تازہ تر ین

50 لاکھ گھروں کی تعمیر سے روزگار کے مواقع ، صنعتی انقلاب آئیگا : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ 50 لاکھ گھروں کے حوالے سے نیت نیک ہونی چاہئے تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی نہ ملے، اس لئے کہ زمین جو ہے حکومت نے دینی ہے باقی جو اس پر جو کوئی انویسٹمنٹ ہونی ہے اگر سٹیٹ بینک اجازت دیدے اور بینکوں کو گائیڈ کر دے گا کہ وہ آسان قسطوں پر لوگ جو ہیں وہ بڑی آسانی سے یہ جو گارنٹی والے گھر ہیں وہ لے سکیں اور آہستہ آہستہ پیسے جمع کروا سکیں گے میں سمجھتا ہوں کہ 50 لاکھ گھر اگر یہ پروجیکٹ جو ہے سرے چڑھ گیا اس سے نہ صرف یہ کہ لوگوں کو گھر مل جائیں گے بلکہ بہت بڑا پیمانے پر تعمیراتی سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی جس سے لیبر کام پر لگے گی اس میں بہت سے شعبے سیمنٹ، لکڑی، پتھر کے کام کا اس کے لئے درکار ہو گا۔ اس سے متعلقہ صنعتیں جو ہیں ان کو ترقی ملے گی۔ یہ پراجیکٹ سے لوگوں کو گھر، روزگار پر مہنگائی میں کمی ہو گی۔ اگر کسی شخص کو اپنا کام، اپنی چھت مہیا کر دی جائے اور اس کو ماہانہ کرایہ ادا نہ کرنا پرے۔ یہ بہت بڑا پراجیکٹ ہے کوئی وجہ نہیں کہ اس سے ملک میں صنعتی انقلاب نہ آئے۔ اپوزیشن کا یہ کہنا کہ شاہ محمود قریشی کا الیکشن کمیشن ممبران سے کیا تعلق ہے ضیا شاہد نے کہا کہ شاہ محمود قریشی میں شائستگی ہے میں نے ان کو کبھی لوز ٹاک کرتے نہیں دیکھا۔ وہ سب کی عزت کرتے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو رحمان ملک کیا کرتے تھے کہ جہاں کہیں رکتے تھے معاملہ اڑ پھنس گیا تو رحمان ملک کو استعمال کیا جاتا تھا۔ موجودہ کابینہ میں بعض وزراءایسے ہیں جو کہ وہ پرابلم شوٹر ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ مل کر کام کرتے تو کوئی وجہ نہیں کہ جو ٹینشن ایریاز ہیں وہ ختم نہ ہو سکیں۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہا کہ پچھلے کئی برسوں سے فوجی عدالتوں ہی کی وجہ سے ملک میں دہشتگردی کا خاتمہ ہوا ہے اور فوجی عدالتوں کے فوری ایکشن ہوا ہے اور اس کی وجہ سزائیں نافذ ہوا اور اس کا اثر ہوا۔ اگر سول کورٹس میں 20,20 سال تک مقدمہ لٹکتے رہتے تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا اور عام طور پر کیا جاتا ہے کہ دادا کے نام کے زمانے میں ایک مقدمہ درج ہوا اور پوتا ابھی جوان ہو گیا ہے لیکن مقدمہ ابھی چل رہا ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ خاص طور پر دہشت گردی کے معاملات میں فوجی عدالتوں کا رول بہت اہم ہے پیپلزپارٹی کے لوگوں کو بھی چاہئے کہ اس پر سیاست نہ کرے بلکہ یہ دیکھے کہ اس قسم کی بہت تیزی سے کام کرنے والی عدالتیں نہ ہوتیں تو کسی بھی طریقے سے دہشتگردی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اب چاہئے کہ تمام سیاسی جماعتیں دہشتگردی کے خاتمے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کریں اور اس کو بنیاد نہ بنائیں اس کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں اس کو سیاسی بارگیننگ کے لئے استعمال نہ کریں۔ اگر کسی کے خلاف کوئی ایسا کیس اٹھایا جاتا ہے جو باقی بدانتظامی کا ہے تو اس کے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ پچھلے 3 دنوں سے بہت سارے جو ہمارے ادارے تھے وہ ننگے ہو گئے مثال کے طور پر نوازشریف کی روبکار کے مسئلے پر اسے پروگرام میں میں نے سب سے پہلے اس بات پر بڑے شدومد کے ساتھ اس معاملے کواٹھایا تھا۔ جس طرح انہیں ریلیف ملا ہے اور جس طرح سے ان کے ڈاکٹرو ںنے کہہ دیا ہے کہ 6 ہفتے میں علاج ممکن نہیں لہٰذا ان کو مزید اور مہلت دینا ہو گی جس طرح سے ان کی روبکار چارٹرڈ طیارے سے آئی ہے۔ اگر اس سے محسوس نہیں ہوتا کہ پاکستان میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں لوٹ مار کی جائے خوب دبائے اور جب آپ کے پاس بہت پیسے ہوں تو پھر ساری چیزیں آپ کے حق میں ازخود ریلیف بھی مل جاتا ہے سہولتیں بھی مل جاتی ہیں اور اگلے ہی دن اہلکاروں کو جن کو اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں جنہوں نے یہ روبکار لے جانے کے لئے جہاز سے سفر کروایا گیا کیا اس سے ظاہر نہیں ہوتا کہ لوٹ مار کرنے کے بعد آپ کے پاس پیسہ ہونا چاہئے۔ پیسے سے ساری سہولتیں آ جاتی ہیں۔ چار بجے کے بعد روبکار نہیں تسلیم کی جا سکتی لیکن رات کے ایک بجے کے بعد بھی ہو سکتی ہے اس کے لئے چارٹرڈ طیارہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ جوظاہر کرتاہے کہ کرپشن کی بنیاد پر آنے والی لیڈر شپ وہ اس کی عادی ہو چکی ہیں کہ پیسے دے کر سہولتیں حرید لی جائیں۔ سیاست کو کرائم سے الگ رکھنا چاہئے کرائم دہشت گردی کی شکل میں ہو یا قتل کی شکل میں ہو یا جس کو بھیانک جرمکہتے ہیں ان کے سلسلے میں جو بھی مرتکب ہے اس کو کڑی سزا ملنی چاہئے اور اس راستے میں کوئی رعایت نہیں ہونی چاہئے اس کے ساتھ ساتھ سیاستدانو ںکو اپنے خلاف جو مقدمات ہیں ان کے سلسلے میں یہ جو سندھ، بلوچستان، پنجاب کارڈ خیبر پختونخوا کارڈ نہیں کھیلنے چاہئیں اور پاکستان کو پاکستان کی حیثیت سے دیکھنا چاہئے اس کو اس طرح سے حصے بخرے کر کے ایک حصے کو دوسرے حصے سے لڑانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔
سیاست کو جرم سے الگ رکھنا چاہئے۔ جرم دہشتگردی، قتل ہو یا کوئی اور سنگین واردات پر ذمہ دار کو کڑی سزا ملنی چاہئے۔ سیاستدانوں کو اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنا چاہئے اوران مقدمات سے بچنے کیلئے صوبائی کارڈ نہیں کھیلنے چاہئیں۔
قانون کو پس پشت ڈال کر روبکار لانے والے دو اہلکاروں کو معطل کرنے کا ٹھیک فیصلہ کیا گیا۔ نوازشریف نے صرف چند گھنٹے پہلے رہائی کیلئے جس طرح چارٹرڈ طیارے کے ذریعے کاغذات منگوائے اس سے لگتا ہے کہ وہ یہ چیز پیسے سے خریدنا چاہتے ہیں۔ ملک کا سارا نظام ہی پیسے والوں کو سہولت دینے کے گرد گھوم رہا ہے۔ میڈیا ایک پاور فل میڈیم کے طور پر سامنے لاتا ہے 2 اہلکاروں کی معطلی سے پتہ چلتا ہے کہ پیسے کے زور پر ملنے والی سہولتوں کا راستہ روکا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن ممبران کی تقرری کے حوالے سے نام دے کر راستے کی رکاوٹ کو دور کر دیا ہے اب حکومت اور اپوزیشن متفق نہ بھی ہوں تو بھی نام کو سامنے آئیں گے اور یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا مودی سرکار نے خلائی ٹیکنالوجی میں انقلاب برپا کرنے کا جو دعویٰ کیا ہے دنیا نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ کسی ملک یا متعلقہ بڑے ادارے نے اس دعوے کی تائید نہیں کی بلکہ حیرت کا اظہار کیا ہے۔ جس طرح بھارت کے ماضی میں کئے گئے دعوﺅں کی قلعی کھلی اسی طرح اس دعوے کی قلعی بھی بیچ بازار کھلے گی۔ نیب کے پلی بار گین قانون بارے کافی عرصہ سے بحث جاری ہے کہ اس کا اطلاق کیسے کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے تفصیلات طلب کر لی ہیں اب اس قانون میں اگر کوئی سقم ہو تو دور کر دیا جائے گا۔ خواتین پر تشدد کے واقعات کومعمولی مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کرنا دانشمندی نہیں کہ ایسے واقعات معاشرے کی منفی عکاسی کرتے ہیں ان واقعات کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہئے اور ذمہ داران کو سخت سزا دینی چاہئے، ایسا نہ کیا گیا تو یہ واقعات بڑھیں گے اور یہ شخص قانون کو ہاتھ میں لے گا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



آج کی خبریں



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv