دمشق (ویب ڈیسک)امریکی سربراہی میں شام میں برسر پیکار اتحادیوں نے کہا ہے کہ شام سے فوجیوں کی واپسی شروع ہوچکی ہے۔خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی سربراہی اتحاد کے ترجمان کرنل سین ریان کا کہنا تھا کہ ‘کمبائنڈ جوائنٹ ٹاسک فورس آپریشن انہرینٹ ریزولو (سی جے ٹی ایف-او آئی آر) نے شام سے اپنے فوجیوں کی واپسی کے عمل کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘متحرک سیکیورٹی کا خیال رکھے بغیر ہم حتمی تاریخ، مقام یا فوجیوں کی نقل و حرکت پر بات نہیں کریں گے’۔انسانی حقوق کی شامی تنظیم کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اتحادیوں نےشمال مشرقی صوبے حسکہ میں رمیلان ائرفیلڈ پر اپنی فوجیوں کی کمی شروع کردی ہے۔تنظیم کے سربراہ رامی عبدالرحمٰن کا کہنا تھا کہ ‘حسکہ کے رمیلان ملٹری بیس سے گزشتہ روز ہی چند امریکی فورسز نے واپسی کر دی تھی’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘امریکی صدر کے اعلان کے بعد یہ واپسی پہلی مرتبہ ہوئی ہے’ جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے مکمل فوجی انخلا کا اعلان گزشتہ ماہ کیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 دسمبر کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے شام سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کا حکم دے دیا ہے جو ایک اندازے کے مطابق تقریباً 2ہزار ہے۔خیال رہے کہ ٹرمپ نے اس کا اعلان ترک صدر رجب طیب اردوان سے ٹیلی فونک گفتگو کے بعد کیا تھا تاہم اس فیصلے پر امریکا میں شدید تنقید کی گئی تھی۔ٹرمپ انتظامیہ کے سیکریٹر دفاع سمیت کئی سینئر عہدیداروں نے شام کے حوالے سے سالہ پرانے معاملے پر اس طرح کے اچانک فیصلے پر اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا نے شام میں دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ کو شکست دے دی ہے۔امریکی صدر نے ٹوئٹ کیا کہ ’شام میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کا واحد مقصد داعش کے جنگجوو¿ں کی شکست تھی‘۔بعد ازاں امریکا کے سیکریٹری دفاع جم میٹس اور نائب وزیر خارجہ بریٹ میک گروک نے جنگ زدہ ملک شام سے امریکی فوجیوں کی واپسی سے متعلق صدر ٹرمپ کے فیصلے پر اختلاف کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔جم میٹس نے اپنے استعفیٰ میں تحریر کیا تھا کہ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اتحادیوں کے ساتھ احترام سے پیش آیا جائے اور شرپسند عناصر کے خلاف سختی برقرار رکھی جائے کیوں کہ ہم گزشتہ 4 دہائیوں سے ان مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں بین الاقوامی صورت حال کو درست رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانا چاہیے کیوں کہ یہی ہماری سلامتی، خوش حالی اور روایات کے لیے سازگار ہے اور ہم اس کوشش میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر مضبوط ہوں گے۔امریکی صدر کے اس اعلان کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان ے شام میں داعش کے خلاف جنگ کی سربراہی کرنے کا اعلان کیا تھا۔استنبول میں ایک تقریر کے دوران رجب طیب اردوان نے کہا کہ ترکی فی الحال شام میں داعش کے جنگجوﺅں کے خلاف کارروائی پر توجہ مرکوز رکھے گا جبکہ شمال مشرقی شام میں کرد باغیوں پر حملے عارضی طور پر معطل کردیے جائیں گے۔ترک صدر کا کہنا تھا کہ ہم داعش کے خاتمے کے لیے اپنے منصوبے پر کام کرتے رہیں گے اور صدر ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے نتیجے میں شام میں اپنی موجودگی برقرار رکھیں گے۔