تازہ تر ین

غربت ختم کرنے کیلئے جہاد شروع کر دیا : عمران خان

اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ غربت کے خاتمے کے لئے سب کو مل کر جہاد کرنا ہے، تخفیف غربت کا کوئی ایک فارمولہ نہیں بلکہ یہ جامع اقدامات کا متقاضی ہے، ”احساس“ کے نام سے تخفیف غربت کے لئے جو پروگرام شروع کیا جا رہا ہے اس کے نتیجہ میں پاکستان غربت سے نکلے گا، پسماندہ اور کمزور طبقات کے لئے 80 ارب روپے کا اضافہ کیا جا رہا ہے، اس رقم کو آئندہ دو سالوں میں 120 ارب تک بڑھایا جائے گا، کسی حکومت نے غربت کم کرنے کے لئے اتنی رقم خرچ نہیں کی، 57 لاکھ خواتین کے سیونگ اکاﺅنٹس بنائے جائیں گے، دیہات میں غریب خواتین کو دیسی مرغیاں اور بکریاں دیں گے، ہر شہر میں بے سہارا افراد کے لئے پناہ گاہیں بنائیں گے، بلا سود قرضوں کے لئے پانچ ارب روپے رکھے گئے ہیں، پاورٹی ایلیویشن فنڈ میں 25 ارب روپے فراہم کئے گئے ہیں، سب سے پسماندہ 45 اضلاع کے 1200 دیہات میں کنیکٹیویٹی فراہم کی جائے گی، پاکستان کی تاریخ کا سب سے بہترین بلدیاتی نظام متعارف کرایا جائے گا، حکومتی اراضی پر جتنے بھی کھوکھے ہیں ان میں غریبوں کا کوٹہ مقرر کیا جائے گا، اسلام آباد کی کچی آبادیوں کے مکینوں کو فلیٹ بنا کر مالکانہ حقوق دیئے جائیں گے۔ وہ بدھ کو کنونشن سینٹر میں پاورٹی ایلیویشن کوآرڈینیشن کونسل کے تحت ”احساس“ کے نام سے تخفیف غربت کے جامع پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر وفاقی وزرائ، کابینہ کے ارکان اور عوام کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ وزیراعظم نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو تخفیف غربت کے حوالے سے جامع دستاویز تیار کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے غربت کے خاتمہ کا جہاد شروع کیا ہے، انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اﷲ جتنا زیادہ دیتا ہے وہ اس پر اتنی ہی ذمہ داری بھی ڈال دیتا ہے کہ وہ ان کے لئے کیا کرتے ہیں جن کو زیادہ نہیں دیا، یہی اصل زندگی کا امتحان ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر معاشرے سے غربت کم کرنی ہے تو اس کا کوئی ایک فارمولہ نہیں ہے، یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کوئی ایک چیز کریں گے تو غربت کم ہو جائے گی، غربت کے خاتمے کے لئے بہت سے اقدامات اٹھانا پڑتے ہیں، اس پروگرام کی کامیابی کیلئے اس کو نافذ کرنا ہے، اس کے لئے وزیراعظم، حکومت، وزرائ، سب مل کر جہاد کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان دنیا میں اسلام کے نام پر بننے والا ملک ہے جس کے لئے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاﷲ کا نعرہ لگایا گیا لہٰذا ہمیں اسلامی تعلیمات اور ریاست مدینہ کے ماڈل کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا تھا اور اس ضمن میں عملی اقدامات درکار تھے لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس ملک میں کسی نے ابھی تک کوئی تحقیق نہیں کی اور اس ماڈل کی پیروی نہیں کی، ہر چیز کا ایک ماڈل ہوتا ہے، دنیا میں لوگ رول ماڈل ہوتے ہیں، جو بھی انسان کامیاب ہوتا ہے لوگ اس کی زندگی سے سیکھنا چاہتے ہیں، دنیا کے سب سے کامیاب انسان ہمارے نبی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم آپ کی کامیابیوں کے سب معترف ہیں، ان کی کامیابیوں کے بارے میں مغرب میں کتاب لکھی گئی، اس میں انہیں سرفہرست شخصیت قرار دیا گیا۔ انہوں نے وہ ریاست بنائی جو مدینہ کی ریاست تھی، مسلمانوں کی تہذیب کی بنیاد رکھی، 700 سال تک دنیا کی اولین ریاست تھی، وہ ہر میدان میں آگے تھی، سائنس، فلسفہ سمیت مختلف شعبہ جات میں یہ تہذیب پیش پیش تھی۔ سپین میں مسلمانوں کی لائبریری سے یورپی باشندے علم لے کر گئے، یورپ میں وہ ایک ماڈل تھا، ہمیں اس ماڈل کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے اصول کیا ہیں، اس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ اس میں انسانوں کے لئے رحم تھا، پہلے دنیا کی فلاحی ریاست بنی تھی وہ ریاست جس نے اپنے کمزور طبقے کی ذمہ داری لی تھی، یہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، یورپ میں سکینڈینیویا ممالک میں نظر آتا ہے کہ ریاستوں میں غریب طبقے کے لئے رحم، احساس اور فکر پایا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے حضرت عمرؓ کا قول کا حوالہ دیا کہ کتا بھی بھوکا مرے تو میں ذمہ دار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یورپ میں کتے بھوکے نہیں مرتے، ان کو اٹھا کر گھروں میں لے جاتے ہیں، ان کو لوگ کھانا دیتے ہیں، جنہوں نے وہ قوانین اور اصول اپنائے جو مدینہ کی ریاست میں تھے وہ ترقی کی دوڑ میں آگے نکل گئے جبکہ ہم اس کے برعکس چلے گئے ہیں۔ انہوں نے ملک میں صحت کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 43 فیصد پاکستانی بچوں کی اسٹنٹڈ گروتھ ہے، ہمارے ملک کے بانیان کا تصور واضح تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست بنے گی، آج آپ دیکھ لیں کہ ان کے وژن کے حوالے سے ہم کہاں تک پہنچے ہیں۔ وزیراعظم نے غربت کے خاتمہ سے متعلق پروگرام کی دستاویز کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وضع کی گئی ہے اور اس راستے سے رجوع کرنے سے متعلق مخلصانہ کوشش ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ انسانیت کی مدد کا راستہ اﷲ کا راستہ ہوتا ہے، یہ وہ راستہ ہے جس کا ہر مسلمان پانچ وقت کی نماز میں اﷲ تعالیٰ سے طلب گار ہوتا ہے کہ اﷲ مجھے اس راستے پر لگا جس راستے پر تو نے لوگوں کو نعمتیں بخشی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی راستہ کا ہمارا نظام متقاضی ہے، ہم نے کامیاب ہونا ہے یا نہیں ہونا، وہ اﷲ کے ہاتھ میں ہے، صرف کوشش ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب انہوں نے والدہ کے نام پر شوکت خانم ہسپتال بنانے کا سوچا تو اس کا محرک ایک بوڑھا شخص تھاجو کینسر کا مریض تھا اور میو ہسپتال کے باہر لیٹا ہوا تھا، اس کا بھائی خود سارا دن مزدوری کرتا تھا تاکہ اپنے بھائی کا علاج معالجہ کرا سکے۔ یہاں سے مجھے یہ خیال آیا کہ ہمارے ملک میں بھی ہسپتال ہونا چاہئے جہاں عام آدمی کینسر کا علاج کرا سکے اور اسے فکر نہ ہو کہ اگر اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو اس کا اور اس کے گھر والوں کا علاج ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کسی گھر میں کینسر کا مریض ہو تو اس گھر میں بہت مشکل آ جاتی ہے، اب تو اﷲ کا شکر ہے کہ اس مرض کا علاج موجود ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے جب ہسپتال شروع کیا تو تین چار سال میں پھرتا رہا اور مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ میں نے کیا کرنا ہے کیونکہ مجھے بتایا گیا کہ کینسر ہسپتال بنانا بہت مہنگا منصوبہ ہے، بن ہی نہیں سکتا، غریبوں کا علاج مفت ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر میں نے ہسپتال بنانا شروع کیا اور پیسے اکٹھے کرنے شروع کئے، جب ستر کروڑ روپے کا پراجیکٹ شروع کیا تو ایک کروڑ روپے بینک میں تھا اور ایک دن بھی یہ منصوبہ نہیں رکا۔ انہوں نے کہا کہ 70 کروڑ میں ہسپتال بننا تھا اور ہر سال 70 سے 75 فیصد مریضوں کے مفت علاج کی وجہ سے 600 کروڑ روپے کا خسارہ ہونا تھا لیکن ہر سال یہی قوم گزشتہ سال سے زیادہ پیسے دے دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرمیں اپنی عقل کی بات مانتا تو یہ ہسپتال نہ بنتا لیکن جب اﷲ کے لئے کام کیا جائے تو انسان صرف کوشش کرتا ہے اور مدد اﷲ کرتا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر چین کی مثال پیش کی اور کہا کہ 30 سال پہلے چین کا کیا حال تھا، 70 کروڑ لوگوں کو 30 سال میں غربت سے نکالنے کا منصوبہ بنایا گیا اور یہ سوچا گیا کہ چین دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت بنے گا، پھر انہوں نے وہ فیصلے کئے جو آج ہم کرنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسا نہیں ہوگا کہ ایک طبقہ امیر ہو اور باقی غریب۔ انہوں نے غربت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ آئندہ تین سال میں ان کی ساری غربت ختم ہو جائے گی۔ ہم نے جو پروگرام بنایا ہے اس سے بھی پاکستان کے عوام غربت سے نکلیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آئین کی دفعہ 38-D جس میں عوام کے بنیادی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ پرنسپلز آف پالیسی ہیں۔ ہم نے آئین میں ترمیم کر کے اس کو عوام کا بنیادی حق بنانا ہے تاکہ عوام حق نہ ملنے کی صورت میں عدالت سے اپنے بنیادی حق کے لئے رجوع کر سکیں۔ یہ پہلا قدم ہے اور اس کے ذریعے حکومت خود اپنے اوپر ایک دباﺅ ڈال رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کے پسماندہ اور کمزور طبقات کے لئے 80 ارب روپے کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ 2021ءتک 120 ارب مزید بڑھائیں گے۔ کسی حکومت نے غربت کے خاتمہ کے لئے اتنا پیسہ خرچ نہیں کیا۔ سوشل پروٹیکشن اینڈ پاورٹی ایلیویشن کے نام سے نئی وزارت قائم کی جائے گی جو اس پروگرام کی کوآرڈینیشن کرے گی تاکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، بیت المال اور زکوٰة کے اداروں سمیت جو کئی ادارے عوامی فلاح و بہبود کا کام کر رہے ہیں، ان کو ایک جگہ سے کوآرڈینیٹ کیا جا سکے۔ پاورٹی کونسل اور پاورٹی ایلیویشن کے اداروں سمیت تمام ادارے ایک وزارت کے تحت کام کریں گے۔ ایک ڈیٹا بیس بنایا جائے گا جو دسمبر تک مکمل ہوگا اور اس میں تمام تفصیلات اور صحیح اعداد و شمار موجود ہوں گے اور تمام علاقوں کا ریکارڈ مرتب کیا جائے گا۔ یہ سب نظام کمپیوٹرائزڈ ہوگا۔ ون ونڈو آپریشن کے ذریعے عوام کو ایک ہی جگہ ساری سہولیات فراہم کریں گے تاکہ انہیں ادھر ادھر نہ جانا پڑے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کفالت کا مطلب سروے کر کے مالی امداد دینا ہے۔ اس سلسلے میں ایک سروے پہلے ہو چکا ہے، اس کے مطابق فی الحال پیسے دیئے جائیں گے، دسمبر میں نیا سروے مکمل ہو جائے گا جس کے بعد اس سروے کے مطابق کام کو آگے بڑھایا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ 57 لاکھ خواتین کے سیونگ اکاﺅنٹس بنائے جائیں گے اور ان کو موبائل فونز دیں گے جس کے ذریعے وہ بینک اکاﺅنٹس تک رسائی حاصل کر سکیں گی۔ اس طرح پیسہ صحیح جگہ جائے گا اور شفافیت آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ نقد رقم کو 5 ہزار سے بڑھا کر ساڑھے 5 ہزار روپے کیا جا رہا ہے۔ 500 ڈیجیٹل حبز بنا رہے ہیں جو تحصیلوں میں ہوں گے اور یہ غریبوں کے لئے مواقع پیدا کریں گے۔ خواتین کو بینک اکاﺅنٹس کی سہولیات بھی یہاں سے حاصل ہوں گی اور نوکریوں تک رہنمائی اور معلومات بھی فراہم کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت صرف نقد رقم نہیں بلکہ زندگی کو بہتر کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ تحفظ پروگرام دوسرا پروگرام ہے جس کے تحت کوئی مشکل آنے کی صورت میں قانونی مدد فراہم کی جائے گی کیونکہ غریب لوگوں کے پاس وکیل کرنے کے لئے پیسے نہیں ہوتے۔ حکومت عوام کو قانونی امداد کی فراہمی کا پروگرام لا رہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت تعلیمی گرانٹس بھی دی جائیں گی تاکہ پسماندہ علاقوں میں جن کے پاس تعلیم کے لئے وسائل نہیں، ان کی مدد کی جا سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے صحت انصاف کارڈ متعارف کرایا جس کے ذریعے 7 لاکھ 20 ہزار کی رقم سے کوئی خاندان علاج معالجہ کی سہولیات حاصل کر سکے گا اور تحفظ پروگرام کے تحت جن کے پاس انصاف کارڈ کی سہولت میسر نہیں، ان کی مدد کی جائے گی اور ڈیٹا بیس میں بھی لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی بیوائیں جن کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں، ان کی مدد کی جائے گی۔ ہم این جی او سے بھی شراکت داری کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں کے عوام دنیا میں سب سے کم ٹیکس دیتے ہیں لیکن یہ دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک میں شامل ہے۔ این جی اوز کے ساتھ مل کر مربوط کوششیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم نے شیلٹرز ہوم بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ فٹ پاتھوں پر سونے والوں کو پناہ مہیاءکی جا سکے تو شیلٹر بنتے ہی لوگ خود آ کر ان افراد کے لئے لنگر چلانے کی ذمہ داری لے لیتے تھے۔ شیلٹر ہومز میں حکومت کا پیسہ خرچ نہیں ہو رہا، لوگ خود آ کر وہاں مدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلی دفعہ اس طرح کا پروگرام شروع کیا جا رہا ہے اور آج کا دن اس پروگرام کے افتتاح کے حوالے سے ایک یادگار دن ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سٹریٹ چلڈرن کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے کام کیا جائے گا، خانہ بدوشوں اور ٹرانس جینڈر کی بھی مدد کریں گے۔ اس کے علاوہ جبری مشقت کا شکار افراد، بچوں اور ایسے ڈیلی ویجز ملازمین کی بھی مدد کی جائے گی جن کو کام نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ اگلے چار سال کے دوران 10 ہزار یتیم بچوں کو بیت المال فنڈ کرے گا اور ان کے لئے سویٹ ہومز کی طرز پر گھر بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کارڈز کی تقسیم میں 38 اضلاع شامل ہیں جن کے ذریعے 33 لاکھ افراد کو آئندہ چار سالوں میں علاج معالجہ کی سہولیات میسر آئیں گی، 33 ارب روپے انصاف انشورنس کے لئے دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کو انصاف کارڈ نہیں ملے گا ان کو تحفظ پروگرام کے ذریعے ہیلتھ کوریج فراہم کی جائے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ سٹنٹنگ گروتھ ہے۔ ہم نے نیوٹریشن کے لئے 9 پالیسیاں بنائی ہیں کیونکہ اس کی بہت ضرورت ہے۔ ہماری ماﺅں اور بچوں کو مناسب غذا میسر نہیں۔ ان کو صرف نیوٹریشن پیکیج نہیں بلکہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور صاف ستھرے ماحول کی بھی ضرورت ہے۔ بنیادی طبی مراکز پر بچوں کو پیٹ کے کیڑوں کی ادویات اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ بریسٹ فیڈنگ کی آگاہی مہم شروع کی گئی ہے۔ وزیراعظم آفس میں پہلی بار ملٹی سیکٹورل کوآرڈینیشن باڈی بنائی جائے گی جہاں ہم اس کی نگرانی کریں گے۔ وزیراعظم نے انکشاف کیا کہ شہروں میں آنے والے دودھ کا جب ٹیسٹ کرایا گیا تو 75 فیصد کھلا دودھ پینے کے قابل نہیں نکلا اور ایسی چیزیں سامنے آئیں کہ سارا شہر دودھ نہیں بلکہ واشنگ مشین میں پاﺅڈر سے بنایا گیا کیمیکل پی رہا تھا۔ یہ ظلم ہے کہ ہمارے بچوں کو پینے کے لئے خالص دودھ نہیں مل رہا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اور لاہور سے عوام کو صحیح دودھ کی فراہمی کے لئے منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے۔ ہم نے خواتین کی مدد کرنی ہے تاکہ دیہات میں جو غربت ہے اس کو خواتین کی مدد کر کے دور کیا جا سکے۔ اس کے لئے خواتین کو بکریاں فراہم کی جائیں گی تاکہ انہیں اور ان کے بچوں کو دودھ حاصل ہو سکے، دیہات میں دیسی مرغیاں بھی دی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ شہروں میں لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ اس کی کیا اہمیت ہے، ساری دنیا میں غریب عوام کی غذائی ضروریات پوری کرنے اور آمدن بڑھانے کے لئے اس طرح کے منصوبے شروع کئے گئے۔ دیہات میں کچن گارڈننگ کے لئے بیج بھی دیئے جائیں گے، اس سے غریب گھرانوں کی آمدن میں بھی اضافہ ہوگا اور ان کی ضروریات بھی پوری ہوں گی۔ یوٹیلٹی سٹورز پر سبزیوں کے بیج فراہم کئے جائیں گے، اس طرح کی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بہت بڑا فرق آتا ہے۔ جن ملکوں کے پاس پیسہ نہ ہو وہاں ذہن استعمال کر کے غریب عوام کی مدد کے طریقے ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے 10 برسوں میں ملک میں قرضہ 6 ہزار ارب روپے سے 30 ہزار ارب روپے ہوگیا۔ ایک دن میں 600 کروڑ روپے قرضوں کے سود کی مد میں دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریبوں کے لئے اس طرح کے پروگرام شروع کرنے سے اﷲ کی مدد شامل حال ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ تین سے چار ہفتہ میں تیل و گیس کے لئے جو جہاز کھڑا ہے اﷲ نے کرم کیا تو اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئیں گے۔ انہوں نے ثانیہ نشتر کو بہترین پروگرام پیش کرنے پر ایک بار پھر خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ اس پروگرام کے تحت خصوصی افراد جو کسی حادثہ یا بیماری کی وجہ سے معذور ہو گئے ہوں، کی بھی مدد کی جائے گی۔ مدینہ کی ریاست میں معذوروں کے لئے بھی وظیفہ مقرر تھا، آج یورپ میں بھی اسی پر عمل ہو رہا ہے۔ خصوصی افراد کو خصوصی سٹکس، وہیل چیئرز اور دیگر آلات فراہم کئے جائیں گے۔ پسماندہ اضلاع میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے بھی سینٹرز کھولے جائیں گے۔ بیرون ملک پاکستانی محنت کشوں کے لئے آسانیاں فراہم کی جائیں گی اور سفارت خانوں میں کمیونٹی ویلفیئر اتاشی تعینات کئے جائیں گے۔ بیرون ملک جانے والے شہریوں کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں گی اور ان کی رہنمائی کے لئے بریفنگز کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ون ونڈو آپریشن شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کوشش کرے گی کہ بیرون ملک جانے والوں کو تین سال کا کنٹریکٹ ملے اور حکومت ان کے پیچھے کھڑی ہو کیونکہ ایک سال کے کنٹریکٹ کی وجہ سے وہ بمشکل ہی کچھ کما سکتے ہیں۔ انہیں اسپیشل ٹکٹس دیئے جائیں گے تاکہ وہ باآسانی اپنے گھر والوں سے مل سکیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ بے سہارا افراد کے لئے مزید پناہ گاہیں بنائی جائیں گی، ہر شہر میں اس طرح کے سینٹرز قائم کئے جائیں گے۔ بلاسود قرضوں کے لئے وزیر خزانہ نے پانچ ارب روپے مختص کئے ہیں۔ دیہات میں بھی جن کے پاس گھر بنانے کے لئے پیسہ نہیں ان کو قرضے دیئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار خلافت راشدہ کے دور میں بوڑھوں کے لئے پنشن اور وظائف کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ موجودہ حکومت اسی کی پیروی کرتے ہوئے بوڑھوں اور پنشنرز کے لئے اقدامات کرے گی۔ ای او بی آئی کے تحت پنشن میں اضافہ کا فیصلہ کیا ہے، پنشن 5200 روپے سے 6500 روپے تک بڑھائی جا رہی ہے اور اس کا بائیو میٹرک سسٹم لاگو کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بیت المال بزرگ شہریوں کے لئے پانچ احساس گھر بنائے گا جس میں بعد ازاں توسیع کی جائے گی۔ پسماندہ اور غریب علاقوں کے طلباءکو آئین کی دفعہ 25-A کے تحت ان کے تعلیم کے حق کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے گی اور ان کو پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے واﺅچرز بھی دیئے جائیں گے۔ ٹیلی ایجوکیشن اور ای لرننگ کا نظام دور دراز علاقوں کے لئے شروع کیا جائے گا۔ انٹرنیٹ سروس کا دائرہ وسیع کیا جائے گا تاکہ وہ گھر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکیں، ان لوگوں کو فون بھی پہنچانے ہیں تاکہ وہ ماڈرن ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائیں۔ ابتدائی تحقیق ہے کہ موبائل فون سے بھی لوگ اپنے معیار زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تین ارب روپے ہائر ایجوکیشن کے لئے ان اضلاع میں دینے کا فیصلہ کیا ہے جو پیچھے رہ گئے ہیں۔ اب تک ہمارا این ایف سی ایوارڈ آبادی کے لحاظ سے جاتا ہے۔ ہم نے اس حوالے سے بھی بات چیت کی ہے۔ پروانشل فنانس ایوارڈ میں پسماندہ اضلاع کو زیادہ پیسے دیئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں راجن پور کا علاقہ پسماندہ ترین علاقوں میں شامل ہے، وہاں ایک فرد پر خرچ اڑھائی ہزار روپے آتا ہے جبکہ لاہور میں اوسطاً ایک فرد پر 70 ہزار روپے خرچ ہے۔ اس طرح غریب پیچھے رہ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل غربت دیہات میں ہے، دیہات میں کسانوں کے لئے زرعی پالیسی بنائی ہے جو انشاءاﷲ جلد منظر عام پر آ جائے گی، ہم نے اس حوالے سے بہت کام کیا ہے اور چھوٹے کسانوں کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک جو سبسڈی ملتی ہے اس کا فائدہ بڑا کسان اٹھا لیتا ہے، چھوٹا کسان اپنی پیداوار سستی بیچتا ہے اور جو چیزیں خریدتا ہے وہ مہنگی خریدتا ہے۔ بیچنے کے لئے وہ رکھ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس پر قرضے ہوتے ہیں اور اس کے پاس گودام بھی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ چین نے جب لوگوں کو غربت سے نکالا تھا تو اس نے کوآپریٹو فارمنگ کا نظام اختیار کیا تھا۔ پاکستان میں لائیو اسٹاک کے شعبہ میں بہت مواقع موجود ہیں۔ حلال گوشت کی فروخت کے ذریعے پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ 2 ہزار ارب ڈالر کی تجارت میں پاکستان کا حصہ ہے ہی نہیں۔ فشریز کے شعبہ میں بھی بڑے مواقع موجود ہیں۔ ہمارے پاس ایک ہزار کلو میٹر کا ساحل ہے۔ شہروں میں بھی اس کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں چین کے تجربات سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ سیم زدہ علاقوں میں شرمز بہت کامیاب طریقے سے پیدا کئے جا سکتے ہیں اور ان کے فارم بن سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ مزدوروں کے لئے قوانین کو بہتر بنایا جائے گا اور ان کے نفاذ کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ بھٹہ مزدوروں اور گھروں میں کام کرنے والوں کو اپنے حقوق کے بارے میں معلوم نہیں۔ دیہات میں کام کرنے والی خواتین کو بھی آگاہی فراہم کی جائے گی، استحصال ختم کریں گے۔ ڈیٹا بیس بنائیں گے اور ان کے لئے پنشن سکیم لائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم مشکل حالات سے دوچار ہیں، پیسے نہیں ہیں اس لئے ہم نے نئی چیزیں سوچنی ہیں جس کے ذریعے عام چھابڑی والے کی آمدن بہتر ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ نیویارک میں بھی ٹھیلے لگے ہوئے ہیں لیکن بلیو ایریا میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ ایلیٹ کے علاقے بنے ہوئے ہیں۔ ملک میں بے روزگاری کی صورتحال ہے اس لئے ہمیں غریب لوگوں کو خوبصورت ٹھیلے اور چھابڑیاں فراہم کرنی چاہئیں تاکہ وہ اپنا روزگار کما سکیں۔ انہوں نے کہا کہ فضلہ اٹھانے کے ٹھیکے دوسرے ملکوں کو دیئے گئے، اس کی بجائے اپنی افرادی قوت کو استعمال کر کے رکشوں کے ذریعے گندگی کو صاف کیا جائے گا۔ آن لائن سروسز فراہم کی جائیں گی تاکہ لوگوں کو نوکریاں حاصل کرنے میں سہولت ہو۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں سروے کے بعد کیش رقم دی جاتی تھی، اب کوشش کی جائے گی کہ ان کو ہنر بھی سکھائے جائیں تاکہ وہ اپنا روزگار خود کمانے کے قابل ہو سکیں۔ صرف نقد رقم دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ انہیں ہنر سکھا کر اور گائے بھینس فراہم کر کے بھی مدد کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے ہم نے پاکستان نیشنل پاورٹی ایلیویشن فنڈ میں 25 ارب روپے فراہم کئے ہیں، لوگوں کی آسانی کے لئے اس میں پانچ ارب روپے مزید ڈالے ہیں تاکہ وہ چھوٹے موٹے کاروبار شروع کر سکیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ عوام کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کے لئے رورل سپورٹ پروگرام کی مدد حاصل کی جائے گی۔ ملک میں 40 مائیکرو فنانس ادارے ہیں اور 400 ارب روپے ان کے پاس ہیں جن کے ذریعے غریبوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔ ان مائیکرو فنانس اداروں کو مزید پیسہ دیا جائے گا تاکہ کاروبار کر کے لوگ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ٹی سیکٹر سے بڑی نوکریاں پیدا کی جا سکتی ہیں اور گھر بیٹھے خواتین روزگار کما سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے صرف ان کو براڈ بینڈ اور کنیکٹیویٹی دینی ہے، اس سے ان کو مواقع مل سکتے ہیں کہ وہ گھر بیٹھے اپنی روزی کما سکیں۔ پوری حکومت کو ڈیجیٹلائز کیا جا رہا ہے، اس سے بھی پورے پاکستان میں کنیکٹیویٹی ہوگی۔ 1200 دیہات اور 45 غریب اضلاع میں تین کروڑ لوگوں کو کنیکٹیویٹی دے رہے ہیں۔ ٹیکنیکل سکلز کی فراہمی کے ذریعے لوگوں کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو جائیں۔ جو مزدور 100 روپے کماتا ہے تو سکلز کے ذریعے وہ 500 روپے کما سکتا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سکولوں کے اندر ہم نے ہنر سکھانے ہیں۔ یورپ میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ آٹھویں کلاس سے سکلز ایجوکیشن کو شروع کیا جائے گا۔ ہمارے سکلز ایجوکیشن کے جو ادارے ہیں اس میں داخلہ کے لئے عمر 18 سال سے کم کر کے 15 سال کر دی جائے گی تاکہ بچوں کو پہلے سے ہی سکلز سکھائی جائیں۔ ہم نے کے پی کے میں اپرینٹس شپ شروع کی تھی تاکہ طلباءدفاتر اور فیکٹریوں میں کا م کر سکیں۔ اوورسیز مارکیٹ میں بہتر نوکریاں انہی کو ملتی ہیں جو مختلف قسم کی تربیت سے آراستہ ہوتے ہیں، اس لئے نیوٹیک میں سرٹیفکیشن کو بہتر بنائیں گے اور باہر جانے والے پاکستانیوں کو بہتر تربیت کے بعد باہر بھیجیں گے۔ فلپائن کے کم لوگ باہر جاتے ہیں اس کے مقابلہ میں پاکستان کے لوگ زیادہ جاتے ہیں لیکن فلپائن زیادہ پیسے کماتا ہے کیونکہ ان کے پاس اسکلز ٹریننگ ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ورک فورس ہے ہم انہیں پوری ٹریننگ کروا کر باہر بھیجیں گے۔ 100 ڈالر سے کم بھیجنے والوں کی بینکنگ فیس آدھی کر دی جائے گی تاکہ رقوم بھیجنے کیلئے ان کے چارجز کم ہوں اور وہ بینکنگ نظام سے اپنا پیسہ پاکستان بھیج سکیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کی خواتین کو خوراک، تعلیم اور صحت کی سہولیات میسر نہ ہوں۔ بدقسمتی سے پورے برصغیر میں سب سے کم لٹریسی ریٹ ہمارا ہے، عورتوں میں یہ سب سے کم ہے۔ ہماری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دو چیزیں اسے روک سکتی ہیں، ایک پرائمری ایجوکیشن اور دوسری پرائمری ہیلتھ کیئر اور خاص طور پر خواتین کی ایجوکیشن میں پاکستان سب سے پیچھے ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے ہم خواتین پر سب سے زیادہ زور دے رہے ہیں۔ ہم پسماندہ علاقوں میں طلباءکے لئے جو ایجوکیشن واﺅچرز دیں گے اس میں پچاس فیصد بچیوں کو دیئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دیہی خواتین کو گائے، بھینسیں اور مرغیاں فراہم کی جائیں گی اور خواتین کو یکساں مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبہ کا اپریل میں افتتاح کیا جائے گا۔ اس منصوبے میں مرد اور عورت کو مشترکہ ملکیت دی جائے گی۔ ہم نے ایک اور فیصلہ کیا ہے کہ جو بھی حکومت کے سکولز اور بنیادی طبی مراکز ہیں ان کے باہر اس کے بجٹ اور اسٹاف کی تنخواہوں وغیرہ کی ساری تفصیلات آویزاں کی جائیں گی تاکہ عوام کو پتہ ہو کہ پبلک کا پیسہ عوام کی خدمت کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کارپوریٹ سیکٹرز سے مل کر ان علاقوں میں زیادہ کام کیا جائے گا جہاں کام کی زیادہ ضرورت ہے اور پسماندگی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ عوام کو بااختیار بنانے کا سب سے بڑا طریقہ انہیں غربت سے نکالنا ہے۔ ہم لوکل گورنمنٹ سسٹم لے کر آ رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا نے سب سے زیادہ تیزی سے غربت ختم کی ہے۔ اس میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کا بڑا کردار ہے۔ گاﺅں کی سطح پر لوگ منتخب کئے گئے۔ اس کے علاوہ سیاحت میں اضافہ ہوا جس سے خوشحالی آئی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ماضی کی غلطیوں کو دور کر کے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بہترین نظام لا رہے ہیں۔ ہم نے ایک اور فیصلہ کیا کہ حکومت کی زمینوں پر جو بھی کھوکھے لگیں گے جو بھی چھوٹی دکانیں لگیں گی اس میں غریب لوگوں کا کوٹہ ہوگا۔ ٹاﺅن اور تحصیل میں جب بھی آکشنز ہوتی ہیں وہاں ہم غریبوں کے لئے کوٹہ رکھیں گے۔ مارکیٹ کمیٹیوں میں بھی ڈیٹا بیس کے ذریعے غریب لوگوں کو شامل کیا جائے گا اور جتنے بھی نئے گھر بنیں گے ان میں غریبوں کا کوٹہ ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسلام آباد میں کچی آبادیوں کے لئے بھی ایک منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ان کو رجسٹرڈ کیا جائے گا اور ڈویلپرز لائیں گے جو کچی آبادی کے لوگوں کو زبردست فلیٹس بنا کر مالکانہ حقوق دیں گے۔ ترکی اور بھارت میں بھی اس طرح کا کام کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے اپنی پارٹی اور وزراءکو کہا کہ وہ انہیں پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جب بھی کوئی وزارت پی سی ون بنائے تو سوچے کہ اس میں غریب آدمی کا کیا حصہ ہے۔ 40 فیصد لوگوں کے پاس بنیادی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ اس لئے پالیسیاں بناتے وقت عام آدمی کی بہتری کا سوچیں۔ انہوں نے کہا کہ اﷲ چاہتا ہے کہ ہم اپنے دل میں احساس پیدا کریں، ان لوگوں کا احساس کریں جو ہماری طرح اچھی زندگی نہیں گذار پا رہے، وزیراعظم نے کہا کہ میری ساری زندگی کا فلسفہ ہے کہ کوشش اور نیت انسان کو کامیابی عطاءکرتے ہیں۔ قبل ازیں پاورٹی ایلیویشن کوآرڈینیشن کونسل کی چیئرپرسن ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے پسے ہوئے لوگوں اور پسماندہ علاقوں کے بارے میں سوچا اور ان کی فلاح و بہبود کو اپنا مشن بنایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام وسیع مشاورت کے بعد تشکیل دیا گیا ہے۔ پاکستان کو اس پروگرام کی اشد ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر چوتھا فرد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے جہاں اسے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ 40 فیصد آبادی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ 5 سال سے کم 41 فیصد بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ پسماندہ اور غریب عوام کی وسائل تک رسائی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ اس ریاستی اور حکومتی نظام کو بدلنے کے لئے تیار کیا گیا ہے جو تمام تر وسائل ایک مخصوص طبقے کی گرفت میں دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست سے بالاتر ہو کر ہمیں غریبوں کی مدد کے لئے اس پروگرام کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



آج کی خبریں



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv