈالی بڑا سیریس کیس ہے اس معاملے کو اگلے پروگرام میں ڈسکس کریں گے تاکہ پولیس سے رابطہ ہو سکیں اور ااصل موقف جان سکیں۔صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا کہ ایف آئی آ ر میں تاخیر کرنا پولیس کی روایت غفلت ہے یہ اسی کا شاخسانہ ہے یہ بڑی غلط بات ہے اتنا بڑا سانحہ ہوا لیکن پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی عوام کے لئے یہ اچھی خبر ہے وزیراعظم نے خود واقعے کا نوٹس لیا پہلی بار ایف آئی آر کی تاخیر پر ی ایس ایچ او کے خلاف مقدمہ ہوا پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا یہ ایکشن کی پولیس کی تاریخ میں انوکھا واقعہ ہے۔ پولیس کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ یہ ماضی جیسی حکومت نہیں جس میں پولیس سے مل کر عوام کے خلاف سازشیں ہوتی تھیں اور عوام کو پس پشت رکھا جاتاتھا۔وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں حکومت جس طرح عوام کو انصاف فراہم کرنے کے لئے اقدامات کر رہی ہے ان کو سراہا جانا چاہئے پولیس کو بھی رویہ تبدیل کرنا چاہئے۔وزیراعظم کے کام کرنے کے طریقہ یہ ہے کہ اگر غلطی ہوئی تو اس کا سدباب اور ذمہ داران کا تعین ہونا چاہئے یہ نہیں دیکھتے کہ اس میں غلطی کسی ساتھی کی ہے صرف نظر کرنا چاہئے۔تحریک انصاف کی وجہ سے جوابدہی کا جو تصور آیا ہے یہ تمام جماعتوں اور بیوروکریسی کے لئے بھی مشعل راہ ہے۔اگر عمران خا ن غلطی پر کسی ذاتی دوست یا پارٹی عہدیدار یا پارٹی کارکن کو نہیں بخشتے تو پھر میرٹ پر کام کرنے کے سلسلے میں وہ کسی اقدام سے گریز نہیں کریں گے۔اگر وزیراعظم نے ننھی فرشتہ کیس کا نوٹس لیا تو وہ کارروائی کرتے ہوئے اسے منطقی انجام تک بھی پہنچائیں گے۔گزشتہ پروگرام میں بچی ماریا کیس میں میں چینل فائیو پر حاضر ہوا تھا میں نے کہا تھا جو بھی پیشرفت ہو گی عوام کو ضروربتا?ں گا۔ماریا کیس میں بھی لواحقین کو شکایت تھی کہ ایف آئی آردرج نہیں کر رہی کیونکہ پولیس کو میڈیکل رپورٹ کا انتظار تھا جبکہ میں نے کہا تھا ایف آئی آر میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے بعد میں کوئی اور واقعہ نکلتا ہے تو ایف آئی آر خارج بھی کی جا سکتی ہے۔ماریا کیس میں رپورٹ تھانہ صدر میں درج کر لی گئی ہے جس کا ٰنمبر نو ہے اب فرانزک کا انتظار ہے۔پولیس کہتی ہے مدعی اور اہل محلہ کے بیانات میں کچھ تضاد ہے اہل محلہ کے مطابق بچی مرگی کی مریضہ تھی شاید اسے مرگی کا دورہ بھی پڑا ہو جس سے موت ہوئی ہو۔بقول پولیس کے بچی کے جسم پر بیرونی تشددکے نشانات بھی نہیں تھے۔چینل فائیوکے توسط سے یقین دلاتا ہوں کیس کو منطقی انجام تک پہنچا?ں گا چینل فائیو جو بھی ایشو اٹھائے گا اس پر پراگرس دیتا رہوں گا کیونکہ چینل فائیو و خبریں کی کوششوں کی وجہ سے یقین دلاتا ہوں لواحقین کو انصاف ملے گا۔لیگل ایڈوائزر آغا باقر نے کہا ہے کہ قانونی پہلو یہ ہے کہ سرکاری مشینری صرف ایف آئی آر کی صورت میں حرکت میں آ سکتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایسے کیسز میں پولیس میں جب گمشدگی کا کوئی واقعہ رپورٹ ہوتا ہے تو پولیس سوچتی ہے شاید بچی خود مرضی سے کسی کے ساتھ گئی ہو باقاعدہ پوچھا جاتا ہے آپ نے دیکھنا تھا شاید بچی کا کسی سے تعلق ہو کسی عزیز وغیرہ کے پاس تلاش کریں۔جب ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو پولیس کی ذمہ داری بن جاتی ہے تفتیشی جوابدہ ہوتا ہے اگر ایس ایچ او کے علم میں آئے قابل دست اندازی پولیس جرم ہوا تو وہ ایف آئی آر درج کرنے کا پابند ہے۔انسانوں کے روپ میں حیوانیت دکھائی گئی جس کے باعث فرشتہ قتل ہوئی۔بہاولنگر دسویں کی سٹوڈنٹ سے کنڈیکٹر کی زیادتی کے بعد میڈیا کو بچی کے لواحقین سے بات نہیں کرنے دی جا رہی۔بعض اوقات چیزوں کا میڈیا پر آنے سے جرم کرنے والا ساری کاررائی سے آگاہ ہو جاتا ہے اس لحاظ سے رویہ مثبت ہے لیکن ہمارے ہاں پولیس ناقص تفتیش کرتی ہے اور چاہتی ہے کسی کو پتہ نہ چلے اس سے میڈیا کو دور رکھتی ہے تاکہ خامیاں چھپ جائیں۔پھر پولیس پر دبا? بھی آ جاتا ہے۔زیادتی کیسز میں بہہتر گھنٹوں میں اگرتفتیش نہ ہو شہادتیں نہ اکٹھی کی جائیں تو کیس اپنی موت آپ ہی مر جاتا ہے چاہے کیس دنیا کی کسی بھی عدالت میں لے جائیں۔تفتیشی سے کوئی بات چھپی نہیں ہوتی جائے وقوعہ شہادت دے رہا ہوتا ہے لیکن وہ چند ٹکوں کی خاطر کیس لٹکا دیتا ہے جس کے باعث سزائیں نہیں ملتی۔اتنے کیسز ہونے کے باوجود واقعات کیوں نہیں رکتے لگتا ہے کسی نئے ادارے کی بھی ضرورت ہے۔