تازہ تر ین

پاکستان میں کونسا بجٹ بنا جب ہم آئی یم ایف کے پاس نہیں گئے ،شرائط نہیں مانیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ارکان اسمبلی کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کی بات حوصلے سے سنیں مگر قومی اسمبلی میں ایسا نہیں ہوتا۔ سپیکر کا گھیراﺅ کرنا شور شرابا یہ قومی اسمبلی میں ہوتا رہا ہے ساری دنیا میں یہی چلتا ہے اس کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے یہ نان ایشوز ہیں۔ بلاول بھٹو کا یہ کہنا کہ یہ آئی ایم ایف کی حکومت ہے عملاً آئی تو نہیں ہے لیکن یہ کہ جس طرح سے ان کی باتیں مانی جا رہی ہیں لگتا ہی ہے کہ یہ عنقریب شروع ہونے والی ہے۔ قومی اسمبلی میں جو پروسیڈنگز ہوتی ہیں اسی سے کسی ملک میں جو پارلیمنٹیرین کی ذہنی سطح کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگر وہ تو سنجیدگی سے کسی مسئلہ پر بات کرنا چاہتے ہوں تو ان کے لئے میدان کھلا ہے لیکن عام طور پر زیادہ نان ایشوز پر زیادہ شور مچتا ہے اس قسم کی باتوں پر اتنی ہنگامہ آرائی کی جاتی ہے کہ سپیکر کا گھیراﺅ کیا جاتا ہے دستاویزات کی کاپیاں پھاڑیں جاتی ہیں اور سارا ڈرامائی انداز جو ہے اپوزیشن کے بنچوں کو مطمئن رکھنے کے لئے ہوتا ہے دنیا بھر میں خبریں چھپوانے اور چینلز پر ہیڈ لائن بنوانے کے لئے ہوتا ہے۔ یہ اپنی اپنی رائے ہے ہر آدمی اپنی رائے کے مطابق بات کرتا ہے لہٰذا کسی بات کو کسی پیمانے پر جانچنا اور یہ کہنا کہ فلاں بات ٹھیک ہے فلاں بات غلط ہے کبھی بھی کوئی حتمی رائے نہیں کی جا سکتی۔ تقرریوں کے حوالے سے ہی مختلف رائے رکھتا ہوں وہ یہ کہ شاید تحریک انصاف والے اپنی زبان نہیں کہہ سکتے لیکن اگر دیکھا جائے تو پچھلی دونوں دو حکومتوں نے جس طریقے سے اس ملک کو لوٹا ہے اور جب طریقے سے ان کی ٹاپ کی لیڈر شپ پر الزامات لگ رہے ہیں اور ثبوت دیئے جا رہے ہیں اب تو وعدہ معاف گواہ بھی بننے لگے ہیں اس طرح میں یہ سمجھتا ہوں اگر غصہ ہر ایک شخص کو ااتا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہئے لیکن میں پوچھتا ہوں کہ پاکستان کا کون سا ایسا بجٹ ہے جس سے پہلے ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں گئے اور اس سے پہلے کیا ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط قبول نہیں کیں۔ دھڑا دھڑ ہماری عدالتوں سے ریلیف ملتا ہے اور ملنا بھی چاہئے ٹیکنیکل بنیادوں پر لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دیکھیں بجائے اس کے کہ گرفتاریاں ہوں اصل میں تو یہ ہونا چاہئے کہ جنہوں نے لوٹ مار کی ہے ان کی گرفتاریاں ہوں لیکن اس کے راستے میں ضمانت قبل از گرفتاری وہ آ جاتی ہے اور تقریباً ہر دوسرا بڑا آدمی جو ہے وہ ضمانت قبل از گرفتاری کی وجہ سے بچا ہوا ہے یہ بات ظاہر ہے کہ منی لانڈرنگ پر کون سا ایسا خاندان ہے جناب آصف علی زرداری کا خاندان، یا جناب شہباز شریف کا خاندان ہے جو اس بات سے بچا ہوا کہ جنہوں نے پیسے باہر نہیں بھیجے ہوئے یا باہر سے منگوائے نہیں لیکن کتنے لوگ ان سے گرفتار ہیں یہ آپ دیکھ سکتے ہیں بلاول صاحب کا نام بھی اس میں آتا ہے، فریال صاحبہ نام بھی آتا ہے آصف زرداری صاحب کا سب سے پہلے آتا ہے ان کے فرنٹ مین بھی پکڑے جا چکے ہیں بڑی دیر سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں لیکن جو اصل لوگ ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ اور پھر اعتراض کیا جاتا ہے بلاول صاحب بھی تقریر بھی کرتے ہیں قومی اسمبلی میں حالانکہ ان کو پہلے یہ بتانا چاہئے کہ ان کا خاندان اور ان کے خاندان کا سربراہ ملک سے باہر پیسے کس لئے بھجوا رہا ہے۔ سوئس بینکوں میں ان کے پیسے کس لئے پڑے ہوئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے عدالتی نظام میں کوئی نہ کوئی کمزوریاں ضرور ہیں جن کی مدد لے کر ہر آدمی آزادی سے گھوم بھی رہا ہے اور جیل جانے سے بھی بچا ہوا ہے اور جو جیل چلے جاتے ہیں بھی ضمانتیں لے کر باہر آ جاتے ہیں اور جو جیل چلے جاتے ہیں وہ پھر وہاں لیڈر آف اپوزیشن ہونے کا فائدہ اٹھا کر ٹیکنیکل سہولتوں کی وجہ سے بچ جاتے ہیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یا تو طے کر لیا جائے کہ سب کو عام معافی ایمنسٹی کا اعلان کر دیا جائے کہ جناب جو کسی نے لوٹ لیا آج کے دن تک کے لے کسی کو پکڑ نہیں ہے ورنہ جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں جن کے بارے میں ثبوت آ چکے، جن کے بارے میں جے آئی ٹیز بیٹھ چکی ہیں جن کے بارے میں وعدہ معاف گواہ سامنے آ رہے ہیں جن کے فرنٹ مین اندر پکڑے جا چکے ہیں جن کے لوگ تمام اعداد و شمار اور چیکوں کی نقول دے چکے ہیں پھر اس کے بعد بھی وہ لوگ ٹھاٹ سے باہر گھول رہے ہیں اور جس بھی عدالت کی میں خبر دیکھتا ہوں اس سے لگتا ہے کہ 20 دن کی 25 دن کی عبوری ضمانت مزید برھا دی گئی ہے تجاوزات کے کیس میں جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہاں تھے وہ بلدیاتی وزیر جو کہتے تھے کہ ایک بھی بلڈنگ نہیں گرائیں گے دوسری طرف سیکرٹری دفاع نے جو رپورٹ دی گئی اس میں عدالت کو نوٹس جاری کر دیا گیا ہے سعید غنی کو اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا ہے کہ یہ ساری چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ کہیں نہ کہںی کوئی پرابلم ضرور ہے جس کی وجہ سے جو اصل مجرم ہیں ان کو بچایا جاتا ہے اور ہم کیوں نہیں جاتے کہ اگر پچھلی حکومتوں کی وجہ سے ہم قرضوں کے جال میں پھنسے ہوئے تو اس جال میں جکڑے ہونے کی وجہ سے ہم مجبور ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہیں آئی ایم ایف کے طعنے تو ہر بندے کو ملتے ہیں لیکن یہ طعنہ کوئی نہیں دیتا کہ پچھلے لوگ جو ہیں ان کو کس لئے گرفتار ہونے سے بچایا جا رہا ہے کون سا سسٹم ہے جو ان کو بچا رہا ہے۔ شبر زیدی صاحب کو اعزازی طور پر تعینات کر دیا ہے یہ بہت چھوٹی باتیں ہیں اصل بات وہی ہے جو میں نے کہی ہے کہ ار پچھلی حکومتوں کی وجہ سے ہم آج مشکل میں ہیں تو پھر ہم نے ان حکمرانوں کے خلاف کیا ایکشن لیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب ایک بات طے کر لینی چاہئے کہ ہم واقعی سیریس ہیں کرپٹ لوگوں کو سزا دلوانے میں یا ہم چور دروازے تلاش کرنے میں ہم ان کی مدد کر رہے ہیں۔ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ ہمارا پورا نظام جو ہے کرپٹ افراد کی مدد کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سسلم جو ہے وہ کرپٹ لوگوں کو، بے ایمانوں کو اور لوٹ مار کرنے والوں کو بچاتا ہے۔
آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا تھا تو چار ماہ پہلے ہی یہ کام کر لیتے۔ آج حالات کچھ اور ہوتے، اب تو گردن تک قرضوں کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حکومت کو بتانا چاہئے کہ دوست ممالک سے آنے والے 8 ارب ڈالر کہاں استعمال کئے گئے۔ نئے بلدیاتی نظام کو چیلنج کر دیا گیا ہے کہ 2021ءسے پہلے موجودہ بلدیاتی سسٹم کو ختم نہیں کیا جا سکتا اس سے ہائیکورٹ نے سماعت کیلئے لارجر بنچ تشکیل دیدیا ہے حتمی فیصلہ عدالت ہی کرے گی جس کا انتظار کرنا چاہئے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv