تازہ تر ین

پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بچ گیا تو یہ عمران کی بڑی کامیابی ہو گی : ضیا شاہد ، زینب کے مجرم کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھا : حاجی امین ، سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں ملوث معطل افسر اور اہلکار وعدہ معاف گواہ بننے کو تیار ہیں : خرم نواز ، چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج عمران خان صاحب سے بڑی بڑی خبریں ملی ہیں۔ اخبارات کی دونوں تنظیموں سی پی این ای اور اے پی این ایس کے علاوہ پی بی اے یعنی پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن وہ تنظیم جو اخبارات کے علاوہ ٹی وی چینلز کی تنظیم ہے گویا تینوں الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی دونوں تنظیموں کی ملاقات تھی۔ اس ملاقات میں جو بہت بڑی خبر جو اس سے ملی ہے عمران خان نے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ہم اخبارات کے اشتہارات پر پابندی لگانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی بحران جنم لے رہا ہے۔ دوسری بات جو انہوں نے کہا ہو سکتا ہے ہم آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی متبادل راستہ اختیار کریں انہوں نے کہا کہ میں دو ملکوں کے دورے پر جا رہا ہوں اور امید ہے کہ شاید کوئی دوسرا راستہ نکل آئے۔ تاہم اگر آئی ایم ایف کے پاس جانا بھی پڑا بھی تو ہم ہر گز ان کی کڑی شرائط تسلیم نہیں کریں گے اور من و عن ان کی باتوں کو تسلیم کر کے قرضہ لینے کی کوشش نہیں کریں گے۔ تیسری اور بڑی بات یہ تھی کہ اخبارات کے موجودہ اخراجات کو کم کرنے کے لئے کیونکہ اخباری صنعت پہلے ہی بہت مشکلات کا شکار ہے تو اس پر عمران خان نے جو نیوز پرنٹ پر 13 پرسنٹ ڈیوٹی تھی اس میں سے 5 فیصد کمی کر دی ہے گویا تقریباً ہر اخبار کو جو کاغذ امپورٹ کرتا ہے اس کے بجٹ پر اثر پڑے گا اور اس کے اخراجات کم ہو جائیں گے۔ چوتھی اور بڑی خبر یہ ہے کہ عمران خان نے کہا ہے کہ ہم غیر ملکی دوروں کے بعد فیصلہ کریں گے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت ہے بھی یا نہیں اس لئے لگتا ہے کہ امید ہے کہ شاید پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے دوست ممالک سے مدد ایسی مل جائے کہ باآسانی اس معاشی بحران سے نکل سکے۔ اس کے علاوہ ملاقات میں عمران خان کے ساتھ تفصیل کے ساتھ جن واقعات کا ذکر کیا جن کی وجہ سے غریب لوگوں کے اکاﺅنٹ میں سے جو اربوں روپے نکل رہے ہیں اور کس طرح سے بندے کو پتہ بھی نہیں ہوتا اس کے اکاﺅنٹ میں پیسے جمع کئے جاتے ہیں اور پھر اس کے ذریعے پاکستان سے باہر بھیجے جاتے ہیں۔ آخر بات جو عمران خان نے کہی وہ یہ تھی کہ پاکستان میں غیر یقینی صورت حال ہے اس وقت اس حد تک ہے کہ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید پاکستان آئی ایم ایف جانے کے علاوہ بھی کوئی اور راستہ مل جائے اگر اس قسم کا کوئی راستہ نکلتا ہے یعنی کسی دوست ملک سے پاکستان کو امداد یا گرانٹ مل جاتی ہے یا کوئی ایسا قرضہ مل جاتا ہے جو آسان شرائط پر ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا کام ہو گا ویسے عمران خان نے کہا ہے کہ آپ چھ ماہ اور انتظار کریں چھ ماہ کے بعد آپ دیکھیں گے کہ پاکستان کی صورت حال یکسر مختلف ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ شور مچا رہے ہیں اسمبلیوں کے اندر ان کی مراد غالباً شہباز شریف کی اس تقریر سے تھی جو انہوں نے آج کی ہے جس میں انہوں نے بھاری الزامات لگائے لیکن عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ وہ لوگ جو اس وقت اس اعتبار سے پکڑے جا رہے ہیں ان کو اچانک جمہوریت یاد آ رہی ہے اور وہ جمہوریت کو بچانے کے لئے حالانکہ وہ خود جمہوریت پر نہیں چلتے تھے۔ اور جمہوریت کی بجائے وہ ایک بادشاہت کا نظام قائم کیسے ہوتے تھے اس کے علاوہ ان کا یہ کہنا ہے کہ اب تک 128 اکاﺅنٹ مل چکے ہیں جن کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ ایک اور خبر وہ یہ تھی کہ عالمی عدالت میں جو کیس ہیں ان کے اخراجات اور وکیلوں کی مد میں اربوں روپے خرچ کئے گئے لیکن وہ سارے کے سارے مقدمات ہار گئے یا تو نالائق لوگ رکھے جاتے رہے یا پھر اس پر محنت نہیں کی جاتی۔ یہ بھی صرف پیسے بنانے کا اور مختلف لوگوں کی جیلوں میں پیسے جاتے رہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت وائٹ کالر کرائم ثابت کرنا سب سے مشکل کام ہے کیونکہ عجیب و غریب طریقے لوگوں نے نکالے ہوئے ہیں۔ اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن وہ جو جمہوریت کو اس لئے خطرے میں ہے کا شور مچا رہی ہے تا کہ وہ جیلوں میں جانے سے بچ جائے لیکن ہم لازماً جن لوگوں کو جیلوں میں جانا چاہئے انہیں جیلوں میں لے جا کر چھوڑیں گے۔ اس ملاقات میں تین خبریں ضائع ہوئی ہیں ایک یہ کہ حکومت کا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ اخبارات کے اشتہارات پر مشتمل پابندی لگائے۔ یہ پابندی ختم ہوتی ہوئی نظر آئے گی۔ اس کے لئے راستے تلاش کئے جا رہے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ مجھے میڈیا کی سپورٹ نہ ملتی تو میں اپنا پیغام لوگوں تک نہیں لے کر جا سکتا تھا انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ایک سوال کے جواب میں یہ جواب گرین پاکستان کی مہم چلائی گئی ہے اور نیٹ اینڈ کلین اور صاف پاکستان کی تو اس کے لئے جتنی تگ و دو ہونی چاہئے تھی اور جتنی اشتہاری مہم ہونی چاہئے تھی ہمارے پاس پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم نہیں چلا سکے لیکن انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے اندر ہم یہ جو مشکلات ہیں ان پر قابو پا لیں گے اور اس کا کوئی نہ کوئی متبادل تلاش کر لیں گے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اخبارات کے نیوم پرنٹ پر 4 فیصد ڈیوٹی میں کمی اور یہ اعلان کہ ہم اخبارات کے اشتہارات پر پابندی لگانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور تیسرے یہ کہ اخبارات کے اشتہارات کی ادائیگی کے لئے خصوصی کمیٹی بنا رہے ہیں تا کہ اخبارات کو جو ان کے بقایا جات ہیں وہ مل سکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اخباری صنعت کا جو موجودہ بحران ہے جس پر میں نے بھی اپنا حصہ ادا کیا تھا اور بھی بہت سارے ہمارے فاضل دوستوں نے اس مسئلے پر گفتگو کی تھی تاہم میں نے بھی اس پر یہ کہا کہ جو فوری بحران ہے اخباری صنعت کا اس کو حل کرنے کے لئے حکومت کو فوری طور پر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ دوست ممالک سے مراد چین ہے جس کے دورے پر وہ جا رہے ہیں۔ دوسرا سعودی عرب ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ سعودی عرب نے جب یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ سی پیک میں شرکت کرے گا اور اس منصوبے میں آئل سٹی بنائے گا۔ یقین ہے پاکستان کو اس سے بھی مالی ریلیف اس کے سامنے آنے کی توقع ہے۔ چائنا کی طرف سے بھی پاکستان کو امید ہے کہ شاید کچھ سہولتیں مل جائیں۔
شہباز شریف کی پارلیمنٹ میں تقریر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا شہباز شریف صاحب کے جو الزامات پر غور ہونا چاہئے اگر ان میں کوئی صداقت ہے تو ان کو دور ہونا چاہئے۔ وہ رکن اسمبلی ہیں۔ کبھی جیلوں میں ہوادار کمروں، پھولدار فضاﺅں کا تصور ہوتا ہے۔ جیلیں تو جیلیں ہوتی ہیں ان میں مشکلات تو ہوتی ہیں۔ نیب کے سربراہ کو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے مشترکہ طور پر منتخب کیا تھا۔ چیئرمین اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ انہیں کس نے لگایا تھا۔
ضیا شاہد نے کہا چین کی ہر حکومت نے ہر بار کہا ہے کہ ہماری مستقل دوستی پاکستان کی ریاست سے ہے کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے۔ ملک میں بڑے لوگ ہمیشہ دوہری شخصیت رکھتے ہیں تا کہ اگر کسی طرف سے بھی ان پر کڑ آئے تو وہ غیر ملک کے شہری قرار دے کر سہولت لے لیتے ہیں۔
راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ سیاست میں بھائیوں کا آپس میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے اس کی بڑی مثال موجودہ وزیرخزانہ ہیں ان کے بڑے بھائی ن لیگ سے گورنر سندھ رہے۔ اس میں کوئی اخلاقی یا قانونی جرم نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے اسد عمر اور محمد زبیر سگے بھائی ہیں۔ ضیا شاہد نے کہا ہے کہ مجاہد کامران یونیورسٹی کے وی سی تھے۔ ہو سکتاہے ان سے کوئی غلطی ہوئی ہو بہرحال اہل علم لوگوں کی عزت و احترام ہونا چاہئے قابل عزت انسان ہیں۔ اخبارات اور چینلز نے بھی شدید مذمت کی تھی کہ اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر اس طرح نیب میں پیش کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ اچھا ہوا کہ نیب کے سربراہ نے اس کا نوٹس لیا اور متعلقہ افسر کو فارغ کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اچھا قدم ہے عام طور پر حکومتیں بدلتی جاتی ہیں اور افسر وہیں بیٹھے رہتے ہیں اچھی بات ہے کہ اس موقع پر سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں ملوث 116 افسروں اور اہلکاروں کو معطل کیا گیا بلکہ ان کو لائن حاضر کیا گیا۔ اچھی روایت قائم کرنے پر انکا شکر گزار ہونا چاہئے۔ نیب کا دعویٰ ہے اور اب تک یہی لگتا ہے کہ انکا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نئے آئی جی پنجاب کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں ملوث 116 پولیس اہلکاروں کو عہدوں سے فارغ کرنے کے حوالے سے ضیا شاہد کا کہنا تھا کہ یہ ایک اچھا قدم ہے کیونکہ عام طور پر حکومتیں بدلتی رہتی ہیںاور افسر وہیں رہتے ہیں اور اتنے ہی اختیارات انکے پاس ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان پر خود الزامات ہوتے ہیں کہ انہوں نے ناجائز کام کیے ہیںلیکن کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ اچھی بات ہے کہ ان افسران کو نہ صرف معطل کیا گیا بلکہ لائن حاضر کیا گیا۔ نئے آئی جی اس موقع پر اپنے عمل سے ثابت کریں ۔ یہ اچھی بات ہے یہ کام توشہباز شریف کے دور میں ہونا چاہئے تھا جنکے دور میں سانحہ ماڈل ٹاﺅن ہوا تھا۔
پروگرام میں اس موقع پر رہنما عوامی تحریک خرم نواز گنڈا پورنے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ خوش آئند قدم ہے۔ آج شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپنے لیے انصاف کا رونا اور بھیک مانگ رہے تھے، ہم چار سال سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے انصاف کے لیے سڑکوں پر رہے اور 4 سالوں میں نہ تو شہباز شریف کو انصاف دینے کا خیال آیا اور نہ نواز شریف کو۔ یہ اللہ کا نظام ہے کہ جو آپ دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں وہی آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ آج دونوں مجرم ہیں اور دونوں بھیک مانگ رہے ہیں۔ عدالتوں اوراسمبلی میں جا کر اس نیب کا رونا رو رہے ہیںجو ان کی اور خورشیدشاہ کی مشاورت سے بنی۔ آج انکو نیب سے کیا شکایت ہو سکتی ہے، جس کا چیئرمیں انہوں نے اور خورشید شاہ نے لگایا تھا۔ ہم مطمئن ہیں پچھلے دنوں ایک بچی بسمہ کے ساتھ میں چیف جسٹس صاحب کے پاس گیا انہوں نے بچی کی پوری بات سنی اور وعدہ کیا کہ ماڈل ٹاﺅن کا انصاف ہو کے رہے گا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ شروعات ہے، اس سے پہلے اچھا قدم یہ سامنے آیا ہے کہ 120 یا 125 لوگوں پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔ فرد جرم یہ ہوتی ہے کہ ”you are guilty or not guilty“ ۔اگرچہ برٹش لاءکے مطابق ہر کوئی کہہ دیتا ہے کہ”not guilty“ لیکن بحرحال وہاں سے عمل شروع ہو جاتا ہے اور استغاثہ کا فرض بنتا ہے کہ ملزم کے خلاف ثبوت مہیا کرے اور اسے سزا دلوائے۔اتنے بڑے خوفناک اور بہیمانہ جرائم کرنے والے لوگ انہی سیٹوں پر لاہور میں کوئی ڈی سی پی، ایس پی، انسپیکٹر اور کوئی اے ایس آئی تھا اور سمجھا جاتا تھا کہ خاک انصاف ہو سکتا ہے جب وہ اپنی انہی سیٹوں پر بحال ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پولیس کی طرف سے شہباز شریف کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہ اقدامات قابل تعریف ہیں۔
خرم نواز گنڈا پور نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کے اقدامات قابل تعریف ہیں، یہ شروعات ہے، شہباز شریف نے اسمبلی میں ذکر کیاکہ انہیں وعدہ معاف بننے کو کہا گیا تو میں شہباز شریف کو خوشخبری دوں کہ پولیس والے ہم سے مسلسل رابطے میں ہیںاور وعدہ معاف گواہ بنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔کیس آگے بڑھنے پر انہیں پتا لگے گا کہ انکے خلاف کتنے پولیس والے وعدہ معاف گواہ بننے کو تیار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو پتا ہے کہ اب ان کا دور حکومت ختم ہو گیاہے۔ جب تک یہ حکومت میں تھے، اتنے ظالم تھے کہ کسی افسر کو اپنے مکمل کنٹرول میں لیے بغیر کہیں ٹکنے نہیں دیتے تھے۔
زینب قتل کیس کے مجرم علی عمران کو زینب کے والد کے سامنے پھانسی دیے جانے پر ضیا شاہد کا کہنا تھا کہ یہ اچھا اقدام ہے۔
پروگرام میں معصوم زینب کے والدحاجی محمد امین انصاری نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم ملزم کو اپنی آنکھوں کے سامنے کیفر کردار تک پہنچا کر آئے ہیں۔ ہر ادارے، فرد اور میڈیا کے تعاون سے ہمیں انصاف ملا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ ، عوام اور میڈیا کے تعاون سے بدبخت اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ زینب سمیت 8 بچیوں کیساتھ جو ہوا اسکی تلافی نہیں ہو سکتی لیکن سمجھتا ہوں کہ انسانی طور پر جو ممکن ہو سکتا تھا آج بظاہر اسکی تلافی ہوتی نظر آتی ہے۔ مگر باقی 7بچیوں کے والد پھانسی کے وقت وہاں موجود کیوں نہیں تھے ، انہیں دلچسپی نہیں رہی یا کسی خوف کے باعث وہ جیل نہیں پہنچ سکے؟ جس پر زینب کے والد کا کہنا تھا کہ علی عمران کے خلاف تمام اپیلیں زینب کیس کے حوالے سے کی گئی تھیں۔ اسی کیس میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اورپھر صدر پاکستان کی جانب سے رحم کی اپیلیں مسترد کی گئیںاور ملزم کے ڈیتھ وارنٹ جاری ہوئے۔ جیل حکام کی جانب سے مجھے میرے نام خط بھیجا گیا۔ باقی بچیوں کے والدین نے کل شام مجھ سے رابطہ کیا کہ وہ بھی ملزم کی پھانسی کے موقع پر جیل جانا چاہتے ہیںمگر انہیں جیل حکام کی جانب سے کوئی خط موصول نہیں ہوا۔ بچیوں کے والدین کے اصرار پر جیل حکام سے رابطہ پر بتایا گیا کہ خط زینب قتل کیس کے فیصلے پر جاری کیا گیا ہے لہذا زینب کے والد کے علاوہ اور کوئی نہیں آسکتا۔ جبکہ ہائی کورٹ میں جسٹس نسیم کے سامنے بات ہوئی تھی کہ پھانسی کے موقع پر 12 لوگ جیل میں جا سکتے ہیں۔جیل حکام سے رابطے پر انہوں نے 5 سے 7 لوگوں کو شناختی کارڈ کیساتھ آنے کی اجازت دی ۔ صبح جیل پہنچے پر 4 لوگوں کو جیل میں آنے دیا گیا اور پھانسی گھاٹ میں صرف مجھے بطور مدعی جانے کی اجازت دی گئی اور ہمارے سامنے ملزم کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv