ماسکو(ویب ڈیسک)ماسکو کانفرنس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا پر اتفاق کرتے ہوئے یقین دلایا گیا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔روس کے دارالحکومت ماسکو میں مسئلہ افغانستان پر دو روز تک امن مذاکرات ہوئے جن میں افغانستان کی سیاسی جماعتوں، سابق صدر حامد کرزئی سمیت نمایاں سیاست دانوں اور طالبان کے نمائندوں نے شرکت کی تاہم کابل حکومت کا کوئی نمائندہ شریک نہیں ہوا۔کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیہ میں افغانستان میں پائیدار امن کے لیے امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے مکمل انخلا پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ دنیا کے تمام ممالک افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں۔ افغان فریقین نے عالمی برادری کو یقین دہانی کرائی کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔شرکا نے ملک کے لیے اسلامی اصولوں کی روشنی میں افغان خواتین کے حقوق کے تحفظ اور شہریوں کے آزادی اظہار رائے کے حق کو یقینی بنانے پر بھی اتفاق کیا جبکہ افغانستان کی تعمیر نو کے لیے مالی معاونت کی ضرورت پر زور دیا۔اجلاس میں طالبان رہنماﺅں کا نام اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے نکالنے، قطر میں ان کے باضابطہ سیاسی دفتر کے قیام اور قیدیوں کی رہائی پر بھی اتفاق کیا گیا۔مذاکرات کا اگلا دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوگا۔طالبان نے مذاکرات کو انتہائی کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا اپریل تک افغانستان سے اپنے نصف فوجیوں کو واپس بلا لے گا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق اس غیر معمولی کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ کل ایک دوسرے کے جانی دشمن آج ایک ساتھ نماز پڑھ رہے تھے اور کھانا کھارہے تھے۔ پھر طالبان رہنما اور سابق صدر حامد کرزئی ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے جبکہ حامد کرزئی نے طالبان کو اپنا بھائی کہا اور دونوں نے پائیدار امن پر اتفاق کیا۔مذاکرات میں طالبان وفد کے سربراہ شیر عباس ستانکزئی اور حامد کرزئی نے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوکر مسکراتے ہوئے میڈیا سے مشترکہ بات چیت کی۔تمام فریقین نے امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں براہ راست مذاکرات کی حمایت کی۔ روسی دارالحکومت میں وہ مناظر دیکھے گئے جن کا ماضی میں شاید تصور بھی نہ کیا جاسکتا تھا۔مذاکرات میں شریک دو افغان خواتین سیاست دانوں نے طالبان پر کڑی تنقید کی اور ان کی اسلامی تشریحات پر اعتراضات اٹھائے لیکن طالبان نے انہیں سنا اور جواب دے کر اعتراضات دور کرنے کی کوشش کی۔ اس کام کا شاید طالبان دور میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ماسکو کانفرنس نے نہ صرف طالبان اور ان کے حریف افغان رہنماﺅں و سیاست دانوں کے درمیان نہ صرف غیر معمولی بات چیت کا موقع فراہم کیا بلکہ یہ اس لحاظ سے بھی اہم تھی کہ بعض لوگوں کو شاید پہلی بار طالبان قیادت کو دیکھنے کا موقع ملا جو عموما میڈیا سے دور رہتے ہیں۔ طالبان رہنما میڈیا نمائندوں میں گھرے اور براہ راست نشریات میں اپنا منشور پیش کررہے تھے۔مذاکرات میں انہوں نے وعدہ کیا کہ اقتدار پر اجارہ داری قائم نہیں کریں گے لیکن افغانستان میں حکمرانی کے لیے جامع اسلامی نظام ضرور قائم کریں گے۔