تازہ تر ین

بلاول مریم نواز جس میثاق جمہوریت کی بات کرتے ہیں اس کا مطلب باریاں لینا تھا :معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ان حالات میں جب سیاستدان آپس میں ملتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ مل کر جمہوریت کے لئے کام کریں۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی کہا ہے۔ میثاق جمہوریت آپس کی ایک خفیہ یقین دہانی تھی کہ آپ کو ہم 5 سال پورے کرنے دیں گے اور آپ ہمیں پانچ سال پورے کرنے دیں اور باری لیتے رہیں گے تیسرے بندے کو بیچ میں نہیں گھسنے دیں گے اب بیچ میں آ گئے عمران خان صاحب یہ ہی تیسرے آدمی انہوں نے جمہوریت کے میثاق پر دستخط نہیںکئے ہوئے لہٰذا یہ ان کو برے لگتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کو بہت اچھے لگتے ہیں کہ انہوں نے ایک دوسرے کو ملکی سہارا دیا 5,5 سال ایک دوسرے کو حکومت کرنے دی اور اس میں کبھی رکاوٹ نہیں بنے یہ کبھی جنیوئن اپوزیشن نہیں بنے یہ ہمیشہ فرینڈلی اپوزیشن کے طور پر چلے ہیں اس لئے ان کو میثاق جمہوریت اس لئے نہیں بھولتی کہ میثاق جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے سے کمپرومائز کر کے ایک دوسرے کو باری پوری کرنے کا موقع دیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کا میثاق جمہوریت کا مطلب ہے کہ ہم دونوں کا تو اتفاق ہے کہ ایک دوسرے کو گزارا کرنے دیں گے کوئی تیسرا آ جائے گا تو ہم مل کر اس کے خلاف جدوجہد کریں گے دیکھتے جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ اس بندے کی حکومت جو ہمارے کہنے کے مطابق چلے تو جمہوریت تو پھر تو وہ جمہوریت ہے۔ اگر ہماری کرپشن ہمیں ٹوکا ٹوکی کرتے ہیں تو پھراس کا مطلب ہے کہ اٹھارویں ترمیم کو خطرہ لہٰذا یہ ساری چیزیں استعمال ہو رہی ہیں جمہوریت کے نام، اٹھارویں ترمیم کے نام ایک دوسرے کو تحفظ دیا جا رہا ہے اور دوپارٹیاں جو فیئر نہیں ہیں اپنی حکومت کے دوران یا حکومت کے بعد نہ اپنے ذاتی کاموں میں فیئر ہیں کون سی عدالت ہے جس میں ان کے خلاف انکوائریاں نہیں چل رہیں۔ اور یہ ثابت نہیں ہو رہا ہے کہ مالی بدعنوانیاں کی ہیں لیکن یہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جمہوریت کے لئے ہی لڑ رہے ہیں۔ جمہوریت کو بچانے کا مطلب ایک دوسرے کو بچانا ہے۔ یہ صرف سیاست ہو رہی ہے یہ بیماری کے حوالہ سے سیاست ہو رہی ہے ایک دوسرے کو جمہوریت کے نام تحفظ دینے کے سلسلے میں سیاست ہو رہی ہے۔ یہ سیاسی ڈرامہ ہے۔ جب بھی سیاستدان مل کر بیٹھے ہیں وہ کبھی یہ نہیں کہتے کہ ہم اپنی ذاتی ضرورتوں کے لئے مل بیٹھے ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت بچانے کے لئے مل بیٹھے ہیں۔
اس میں اپوزیشن بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جتنی حکومتی پارٹی کیونکہ حکومتی پارٹی اور اپوزیشن مل کر یہ جو الیکشن کمیشن کے ارکان کا تعین کرتی ہے۔ یہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ایک تکنیک ہے ایک دوسرے کی بات اس وقت کی جاتی ہیں جب آپ سیدھے راستے پر چل کر اپنا مطلب حاصل نہ کر سکیں تو پھر آپ بائیکاٹ کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے حوالہ سے بڑا شور ہوا اس حوالہ سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ میثاق جمہوریت کا مطلب ہوتا ہے کہ آﺅ مل کر باری باری کھیلیں زبانی کلامی ہم ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی کرتے رہیں گے لیکن کسی قیمت پر ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرائیں گے نہیں۔ نہ ہی ان کو ختم کریں گے اس پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن گامزن رہی ہے دس سال اس معاہدے کے تحت گزار دیئے۔ لہٰذا انہیں بار بار یاد آتا ہے کہ جناب میثاق جمہوریت بہت اچھی چیز تھی جس میں محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ نے میاں نوازشریف سے مل کر یہ طے کیا تھا کہ اپنی اپنی باری کھیلو۔
الیکشن کمیشن کے ممبران مقرر نہ کرنے سے صوبائی الیکشن لیٹ ہو سکتے ہیں اس کے ذمہ دار اپوزیشن اور حکومت دونوں پر عائد ہوتی ہے اور انہوں نے مل کر یہ طے کرنا تھا کہ جو مل کر طے نہیں کیا اور ممبران کا فیصلہ نہیں کیا تو پھر یہی ہونا تھا۔
جرمنی کے وزیرخارجہ کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ دونوں رہنماﺅں نے اتفاق کیا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال انتہائی بگڑ چکی ہے اسے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ مغربی جرمنی پہلا ملک ہے یورپ میں سے جس نے بڑا کھل کر کشمیر کی صورت حال کو محسوس کیا ہے اور اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ وہاں حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ وہاں حالات اس قدر خراب وہ خود کشمیری لیڈروں کے بیانات سے بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ فاروق عبداللہ جو کانگریسی ہیں لیکن بہرحال انڈیا کے رہنے والے ہیں خود وہاں وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں اور انہوں نے بھی یہ بار بار کہا کہ اب بھی انٹرویو دے رہے ہیں کہ مختلف چینلوں کو اور یہ کہہ رہے ہیں کہ جناب بندوق سے یہ مسئلہ حل نہیں ہونے والا وہ کہتے ہیں کہ کشمیری نوجوانوں سے بات کرنا ہو گی۔ جموں و کشمیر کے لوگوں سے بات کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اس کا کیا مطلب ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ جموں و کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ جرمنی کی طرف سے اس امر کا اعتراف کہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال بڑی خراب ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ یورپ بھی اب اس بات کو محسوس کرنے لگا ہے اور یورپی یونین جو خاص طور پر بہت سرگرم عمل ہوتی ہے اور ایک مدت سے ہمیشہ پاکستان کے خلاف اور انڈیا کے حق میں بات کرتی تھی اَب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اب یورپی یونین کے بہت سارے ممالک جو ہیں وہ یہ محسوس کر رہے ہیں کشمیر کے ایشو کی وجہ سے دونوں بڑے ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ کا خطرہ ہے اور پوری دنیا کا امن خطرے میں ہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک اور خبر شائع کی ہے مودی سرکار کا جو پانچ سالہ دور تھا وہ بھارت کا بدترین دور رہا ہے اس میں نہ تو معیشت میں کسی قسم کی بہتری آئی ہے بدترین معیشت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جو بھارت بیروزگاری کا 45 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ جنگ کے بارے میں گاس سے پہلے بھی انڈیا کا پول کھول چکا ہے اور وہ کہہ چکا ہے کہ انڈیا 10 دن سے زیادہ جنگ کے قابل نہیں ہے۔ وہ انڈیا کی ایئرفورس کی کمزوریاں سامنے لا چکا ہے اور اب اس نے معیشت پر ضرب لگائی ہے اور کہا ہے کہ معیشت کی بری حالت ہے۔ سب سے زیادہ یہ کہ انہوں نے خراب ہوتی ہوئی اور بگڑتی ہوئی بیروزگاری کو نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ انڈیا میں یہ ایک ریکارڈ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے کہ وہاں کی معیشت کی بہت بری حالت ہے۔
محسن ظہیر صاحب نے جو تجزیہ کیا ہے خاص طور پر جو امریکہ ایک مدت تک اینٹی پاکستان وہاں کا پریس رہا ہے۔ وہاں کی حکومت جب پاکستان کو ڈو مور کہتی تھی پولیس اس کو برا تڑکا لگاتا تھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ ڈنڈا لے کر ہمارے پیچھے پڑ گیا ہے۔ پاک بھارت جھڑپ کے بارے میں یہ جو بھی تناﺅ آیا ہے اس کو بھارت سیل نہیں کر سکا۔ انڈیا نے جو کچھ بھی کہا وہ اپنا بیانیہ بیچ نہیں سکا اور جو کچھ اس نے کیا ہے وہ ثابت نہیں کر سکا۔ خاص طور پر امریکی میڈیا کو تو کوئی ضرورت نہیں کہ مودی کی خوشامد کرے لہٰذا انہوں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ یہ ایف 16 والی سٹوری جھوٹی ہے 300 بندوں کے مارے جانے کی سٹوری جھوٹی ہے اور بار بار انڈیا کے اصرار کہ ہم نے وہاں پر کارنامہ انجام دیا نیویارک ٹائم نے کھلم کھلا کہہ دیا کہ ان کی دفاعی صلاحیت ہی مشکوک ہے۔ ان کی جو بنیاد تھی وہ ہی ہلا دی۔
نندی پور پراجیکٹ میں نوید قمر اور خواجہ آصف، پرویزاشرف اور بابر اعوان کے خلاف گواہ بن گئے انہوں نے اپنے ہی وزیراعظم کے خلاف کس طرح سے راجہ پرویز اشرف کے خلاف استغاثہ کے گواہ بن گئے یوں لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے اندر دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صورتحال تو شاید اتنی نہ بگڑے لیکن عمومی طور پر یہ سمجھا جائے گا۔ یہ ان کی پارٹی کے دونوں وزیر تھے اور دونوں ہی انرجی کے وزیر تھے یا تو لگتا ہے کہ گواہ نہ بنتے تو لگتا تھا شاید وہ خود پکڑے جاتے۔
افغانستان اور بھارت کا پرانا گٹھ جوڑ ہے، افغان حکومت نے ہمیشہ بھارت حکومت کو سپورٹ کیا، افغان سیکرٹ ایجنسی کے بھارتی ”را“ سے قریبی تعلقات میں پاکستان کے خلاف دونوں ایجنسیاں مل کر کام کرتی ہیں۔ افغان بھارت گٹھ جوڑ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ افغان حکومت اس وقت پاکستان کے خلاف چلے گی جبکہ امریکہ میں ٹرمپ حکومت امن کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو سراہتی ہے اور بارہا اعتراف کر چکی کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان نے کردار ادا کیا۔
افغانستان میں 8مسلمانوں کے قتل کی ذمہ دار افغان حکومت ہے جو امریکہ کی کٹھ پتلی ہے، ہر بات کا الزام پاکسکتان پر لگانا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ 8 افراد کے قتل کے شرمناک کھیل میں وہ براہ راست ملوث ہے ٹرمپ حکومت جو پاکستان کے امن بحالی کے کردار پر شکر گزار ہے اسے چاہئے کہ 8 بیگناہ پاکستانیوں کے قتل بارے افغان حکومت سے پوچھ گچھ کرے امریکہ کی ذمہ داری اس لئے بنتی ہے کہ افغان حکومت اس کی بنائی ہوئی ہے مغربی دنیا میں بچوں پر ہاتھ اٹھانے والے کو پولیس فوری گرفتار کر لیتی ہے جبکہ ہمارے یہاں اس معاملے پر کوئی باز پرس نہیں کی جاتی اور بعض اوقات والدین تشدد سے بچوں کو زخمی تک کر دیتے ہیں۔ حافظ آباد میں بھی ایسا ہی افسوسناک واقعہ پیش آیا کہ ایک ماں نے چھری کے وار سے بچوں کو زخمی کر دیا۔ مغرب کی طرح یہاں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو قانون سازی کرنی چاہئے اوربچوں پر تشدد کرنے کو قابل دست اندازی پولیس ہونا چاہئے اور ایسے والدین جو بچوں کو بے جا سخت تشدد کا نشانہ بناتے ہیں انہیں گرفتار کیا جانا چاہئے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv