لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں ملتان میاں غفار نے کہا ہے سندط طاس معاہدہ 1960ءمیں ہوا تھا۔ 56 سال سے یہ معاہدہ کاغذات تلے دبا ہوا تھا۔ کوئی حکومت اس بارے باتا نہیں کرتی تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ اس کا کریڈٹ ضیا شاہد صاحب کو اتا ہے کیونکہ آبی ماہر نہیں ہیں، قانونی ماہر نہیں، سیاستدان نہیں ہیں، صحافی ہیں۔ انہوں نے اس پر جب کام شروع کیا ایک ڈیڑھ سال پہلے تو میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اس مسئلے کو آگے لے جائیں گے کہ وہ اسے نیشنل اور نٹرنیشنل لیول پر لے جائیں گے۔ ضیا شاہد صاحب نے اس پر اتنی سٹڈی کی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ لوگ پڑھتے ہی نہیں، لوگ تحقیق نہیں کرتے۔ سیاستدانوں نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ کوئی دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرنی ملک کو جاہل اور قوم کو جاہل رکھنا ہے۔ اپنے حلقے کے عوام کو جاہل رکھنا ہے۔ یہ حکمرانوں کے کرنے کے کام، ایوب خان کے بعد سب سے پہلے یحییٰ خان کے کرنے والا، بھٹو، جنرل ضیاءالحق کے کرنے والا، نوازشریف، بے نظیر جتنے بھی حکمران اس ملک میں آئے۔ یہ لوگ دُنیا اور آخرت میں اس حوالے سے ضرور جوابدہ ہوں گے ملک میں غربت کا جو دور دورہ رہا ہے اس کی وجہ یہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلے آدمی ضیا شاہد ہیں جنہوں نے اس پر آواز بلند کی اور 1970ءکا ایک معاہدہ نکالا۔ معاہدہ یہ تھا کہ کوئی ملک کی دوسرے زیریں ملک آبی حیات، پینے کا پانی اور اسکے بعد جنگلی حیات کا پانی بند نہیں کر سکتا۔ یہ جو چار پانچ قسم کے پانی ہیں یہ دریا کا 20 سے 25 فیصد بنتے ہیں۔ انڈیا سندھطاق معاہدہ کے تحت خود سارے پانی حاصل کر رہا ہے اپنے علاقے میں جو ہمارا دریائے جناب، جہلم ہے وہاں سے آتا ہے تو انڈیا اس میں اپنے حصے کا پانی نکالتا ہے اور ان پر غیر قانونی طور پر ڈیم بھی بنائے ہوئے ہیں لیکن ستلج سوکھا ہوا ہے۔ اگر ستلج میں 20 فیصد پانی بھی چلتا ہے، 25 فیصد چلتا تو زیر زمین پانی میں بہاولپور میں سنکھیا نہ آتا۔ یہ انڈیا نے ظلم کیا، انڈیا نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ 1970ءکا جو معاہدہ تھا اس کی روشنی میں تو انڈیا پانی نہیں روک سکتا۔ آپ گنڈا سنگھ جائیں تو وہاں پشتے لگا کر سیدھا سیدھا دریا بند کر رکھا ہے اور بدقسمتی اور دکھ کی بات یہ ہے کہ زیرو لائن پر جائیں قصور سے گنڈا سنگھ سے شروع ہوں اور بدین تک سندھ میں جائیں تو پورا چولستان دیکھیں اور تھر تک آپ جائیں، ہمارا جو چولستان ہے وہاں پانی کی ایک بوندھ نہیں ہے وہاں ہمارے جو رینجرز کے جوان بیٹھے ہیں وہ بھی گھڑے دور دور سے بھر کر لاتے ہیں۔ دوسری طرف خار دار تار کے عین دوسری طرف یہی صورتحال ہے کہ سرسبز شاداب زرعی زمینیں ہیں انڈیا کی۔ انسان کے ساتھ تو ظلم ہوا ہے ہماری جو چولستانی گائیں ہیں اگر وہ گھاس چرتی چرتی اس طرف زیرو لائن کی طرف نکل جائیں تو پھر ان کے نتھنوں میں، ناک میں سبز چارے کی خوشبو ااتی ہیں۔ پھر وہ دیوانہ وار بھاگتی ہیں اس خار دار تاروں کی طرف اور وہاں سے تاروں میں سے اپنی گردن پھنسا کر وہ سبز چارہ کھانے کی کوشش کرتی ہیں اور بعض اوقات تاریں ان کی شہ رگ میں گھس جاتی ہیں اور گردنوں سے خون نکلنے لگتا ہے اور اکثر وہ تڑپ تڑپ کر جان دے دیتی ہیں۔ یہ ظلم اس گائے کے ساتھ ہو رہا ہے جسے ہندو گاﺅ ماتا کہہ کر پوجتا ہے۔ جس گاﺅ کا ہندو یورین پیتا ہے اپنی گائے کا یورین پیتا ہے اور ہماری گائے تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہیں اس کو اٹھاتا کوئی نہیں اس قدر ظلم ہو رہا ہے۔ ضیا شاہد نے سندھ طاس کے حوالے سے آواز بلند کی اور پورا کیس تیار کیا۔ اس کے لئے انہوں نے پتہ نہیں کتنی راتیں جاگ کر گزاری ہیں وہ لگے رہتے تھے۔ آخر کار انہوں نے کیس کیا پھر انہوں نے تیاری کی کہ میں اسے عالمی عدالت میں لے کر جاﺅں گا۔ اور جتنا کام اس پر انہوں نے کیا انڈیا نے عالمی عدالت میں سوفید مار کھانی تھی اور ہم نے وہ کیس جیتنا تھا کیونکہ 1970ءکے عالمی کنونشن کا جو فیصلہ ہے اس کے تحت 20 فیصد پانی وہ چھوڑ دے تو ہمارے تو بہت سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ میں معلومات کی روشنی میں پورے یقین سے بات کر رہا ہوں کہ روزنامہ خبریں جن دنوں یہ ایشو اٹھا رہا تھا روزنامہ خبریں کی ایک ایک خبر کی کٹنگ انڈین ہائی کمشنر کے پاس جاتی تھی اوار وہاں باقاعدہ جو ہمارا جو ہم منصب ہے واٹر کمشنر وہ باقاعدہ ان خبروں کا ترجمہ کر کے انگلش میں ترجمے کروا کر بھارتی وزیراعظم کو پیش کیا جاتا تھا اس کے اوپر وہ سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ کیا بنا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج اگر انڈیا اس طرف آ گیا ہے تو ایک دباﺅ تو بنا ہے کل بھارت کیا کرتا ہے وہ الگ بات ہے۔ اس کا کریڈٹ تو ضیا شاہد کو جائے گا۔